تحریر: شاز ملک
چتاخ کی آواز ابھری تو گلی میں ہر شخص کی نگاہیں آواز کی سمت اٹھیں جہاں رکشہ ڈرائیور گال سہلا رہا تھا اور عبایا پہنے ایک نقاب پوش جوان سال عورت کھڑی تھی جو ابھی کچھ دن پہلے ہی محلے میں دو چھوٹے بچوں کے ساتھ کرایے کے مکان میں آی تھی جو اس وقت بھرآیی آواز میں اس سے یوں مخاطب تھی سر شام عبایا پہن کر گھر سے نکلنے والی ہر عورت بدکردار نہیں ہوتی کوئی مجبور بیکس ماں بھی ہو سکتی ہے۔
جو اپنے بیمار بچے کے لئے دوایی لینے باہر نکلتی ہے وہ مجبور عورت جنکے سر پر کسی محرم مرد کا سایا نہیں ہوتا بلکے انھیں ہی بیک وقت اپنے بچوں کی کفالت کے لئے مرد بھی بننا پڑتا ہے اور عورت بھی یہ کہتے ہویے جوانسال برقع پوش عورت خاموش ہو گئی۔
یکدم وہ جوان اس عورت کے قدموں میں گر گیا اور معافی مانگنے لگا ماں جی معاف کر دیں
آج کے بعد اپ کبھی خود کو بے سہارا نہ سمجھے میں ان محلے والوں کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کے اب آپکو بیٹا بن کر کبھی سر شام باہر نکلنے نہیں دونگا اس نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا بیٹا میں نے آپکو معاف کیا یہ کہکر وہ اپنے گھر چلی گئی
اسکی ہمسایی اسکی سہیلی اسکے پیچھے گھر میں داخل ہویی وہ جو اب اپنے بیٹے کو دوایی پلا رہی تھی مگر اسکی آنکھیں ابھی بھی نم تھیں ہمسائی کی سوالیہ نظروں کی طرف دیکھ کر وہ آیئنے کے سامنے کھڑی ہو گیئ اور بولی اپنے سے بڑے مرد کو بیٹا کہ دینے سے اگر ایک جوان سال بیوہ کو عزت بھری نظریں مل جاہیں اور غلیظ نظروں اور بولوں سے نجات مل جائے اور کسی کی اصلاح ہو جائے تو یہ سودا برا تو نہیں۔ یہ کہتے ہویے اسکی آنکھوں سے بے بسی کے آنسو چھلکنے لگے مگر ہونٹ مسکا دئیے۔
تحریر: شاز ملک