لاہور (ویب ڈیسک) بعض حلقوں کا خیال ہے کہ حکومتی صفوں میں پائی جانے والی بے چینی اور ہنگامی کیفیت ظاہر کر رہی ہے کہ نواز شریف کی حالت کافی تشویش ناک ہے۔ بعض دیگر حلقوں کی رائے میں یہ ساری فضا نواز شریف کو ملک سے باہر بھیجنے کے لیے تیار کی جا رہی ہے۔نامور صحافی تنویر شہزاد ڈوئچے ویلے کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ سینئیر صحافی شاہین صہبائی نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ لگتا ہے کہ نواز شریف اور ان کے خاندان کے سبھی افراد لندن جانے والے ہیں۔نواز شریف اس وقت لاہور کے سروسز ہسپتال میں زیر علاج ہیں اور پاکستان کے سینئیر ڈاکٹروں کا ایک بورڈ یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ ان کے خون میں ‘پلیٹ لَیٹس‘ کی تعداد میں خطرناک حد تک کمی کیوں ہو رہی ہے؟ نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے دوران اسیری نواز شریف کو ممکنہ طور پر زہر دیے جانے کے خدشے کا اظہار بھی کیا تھا۔جمیعت العلمائے اسلام کے سربرا ہ مولانا فضل الرحمان میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف کی حالت ایسی ہے کہ اللہ کرے کہ وہ صحت یاب ہو جائیں، لیکن اگر انہیں کچھ ہوا، تو ان کے خلاف نامناسب رویہ اختیار کرنے والی حکومت اور ادارے ہی قاتل کہلائیں گے۔تجزیہ نگار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کہتے ہیں کہ وہ نواز شریف کی بیماری کو ایک طبی مسئلے سے زیادہ ایک سیاسی پیش رفت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ نواز شریف کی بیماری پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے لیکن لگتا ہے کہ معاملات کو ‘ذرا بڑھا چڑھا‘ کر میڈیا میں پیش کیا جا رہا ہے۔عاصم اللہ بخش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے خیال میں اصل بات یہ ہے ملک کے طاقت ور حلقوں نے کسی تصادم سے بچ کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے اور اسی لیے لگتا ہے کہ نواز شریف بغیر کسی مبینہ رقم کی ادائیگی کے ہی جلد ہی ملک سے باہر چلے جائیں گے۔جمعرات چوبیس اکتوبر کی سہ پہر ملنے والی اطلاعات کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے طبی بنیادوں پر نواز شریف کی سزا کی معطلی کے لیے ایک درخواست اسلام آباد کی ایک عدالت میں دائر کر دی ہے۔ اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کی اپیل کا فیصلہ ہونے تک انہیں ضمانت پر رہا کر کے پاکستان یا بیرون ملک لیکن مرضی سے اپنا علاج کرانے کی اجازت دی جائے۔ اس درخواست کو قانونی اعتراض کے باوجود عدالت نے سماعت کے لیے منظور بھی کر لیا ہے۔روزنامہ ‘دنیا‘ کے ایگزیکٹیو گروپ ایڈیٹر سلمان غنی اس موقف سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ بات منطقی نہیں لگتی کہ نواز شریف اتنی جدوجہد کے بعد اب یکدم پاکستان سے باہر چلے جانے کا فیصلہ کر لیں گے۔پاکستان کے سینئیر صحافی خالد فاروقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں صورتحال وہ نہیں ہوتی جو دکھائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا، ”پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہم نے دیکھا ہے کہ یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس وقت ملک کے سیاسی منظر نامے پر افواہوں، غلط فہمیوں اور ابہام کے سائے ہیں۔ نہ تو حکومت اس صورتحال کی وضاحت کر رہی ہے اور نہ ہی مسلم لیگ ن اس بارے میں عوام کو اعتماد میں لے رہی ہے۔‘‘خالد فاروقی کے مطابق، ”یہ بات سچ ہے کہ نواز شریف بیمار ہیں اور ان کی صحت اچھی نہیں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ خود ن لیگ کے بعض حلقے بھی بظاہر یقین سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ‘اندر ہی اندر کوئی نہ کوئی کھچڑی ضرور پک رہی ہے‘۔انہوں نے کہا کہ اگر نواز شریف بیرون ملک چلے گئے، تو یوں خود نواز شریف کی اپنی سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمان کے مجوزہ احتجاجی دھرنے کو بھی نقصان پہنچے گا۔(ش س م) بشکریہ : ڈوئچے ویلے )