کراچی سے لاہور آنے کے لیے پی آئی اے کا درمیانہ سا طیارہ اُڑنے کے لیے تیار تھا۔ جہاز کے دروازے بند ہونے کے قریب تھے۔ روسی پائلٹ عجیب طریقے سے انگریزی بول کر موسم اور سفر کے دورانیے کے متعلق بات کر رہا تھا۔ ہر جملے کے بعد ”انشاء اللہ” کہتا تھا۔ اسے کسی معتبر آدمی نے سمجھایا ہو گا کہ پاکستانی قوم ہر فقرے کے بعد مخصوص انداز میں یہ الفاظ ضرور استعمال کرتی ہے۔
بہرحال جہاں جملے کے بعد صرف خاموش رہنا چاہیے تھا، روسی پائلٹ ضرور انشاء اللہ کہتا تھا۔ کیبن کے فضائی عملہ میں ایک ویت نامی اور ایک فلپائنی خاتون تھی۔ احساس ہوا کہ ہم ہر معاملہ میں دوسری قوموں کے حد درجہ محتاج ہو چکے ہیں۔ کہاں وہ ماضی کی پی آئی اے، جس نے متعدد فضائی کمپنیوں کو کاروبار کے آداب سکھائے تھے اور کہاں یہ کرائے پرلیے گئے ہوائی جہاز جس کے فضائی عملہ میں پاکستانی نہ ہونے کے برابر تھے۔ پی آئی اے نے کرائے پر جہاز لیکر اپنا قومی بھرم مزید کم کر دیا ہے۔
خیر بھرم تو اب یہاں کسی شخص، ادارے یا سیاسی مسخرے کا نہیں رہا۔ اگر کسی نے”تنزلی” لفظ کا مطلب سمجھنا ہے، تو فوری طور پر پاکستان کے حالات کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ جہاں بدقماش حد درجہ معتبر ہیں۔ شرفاء کونے کھدروں میں عزت اور جان بچا کر پھٹی آنکھوں سے سب تماشہ دیکھ رہے ہیں۔
دروازہ بندہونے سے ڈیڑھ منٹ پہلے حددرجہ پریشان حال شخص اندرداخل ہوااورتیزی سے چلتاہواجہازکی آخری نشست پربیٹھ گیا۔جہازچلنے سے پہلے بوجھل قدموںکے ساتھ ائیرہوسٹس کے پاس گیا۔ہاتھ میں کاغذ کا ایک ٹکڑاتھا۔ائیرہوسٹس نے قہرآلودنظروں سے اس اجنبی شخص کودیکھااوربتایاکہ جاؤاپنی مخصوص نشست پربیٹھ جاؤ۔ مگر مسافروہیں کھڑارہا۔
عجیب دکھ بھرے اندازمیں کاغذ فضائی میزبان کی آنکھوں کے سامنے رکھااورپوچھنے لگاکہ کیا میرے والدکی ڈیڈباڈی جہازمیں پہنچ چکی ہے؟جہازمیں ایک سناٹا ساچھا گیا۔ ائیرہوسٹس نے کاغذلیااوربرسرکے پاس گئی۔بتایاکہ ایک مسافرپوچھ رہاہے کہ کیاکوئی میت جہازمیں رکھ دی گئی ہے۔برسرتیزی سے مسافرکی طرف آیااوراسے اطمینان دلوایاکہ ہاں، تابوت مسافروں کے سامان رکھنے والے حصے میں پہنچا دیا گیاہے۔
ادھیڑعمرشخص نے کھوئے ہوئے اندازسے کہا،کہ لندن سے آرہا ہے۔ پچھلے سفرمیں عملہ کی غلطی کی وجہ سے تابوت جہازتک پہنچ نہ پایاتھااوروہ ائیرپورٹ پردودن تکلیف میں انتظار کرتا رہا۔ کیونکہ ڈیڈباڈی کوپاکستان لانے کے تمام سرکاری معاملات طے نہیں ہوئے تھے۔یقین ہونے پرمسافراپنی نشست کی طرف چلاگیا۔اجنبی شخص کی باتیں تھوڑی دیربعدسب بھول گئے۔وہی عامیانہ سی روٹین،وہی سیٹوں کے درمیان کھانے پینے والی ٹرالی،وہی چائے یاکافی کی آواز۔مگرمیں اپنی سیٹ پر بیٹھاہواذہنی طورپرمنجمدساہوگیا۔
ہوائی مسافروں کاسامان بنیادی طورپرایک ایسے کھلے خانے میں رکھاجاتاہے جو جہاز کے مسافروں کے قدموں کے نیچے ہوتاہے۔عملی طورپرہم تمام لوگ اپنے سامان کے اوپربیٹھ کرسفرکرتے ہیں۔ احساس نہیں ہوتاکہ ہمارے بیگ، سوٹ کیس اورسفری سامان ہمارے ہی پیروں کے نیچے پڑاہے۔مجھے احساس ہو رہا تھا کہ اس سامان میں ایک شخص کی نعش بھی ہے۔
ایک بے جان باڈی جولندن میں غلطی سے سوارنہ کروائی جاسکی اور اب خاموشی سے لاہورکی طرف جارہی ہے۔ایک بے روح انسان کے تابوت سے ذراسا اوپربیٹھ کرسفرکرنابہت مشکل لگا۔لاہورآنے پر،سارے مسافراپنااپناسامان بیلٹ سے اٹھانے میں مصروف ہوگئے۔غورسے دیکھاتواجنبی مسافر سامان اُٹھانے والوں میں شامل نہیں تھا۔معلوم ہواکہ باڈی کوایک گاڑی میں علیحدہ رکھ کرائیرپورٹ کے مختص دروازے سے باہر نکالا جاتاہے۔
کوشش ہوتی ہے کہ عام مسافروں سے دوراوران کی آنکھوں سے اوجھل طریقے سے تابوت کو باہر لایا جائے۔سوچتاہواائیرپورٹ سے باہرنکلا اور دفتر آگیا۔ مگر ذہن میں باربار، مسافرکے کہے ہوئے لفظ آسمانی بجلی کی طرح آرہے تھے۔کیامیرے والدکی ڈیڈ باڈی جہازمیں پہنچ چکی ہے۔اس شخص کاغم زدہ چہرہ بھی سامنے گردش کررہا تھا۔ اپنے ذہن سے مفر حاصل کرنے کے لیے دفترسے اُٹھ کر جلدی واپس آگیا۔ سوال کوبھولنے کی ناکام کوشش کرتارہا۔
اب احساس کی مختلف سمت جاکرایک اورزاویہ سے انسانی زندگی اورموت کی طرف دیکھتاہوں۔1979ء میں جب میڈیکل کالج گیاتوسب سے پہلامضمون اَناٹومی کا تھا۔انتہائی مشکل اوردقیق کتابیں۔بہت کم لوگوں کوعلم ہے کہ اَناٹومی یعنی انسانی جسم کی جزئیات کی سائنس کے اکثر عنوان اورنام قدیم یونانی زبان میں ہیں۔یہ لفظ شروع ہی اتنے مشکل لگتے ہیں کہ انسان سمجھتاہے کہ کبھی بھی اَزبرنہیں ہونگے۔مگرتھوڑے سے عرصے میں یہ مشکل ترین جملے اور لفظ عام فہم زبان کے حصے بن جاتے ہیں۔
میڈیکل کے تمام طالبعلموں کے لیے اَناٹومی کامضمون شروع میں کافی مشکلات پیداکرتاہے،مگراصل مسئلہ اس مضمون کی عملی تربیت کا ہے۔یہ تعلیم وتربیت کہیں اورنہیں ہوتی بلکہ انسان کے مردہ جسم پرکی جاتی ہے۔کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج کے اَناٹومی ہال میں پہلے دن جب پوری کلاس پہنچی توتمام خوف ذدہ تھے۔پورے ہال میں لوہے کی درجنوں ٹیبلیں پڑی ہوئی تھیں۔ہرٹیبل پر ایک انسان کی لاش دھری ہوئی تھی۔
آج تک یادہے کہ کلاس کا ایک طالبعلم یہ سب کچھ دیکھ کر بیہوش ہوکرفرش پر گر گیا تھا۔ اسے بڑی مشکل سے ہال سے باہرلیجایاگیاتھا۔جب پروفیسرتقیہ نے حکم دیاکہ اب اپنے نصاب کے حساب سے لاشوں کوپڑھناشروع کردوتوبہت مشکل لگا۔کسی کوہاتھ کے ریشے،ہڈیاں اورپٹھے پڑھنے تھے توکسی کوپیٹ کے اندرپوشیدہ اعضاء۔بدبوسے سب کادماغ پھٹ رہاتھا۔ہاتھوں میں چاقوجیسے اوزارلیکرجسم کوہرجگہ سے کاٹناتھااوراس کے بعدٹیچرکے سامنے اسے کتاب کے مطابق پڑھناتھا۔
ہرایک کوایک سیال مادہ یعنی فارملین کی بوتل دی گئی تھی۔اس کو ہر عضاء پرلگاناہوتاتھا۔یہ دوائی بذات خوداتنی بدبودارتھی کہ برداشت کے سارے بندٹوٹ جاتے تھے۔ مگر یہ ضروری تھی۔ اگرآپ ایک دن یہ مردہ جسم پرنہ لگائیں، تو اگلے دن اس حصے پرسفیدرنگ کے کیڑے ہی کیڑے نظر آتے تھے۔دوتین ہفتے مشکل سے گزرے۔ مگر اس کے بعدیہ احساس ہی ختم ہوگیا کہ ہم لوگ مردہ انسانی جسموں کے درمیان وقت گزاررہے ہیں۔
اب ہمارے لیے یہ سب کچھ تعلیمی معمول تھا۔کسی کو یاد ہی نہیں تھاکہ ہمارے درمیان پڑے ہوئے بے روح لوگ، صرف چنددن،ہفتے یامہینے پہلے بالکل ہماری طرح زندہ تھے۔ ہماری طرح کھاناکھاتے تھے۔ہماری طرح نہاتے تھے۔ انھیں بھی ہم لوگوں کی طرح غم تھے،خوشیاں تھیں، تہوار تھے۔ پر نہیں، ہم تمام طالبعلموں کے لیے یہ سب کچھ کسی اہمیت کا حامل نہیں تھا۔ہمارے اردگرد صرف اور صرف “ڈیڈ باڈیز” تھیں۔
بولنے،سوچنے اورچلنے سے محروم مٹی کے پتلے۔جنکی شکلیں بھی بے معنی تھیں اورجسم بھی۔جنکی پرانی زندگی کاکسی کو بھی کوئی علم نہیں تھا۔ان کے مردہ جسم بغیرکسی تدفین کے میڈیکل کالج کے اَناٹومی ہال میں تعلیم کے کام آرہے تھے۔ دوسال کے دورانیے میں معلوم ہوا،کہ ان میں سے اکثریت بے گھرلوگ ہوتے ہیں۔ جوسڑکوں پردم توڑدیتے ہیں۔ جنکا کوئی والی وارث نہیں ہوتا۔جومرتے ہوئے کسی بھی رشتے سے محروم ہوتے ہیں۔
پی آئی اے میں لدی ہوئی ڈیڈباڈی تولاوارث نہیں تھی۔اسکابیٹاغم اورتھکن کی تصویربنے جہازمیں موجود تھا۔ تابوت سے صرف چندانچ یافٹ اوپر درجنوں مرداورخواتین مسافربیٹھے ہوئے تھے۔کوئی دوبارہ سینڈوچ مانگ رہا تھا تو کوئی ائیرہوسٹس کو بار بارچائے کاتقاضا کررہا تھا۔ کوئی سیٹ سے اُٹھ کرواش روم جارہاتھااورکوئی اپنے ساتھ والے مسافر سے باتیں کرنے میں مصروف تھا۔ساتھ والی نشست پرپی آئی اے کاایک پائلٹ بیٹھاہواتھا۔
یونیفارم میں ملبوس کراچی سے لاہورکی طرف محوسفرتھے۔ساتھ والی نشست پر ماضی کی ایک اداکارہ کوجہازکی اُڑان اور کمپنی کے مسائل بتا رہاتھا۔پوری کوشش تھی کہ اداکارہ کومتاثرکرلے۔وہ شخص ایک سیکنڈکے لیے بھی خاموش نہ ہوا۔اگلی نشستوں پرگالف کھیلنے کے لیے دس بارہ مسافر لاہورجارہے تھے۔آپس میں ہنسی مذاق اور لطیفے سنائے جارہے تھے۔جم خانہ لاہورکے گالف کلب کی باتیں ہورہی تھیں۔اکثرکھلاڑی میچ میں شرط لگا کر پیسے جیتنے کی بات کررہے تھے۔
ہرایک دوسرے کو بتا رہا تھا کہ اس کاگالف کھیلنے کاسیٹ کتناقیمتی ہے اورکس ملک سے خریداتھا۔مکمل خاموشی سے سب کی باتیں سن رہاتھا۔کئی بار پیچھے مڑکردیکھاتووہی نوجوان ساکت اپنی نشست پر بیٹھا تھا۔کسی سے بات نہیں کررہا تھا۔ غم اس کے چہرے سے باہر جھلک رہاتھا۔
ذہن میں صرف ایک سوال آیاکہ کیااس نوجوان کے علاوہ کسی کواحساس ہے کہ ہم ایک تابوت کے اوپربیٹھے ہوئے ہیں۔جواب نفی میں تھا۔مسافروں نے بالکل سن لیاتھاکہ ایک ڈیڈباڈی بھی ان کی ہم سفرہے۔مگرسب بالکل آرام سے زندگی کی ہروہ چیزکرنے میں مصروف تھے،جسے وہ سالہاسال سے مسلسل کرتے آرہے ہیں۔کیاان میں کسی کو بھی احساس تھاکہ زندگی اورموت میں اتناکم فرق ہے کہ وہ بھی کسی جہاز،ایمبولینس،کار،بستریادفترمیں ڈیڈباڈی بن سکتے ہیں۔ہرگزنہیں۔ ہرگزنہیں۔
اصل میں ہم سارے پی آئی اے کی اس فلائٹ کے مسافروں کی طرح ہیں جو دراصل اپنے اپنے تابوتوں پربیٹھے زندگی کا سفر گزارنے میں مصروف ہیں۔اس حقیقت سے بے نیازکہ اپنے اختتام سے تھوڑاساہی دوررہ گئے ہیں۔ ہرایک کاخیال نہیں بلکہ یقین ہے کہ اس نے ہرگز ہرگز نہیں مرنا،ڈیڈباڈی میں تبدیل ہونے والاتوکوئی اور ہی ہوگا۔مگریہ خیال نہ صرف خام ہے بلکہ کسی حدتک فریب بھی ہے۔ہم میں سے ہرایک نے ڈیڈباڈی میں تبدیل ہوناہے اورکسی اجنبی سفرپرگامزن ہوجانا ہے۔ اس سفرکاکیانام ہے۔کچھ نہیں کہہ سکتا!