تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
یحییٰ خانی انتخابات منعقدہ 1970 میں مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ متحدہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں واحد اکثریتی پارٹی بن کر ابھری۔خود کو اگر تلا سازش کیس سے زبردستی بری کروانے کے بعد مجیب نے اپنے علاوہ کسی دوسری سیاسی پارٹی کومشرقی پاکستان میں جلسہ تک بھی نہیں کرنے دیا۔حتٰی کہ مولانابھاشانی اور مولانا مودودی کو بھی نہیں جس نے بھی جلسہ کرنے کی کوشش کی اسے عوامی لیگی غنڈوں نے جلسہ گاہ سے لاشوں کا” تحفہ “اٹھانے پر ہی مجبور کرڈالا۔انتخابات تک مکمل شیطانی غنڈہ راج نا چتا رہا اور مارشل لائی حکمران یحیٰی خان نے بھی دخل نہ دیا۔انتخابی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں ہوتی رہیں ۔ ملک کی پہلی ہی براہ راست عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والی قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں طلب کیا گیا تو ادھر مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کرنے والے لیڈر مسٹر بھٹو نے نعرہ زن کیا کہ جو اسمبلی کے اجلاس میں یہاں سے اُدھر جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ ڈالی جائیں گی۔اور یہ بھی کہ”اُدھر تم اِدھر ہم” جیسی گونج سنائی دی۔یحیٰی خان نے بنگالیوں کو زبردستی “راہ راست ” پر لانے کے لیے فوجی ایکشن شروع کردیا۔مگر اس وقت تک مجیب کامکتی باہنی اور انڈین را سے رابطہ مکمل ہو چکا تھا۔مختلف تنظیموں کا روپ دھارے بھارتی سپاہ مقابلے پر اتر آئی بالآخر پلٹن میدان ڈھاکہ میں “ٹائیگر”نیازی نے ہتھیار بھارتی جنرل اروڑا سنگھ کے قدموں میں ڈال دیے۔ 98 ہزار سپاہ کو قیدی بنا کر بھارتی بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر لے گئے ۔
اور 28 ہزار مسلم دوشیزائیں بھی،کارخانے اور جائیدادیں لوٹ لی گئیں۔اب مسٹر بھٹوجو مغربی پاکستان میں اکثریت تو رکھتے ہی تھے مگرخود مختار ڈکٹیٹر کا روپ دھارے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر کے عہدوں پرمتمکن ہو بیٹھے۔بعد ازاںخودوزیرا عظم اور ایک ڈمی فضل الہیٰ چوہدری کو صدر پاکستان بنالیا ۔یحیٰی خان نے مشرقی پاکستان ٹوٹنے سے قبل ہی لاڑکانہ میں شکار کھیلنے کے بہانے جب دو روز مسٹر بھٹو کے ساتھ گذارے تو اس میں سب کچھ طے ہو چکا تھااس لیے کوئی رکاوٹ نہ بچی تھی۔بھٹو کا اقتدار جمہوری کم اور آمرانہ زیادہ تھا گو اس نے حزب اختلاف اور دینی جماعتوں کے راہنمائوں سے مل کر1973کا آئین متفقہ طور پر پاس کروالیا تھا۔مگر خود کو ہمیشہ آئینی پابندیوں سے بری سمجھتا تھا۔اسی لیے اپنی خواہشات کے تابع کئی ترامیم بھی کرڈالیں ۔نجی ملیں قومیا کر پی پی کے کارکنوں کو مالکان کی سیٹوں پر براجمان کرڈالا۔کئی جرنیلوں کی بغیر کسی وجہ کے چھٹی کروا کر گھر بھجوا دیا۔مخالفین اور خود اپنی پارٹی کے سرکش راہنمائوں کو خوب”سبق”سکھلایا۔
پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل جے اے رحیم ، سنئیر نائب صدراور منہ بولتے قائم مقام معراج محمد خاں کی خود پٹوائی کروائی گئی۔صوبائی وزراء ارشاد ، تاری ،حنیف رامے اور فیصل آباد کے مزدور راہنمامختار رانا کو بھی شدید تشدد کا نشانہ بننا پڑا جیلوں ،دلائی کیمپوں اور شاہی قلعہ کی سیر کرنا پڑی۔مخالفین کو تو قتل کرنے میں کوئی عار نہ سمجھی گئی ۔مولانا شمس الدین ،ڈاکٹر نذیر احمداور موجود ہ وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق کے والد محترم خواجہ محمد رفیق کو دن دیہاڑے قتل کروایا۔نیپ اور جے یو آئی کی بلوچستان اور سرحد کی مخلوط حکومتیں برطرف کرڈالی گئیں ۔ اور بلوچستانی لیڈر شپ پہاڑوں پر چڑھ دوڑی ۔اسمبلی ہال سے اجلاس کے دوران حزب اختلاف کے اہم راہنمائوںبشمول مولانا فضل الرحمن کے والد مولانا مفتی محمود کو اٹھوا کر باہر پھنکوایا گیا۔1977کے انتخابات میں بلا مقابلہ منتخب ہونے کے لیے مخالف امیدواروں کوبمعہ ان کے تجویز و تائید کنند گان اغوا کیا گیا۔خود بھٹو نے لاڑکانہ سیٹ سے مولانا جان محمد عباسی کو اغوا کر کے تشد د کا نشانہ بنایا۔ اور بلا مقابلہ منتخب ہونے کا ڈھونگ رچایا۔ اسی طرح چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو بھی بلامقابلہ منتخب ہونے کا ٹاسک دیا گیا۔تین صوبوں کے وزارئے اعلیٰ تو ایسی دھاندلی کرنے میں کامیاب رہے مگر پنجاب کا وزیر اعلیٰ نواب صادق حسین قریشی ایسا نہ کرسکا۔
اس سیٹ پر قومی اتحاد نے سابقہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے والد کو ٹکٹ الاٹ کیا تھا۔ مگر انہوں نے انتخاب لڑنے سے معذوری کا اظہار کردیاتویہ کلاوہ نشتر کالج ملتان کے طالب علم راقم الحروف کے گلے میں ڈالا گیا۔22جنوری1977کو کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے دن گو میرے فارم وزیر اعلیٰ کے خلاف جمع ہوگئے ۔ مگر ضلع کچہری ملتان سارا دن میدان جنگ بنی رہی۔بالآخر اسلام آباد سے مجھے اغوا کرکے 110دن تک مارتے پیٹتے رہے۔ائیر مارشل اصغر خان نے جو خط فوجی راہنمائوں کو لکھا تھا۔اس میں میرا ذکر خصوصی طور پر موجود ہے۔بالآخر جنرل ضیاء الحق قابض ہوا تو مجھے بورے میں بند کرکے کھاد فیکٹری ملتان کے قریب سڑک پر پھینک گئے۔کسی نے بڑے بورے کو ہلتے دیکھا تو اسے کھول کر مجھے نکالا گیا۔ہائیکورٹ کے ذریعے تین مقدمات وزیر اعلیٰ اور دیگر ملزمان کے خلاف درج کروائے مگر ڈھاک کے وہی تین پات ۔ ضیاء الحق کے بعد آج تک مقتدر رہنے والے شریف ڈاکوئوں اور زردار ڈاکوئوں کی تو بہت مشہوری سنتے چلے آرہے ہیں کہ وہ باہر سے قرض لیے گئے سرمایوں کی پور ی کی پوری قسطیں باہر ذاتی بنکوں میں جمع کرواڈالتے ہیںزندہ ڈاکوئوں میں راجہ رینٹل ،یوسف گیلانی وغیرہ اب تک دندناتے پھر رہے ہیں ۔اب کئی ایان علیاں پیدا ہو گئی ہیں مسٹر بھٹو پرذاتی حیثیت میں مال بنانے کا کوئی الزام نہ تھا مگر اب انکے لواحقین اور مقتدر پارٹی کے راہنما سرکاری خزانہ سے اڑھائی کروڑ روپے برسی پر خرچ کرڈالیں گے تو ان کی رو ح کو ایصال ثواب تو ہو گا ہی مگر غریب عوام کا پیسے کھربوں روپوں کی جاگیریں رکھنے والوں کی برسی پرخرچ ہو گا تو خدا کی ناراضگی ہی ملے گی۔
پوری قوم ایک “معصوم،لاچار ،بے یا ررو مددگاریا غریب الدیار “راہنما کی برسی کے لیے سندھ حکومت کی طرف سے اڑھائی کروڑ روپے کی بھاری رقوم جاری کرنے کی شدید ترین الفاظ میں پرزور مذمت کررہی ہے کہ سندھ حکومت کو اس کی نااہلی ،آئین سے غداری اور”حُسن ِ کا رگردگی کی بناء پر فوراً برطرف کیا جائے۔ ویسے کوئی لاوارث کسی انہونے حادثہ میں ہلاک ہوجائے تو اس کے کفن دفن پر تو حکومتیں معمولی رقوم خرچ کرتی چلی آرہی ہیں مگر یہ دنیا اور پاکستان کی تاریخ میںانوکھااور اچنبھا واقعہ ہے کہ ایک کھرب پتی جاگیردار اور سندھی وڈیروں کے سردار کی برسی کے لیے سرکاری خزانہ کو بے دریغ استعمال کرکے اسے لٹایا جارہا ہے۔ایسا کرنا قطعاًاحسن اقدام نہیں قرار دیا جا سکتا۔ آئین پاکستان سب عوام کو مساوی حقوق کی گارنٹی دیتا ہے اس لیے سبھی مرنے والے پاکستانیوں کی برسیوں کے لیے بھی اڑھائی کروڑ روپے فی کس جاری کیے جائیں راقم خود بھی70سال کی عمر کو پہنچنے والا ہوں اور ایوبی آمریت ،یحییٰ خانی مارشل لاء ،بھٹوی آمرانہ جمہویت اور نواز شریف و بینظیر کے تمام عوام دشمن ادوار میں تشدد سہا،جیلیں کاٹیں اور حزب اختلاف کا کردار مستقل اپنائے رکھا۔جو کہ 1961 سے اب تک جاری و ساری ہے۔اب تو آخر ی عمر میں میں کسی وقت دنیائے فانی کو چھوڑ کر ابدی دنیا کو سُد ھار سکتاہوں ۔
اس لیے بزرگ ترین اور سنئیر ترین مظلوم سیاستدان اور عوام کے ادنیٰ خادم پاکستان ہونے کے ناطے یا تو میرے ذاتی بنک اکائونٹ میں کم ازکم دو گنارقم پانچ کروڑ روپے جمع کروائی جائے تاکہ میری وفات پر”عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے ۔بہت نکلے میرے ارماں مگر پھر بھی کم نکلے” اور ہرآمدہ سالوں میں برسیاں بھی “شان و شوکت” سے میرے لواحقین و پارٹی کارکن مناسکیں ۔یا پھر سند ھ کے وزیر اعلیٰ کی جائداد قرق کرکے اڑھائی کروڑ کی رقم فوراًوصول کرکے واپس پاکستانی خزانہ میں جمع کروائی جائے۔
ان میں سے جو تجویز بھی وقت کے حکمرانوں کو قبول ہو اس پر فوراً عمل درا مد کیے جانے کے احکامات جاری کیے جائیںا گر ایسا نہ کیا گیا تو میںاحتجاجاً تادم مرگ بھوک ہڑتال کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہوں ایسی ” تقریبات” پر بھاری رقوم خرچ کرکے اصل میں مرے ہوئے سیاستدانوں کے لواحقین یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے نظر آتے ہیں کہ دیکھو وہ زندگی میں کتنا پاپولر تھا۔حالانکہ اگر تھے بھی تو دنیاوی پاپولیریٹی اگلے جہاں میں کسی کام بھی نہ آسکے گی وہاں تو صرف نیک اعمال اور اعلیٰ کردار ہی خدائی غیض و غضب سے بچا سکیں گے اگلے جہاں میں روز محشر کو “تھوڑی سی پیتا ہوں مگر غریب عوام کا خون نہیں پیتا”جیسے بے ڈھنگے راگ الاپنے والوں کی وہاں کیا حیثیت ہو گی یہ خدائے عزوجل ہی بہتر جانتے ہیں۔میری تو یہ دعا ہے کہ ہر فوت ہونے والے مسلمان کو خدا تعالیٰ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دیں۔مگر غفور الرحیم اور جان سے پیارے محمد عربیۖ نے ہر سطح اور ہر مقام پر فضول خرچیوں کے بارے میں انتباہ کرتے ہوئے منع فرمایا ہے۔
اب وزیر اعلیٰ سندھ نے سید ہوتے ہوئے کوئی نیا دین “متعارف” کرواڈالا ہے تو یہ سید بادشاہ ہی بہتر جانتے ہیں ۔بلکہ اہم راہنماپر بنک کے اڑھائی کروڑ روپے خرچ کرکے عوام میں خوامخواہ بھٹوکو ” مردہ ڈاکو ” عوام میں مشہور کرنے پر وزیرا علیٰ سندھ کو کیا مفاد ملے گا؟ آ پ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں ۔ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔ میرا پختہ عقیدہ اور ایمان ہے کہ جو حکمران بھوک سے بلکتے نحیف و نزار بچوں کی مجبوریوں سے ان کی مائوں کوخودکشیوںسے روکنے کے لیے ان کے گھروں میں دو لقمے نانِ جویں مہیا نہیں کرسکتے وہ اڑھائی کروڑ روپے مرے ہوئوں کی برسیوں پر خرچ کرکے عذاب الہیٰ سے قطعاً نہ بچ سکیں گے۔
تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری