تحریر : عماد ظفر
کبھی کبھی انسانوں پر ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے جس کی وجہ سے انہیں غم و یاس میں مبتلا رہنا اچھا لگتا ہے.اپنے زخموں پر مرہم رکھنے یا ان کا علاج ڈھونڈنے کے بجائے خود اپنے زخموں پر نمک پاشی اور نوحہ خوانی کرنا نہ صرف اچھا لگنے لگتا ہے بلکہ بعض اوقات یہ لطف بھی دیتا ہے.اسے نفسیات کی دنیا میں سیلف ڈیناہل اور ڈیپریشن کہا جاتا ہے. یہی کیفیت معاشروں کی بھی ہوتی ہے .کچھ معاشرے انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کب کوئی حادثہ ہو کوئی سانحہ ہو یا کوئی نیا زخم لگےتا کہ پھر سے نوحہ خوانی کی جا سکے ایک ماتم برپا کر کے پھر سے اذیت کوشی کا مزا چکھا جا سکے. کچھ یہی مثال ہمارے معاشرے اور اجتماعی رویوں کی ہے .ہم لوگ مسائل کا حل ڈھونڈنے کے بجائے سیلف ڈینایل یا پھر نوحہ خوانی میں مبتلا رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور یوں نسل در نسل ہمارے رویے ہمیں ان کیفیات میں مقید رکھتے ہیں.جیتے جاگتے انسان کی ہماری نظروں میں نہ کوئی قیمت ہے اور نہ وقعت لیکن جونہی کوئی مر جائے تو ہمیں اچانک اس کی اچھائیاں اور خوبیاں نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں. کہتے ہیں کہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہ کبھی رکتی نہیں بلکہ چلتی رہتی ہے.وقت کبھی بھی جامد نہیں رہتا. جو افراد یا معاشرے وقت کو جامد کرنے کی ناکام سعی کرتے ہیں وہ خود جمود کا شکار ہو جایا کرتے ہیں۔
بطور معاشرہ ہم میں سے زیادہ تر افراد آج بھی وقت کو جامد کرنے میں اپنا وقت ضائع کر کے معاشرتی جمود کو برقرار رکھنے میں اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں. صدیوں پہلے کی روایات اور نظریات کو معاشرے پر جبرا مسلط کرنے کی ناکام کوشش ہو یا رسوم و رواج کے برزخ یہ تمام عناصر ایک ایسے معاشرے کو ترتیب دیتے ہیں جو جدید دنیا سے آنکھیں چرا کر حقیقت کو ماننے سے انکاری دکھائی دیتا ہے. ایک ایسا معاشرہ جہاں پینے کے صاف پانی سے لیکر صحت کی بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہوں اور جہاں تعلیم کی نعمت سے کڑوڑوں بچے محروم ہوں جہاں عورتوں کو آج بھی کھونٹی سے بندھا جانور تصور کیا جاتا ہو وہاں روشنی کے بجائے تاریکی کا راج ہوتا ہے. کہتے ہیں معاشروں کی بقا کے ضامن وہ افراد ہوتے ہیں جو تخلیقی سرگرمیوں میں حصہ ڈالتے ہیں. بدقسمتی سے ہم تخلیقی صلاحیتوں کے مالک افراد کو ہمیشہ سے ہی خود ظلم و زیادتی کا شکار بناتے آئے ہیں. اور ایسے افراد جو تخلیقی و تعمیری صلاحیتوں سے بالکل نابلد ہوتے ہیں انہیں ہم ہمیشہ سر آنکھوں پر بٹھاتے آئے ہیں۔
اسی طرح بنیادی جبلتوں کو دبا کر ہم.توقع کرتے ہیں کہ ہماری آئیندہ آنے والی نسلیں جدید دنیا میں مختلف تہذیبوں اور معاشروں سے اہل صحت مندانہ مقابلہ کریں گی.یہ بنیادی نکتے دراصل اس اجتماعی معاشرتی ڈینایل کی جانب پہلا قدم ہوتے ہیں جس کے تحت دنیا میں برپا ہونے والی تبدیلیوں سے منہ موڑ کر اپنی جہالت کو رسوم و رواج اور دیگر پردوں میں چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے. مثال کے طور پر وطن عزیز میں ہر روز اوسطا دس بچے جسمانی زیادتی کا شکار بنتے ہیں. خواتین اپنی عصمتیں گنوا دیتی ہیں. لیکن ان مسائل کے حل نکالنے کے برعکس ہماری اجتماعی سوچ عہد رفتہ کو یاد کرنے میں صرف ہوتی ہے. ہماری تحقیقات عہد حاضر کے بجائے گزشتہ عہد کے مسلمان مفکروں کے کارناموں یا انہیں درست ثابت کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں. ابن خلدون نے کیا کہا امام غزالی کیا کہتے تھے یا موددودی کا نظریہ کیا تھا اس کا تعلق 21ویں صدی کے مسائل یا تقاضوں سے ہرگز بھی نہیں ہے۔
لیکن کیونکہ ہمیں اپنے خول میں جینا پسند ہے اس لیئے بطور معاشرہ ہم علمی و تحقیقاتی محاذوں پر اپنی ناکامیاں چھپانے کیلئے عہد گم گشتہ میں کھوئے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں. اصلاف پرستی اور مردہ پرستی کے مرض میں مبتلا معاشرے میں قبر پرستی مردوں کو گلوریفای کرنا ایک عام سی بات ہوتی ہے. اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بحث مباحث گزرے ہوئے عہد اور لوگوں پر ہوتے ہیں اور حال میں ہونے والے عصری تغیرات سے معاشرہ نابلد رہ جاتا ہے. وطن عزیز کے بہت سے مسائل کی جڑ یہ اصلاف پرستی،مردہ پرستی اور ڈینایل کی کیفیات ہیں. اور ان کا براہ راست تعلق تعلیم کے شعبے اور ہمارے سوچنے کے انداز سے ہے۔
تدریس کے شعبے میں بنیادی کٹر پرست اور اصلاف پرست جماعتوں اور گروہوں کے تسلط کی وجہ سے بچوں کے ذہنوں میں جو فرسودہ خیالات ڈالے جاتے ہیں وہ زندگی بھر ان کے ساتھ رہتے ہیں.چونکہ کریٹیکل تھنکنگ کی عادت بچپن سے ہی بچوں کو نہیں سکھائی جاتی اس لیئے اپنی روایات یا تعصب ہر مبنی نظریات کو منطق یا دلائل کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی بلکہ اس کسوٹی سے راہ فرار اختیار کی جاتی ہے. آپ ملک میں جمہوری نظام لائیں یا آمریت جب تک ان خیالات و نظریات سے جان نہیں چھڑوای جائے گی معاشرہ سسی طرح زبوں حالی کا شکار رہے گا.دنیا میں جن معاشروں نے ترقی کی کی ہے ان کی ترقی کا راز صرف ٹیکنالوجی یا صنعتی انقلاب کا مرہون منت نہیں ہے بلکہ وہاں بچوں کو کریٹیکل تھنکنگ سے روشناس کرواتے ہوئے منطق اور دلائل پر مبنی نظریات و خیالات کی ترویج کی گئی۔
اصلاف پرستی اور مردہ پرستی کی عادتوں کو آبجیکٹو تھنکنگ کے ذریعے ختم کیا گیا. اعلی انسانی اقدار کو ملحوظ خاطر رکھا گیا یعنی انسان کی جان اس کے حقوق اور عزت نفس کو سب سے زیادہ مقدم رکھا گیا نتیجتا یہ معاشرے فرقوں یا گروہوں میں تقسیم ہونے کے بجائے مضبوط متحد معاشروں کے طور پر ابھرے اور اپنے مسائل کو حل کر کے ترقی کے زینے طے کر لیئے. ہمارے ہاں اس کے برعکس فرقہ واریت آور گروہ بندی بڑھی اور نتجیتا ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر آمادہ ایک منقسم معاشرہ پروان چڑھا جو انسانی جان سے زیادہ فرسودہ خیالات و نظریات کو ترجیح دیتا ہے. ایسے معاشرے میں تعصب شدت پسندی نفرت اور جہالت کے بیج بونا بے حد آسان ہو جاتا ہے۔
چنانچہ یہ تمام بیج انتہائی آسانی سے اس معاشرے میں بو کر ایک ایسی فصلیں کاشت کی گئیں جنکا پھل آج غربت جہالت پسماندگی اور شدت پسندی کی صورت میں معاشرہ چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی کھا رہا ہے. ہر گلی یا نکڑ پر چورن فروش بیٹھے مزہب ذات پات اور اصلاف پرستی کے چورن باآسانی کریٹیکل تھنکنگ سے نابلد ذہنوں کو بیچتے ہیں. یوں مزاروں سے لیکر مساجد اور مدرسے ہوں یا شدت پسند تنظیموں سے لیکر جہادی تنظیمیں سب شاد و آباد رہتے ہیں بس اگر کچھ ویران ہے تو وہ تحقیق گاہیں اور ایجادات کے میدان ہیں. یہ ترجیحات جب تک بدل نہیں جاتیں تب تک نہ تو معاشرے میں انسانی اقدار اور حقوق کی حفاظت ہو سکتی ہے اور نہ ہی تعمیری اور تخلیقی محاذوں پر کوئی پیش رفت ہو سکتی ہے. ان ترجیحات کو تبدیل کرنے کیلئے ایک ٹھوس اور جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے تس کہ معاشرے سے مردہ پرستی اور ڈینایل کی کیفیت کو ختم کیا جا سکے۔
تحریر : عماد ظفر