تحریر: وسیم اسلم
کفر و شرک کے فتو ں کی ارزانی کے اس دور میں حیرت ہے کہ کسی مفتی نے آج تک یہ فتوی جاری نہیں کیا کہ کاغذی کرنسی حرام ہے پسِ پر دہ رہ کر د ینا بھر کے مالیاتی نظام کو کنٹرول کرنے والے ،بنکسٹرز کا ہتھیار خانے کا مئوثر ترین ہتھیار کا غذی کرنسی ہے یورپ کے سود خور خاندانوں کے اس گٹھ جوڑنے ذاتی قدرو قیمت ر کھنے والی کرنسی (دیناو درہم ) کو ایسی کاغذی کرنسی سے تبدیل کر دیا جس کی کوئی ذاتی قدرو قیمت نہیں ہے اب وہ دینا بھر کی ملکوں کی معیشت کو اس طر ح کنٹرول کرتے ہیں کہ جب چاہے کسی ملک کی کر نسی کو گھٹایا بڑھا دیں جس ملک کی کر نسی کی قیمت گر تی ہیاس ملک کے با سیو ں کے ما ل پر غیر منصفانہ اور بظا ہر قانونی ڈاکہ پڑ جاتا ہے زر مبادلہ کا ذخیرہ کم ہو جاتا ہے ادائیگیوں کے لئے سود پر مزید قر ضہ لینا پڑتا ہے۔
بنکسٹرز جس ملک کو نشا نہ بنا لیں اس ملک کی کر نسی کو اتنا گراتے چلے جاتے ہیں کہ اصل تو کیا صرف سود ادا کرنے کے لئے اس ملک کو مزید قر ضے لینے پڑتے ہیں خود پا کستا ن کی مثال آپ کے سا منے ہے جو ما لیا تی بحران کے بو جھ تلے سسک رہا ہے عوام کا جینا دوبھر ہو گیا ہے اس نظریہ اور طریقہ واردات پر ( john perkin)نے ا پنی کتاب Confession Of an Economic Hit Manمیں خوب روشنی ڈالی ہے کہ جیسے ہی کر نسی کی قیمت گرتی ہے ،زمین،جا ئداد،لیبر اور دیگر ضروریا ت ان لٹیروں کیلئے سستی ہو جا تی ہے دنیا بھر کے غریب ممالک کے با شندوں کو سا ری زندگی جان جو کھوں میں ڈال کر محنت کرنی پڑتی ہے تا کہ مغرب کے لٹیروں کو بہتر آسا شَیں میسر رہیں اس کا دوسرا المناک پہلو یہ ہے کہ جب غر بت آتی ہے تو رشوت کو فروغ ملتا ہے دیگر بر ائیاں جنم لیتی ہیںآج ہر کو ئی یہ سوال کرتا ہے کہ افر یقہ اور ایشیا کے غریب یا مسلم ملکوں میں اس قدر بر ائیاں کیو ں پا ئی جا تی ہے اور مغرب ان بر ا ئیوں سے کیو ں مبرا اور پاک ہے کم لو گ ہی اس حقیقت کو سمجھتے ہیںکہ جب ضروریات زندگی جا ئز طریقے سے پو ری نہ ہوںتو حرص و ہوس رکھنے والا یہ انسان ناجائز ذرائع اختیار کر لیتا ہے اور اس کا گناہ قرآن اور بائیبل میںایک ہی قا نو ن ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے، جو لوگ سود کھاتے ہیں (قیا مت میں) اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر پاگل بنا دیا ہو (البقرة:275) کرنسی کی قیمت گرنے پر IMF جو عالمی مالیاتی نظام کو کنٹرول کرنے کیلئے بنکسٹرز کا ایک ا ستحصالی ادارہ ہے وہ نج کاری پر زور دیتا ہے۔پھر یہ لٹیرے ان غریب ملکوں کی معد نی دولت ،پٹرول،گیس،بجلی گھر،کمیو نیکیشن اور دیگر صنعتیں اونے پو نے دامو ں خرید لیتے ہیںپاکستا ن میں اسٹیل مل کا شر منا ک سو دا،کمیو نیکیشن اور بنکنگ سیکٹر کی مثالیں ہمارے سامنے ہیںیہ تو خیر شیطان مردود کا منصوبہ ہے ،رحمن کا کیا منصوبہ ہے اس کی آقا دو جہاںۖنے پہلا ہی خبر دے رکھی ہے کہ ایک صیہونی حکمراں مسیح مو عود ہونے کا دعویٰ کرے گا۔
ہر یہودی کو یقین ہے کہ اللہ نے یہودیو ں سے یہ وعدکیا ہے کہ تا ر یخ ایک ایسے آدمی پر ختم ہو گی جو یروشلم سے حضرت دائود علیہ اسلام کے تخت پر بیٹھ کر سا ری دینا پر حکو مت کرے گا۔صیہونی صرف یہود ہی میں سے نہیں ہوتے ۔ہر وہ شخص جو اسرائیل کی صیہونی حکو مت کا حامی و مدگار ہے،چاہے وہ عیسائی ہو یا مسلمان ہونے کا دعویدار ہو ،صیہونی ہے جس تیزی سے اس جا نب پیش قدمی ہو رہی ہے اس سے لگتا ہے کہ ہمارے آنے والی نسلوں کے دور میں دجال ظاہر ہو جائے گا۔اور پچیس تیس سال کا یہ عر صہ اہل ایمان کے لئے سخت آزمائش اور تکلیف کا ہوگا۔ہر مسلمان کو نبی صادقۖ،کی اس خبر پر یقین ہے کہ پھر حضرت عیسی علیہ اسلام تشریف لائیں گیااور د جال کو قتل کر کے پو ری دینا کو امن وآشتی دیں گیا اور یروشلمم سے پوری دینا پر حکومت کریںگے کاغذی کر نسی سے بات تیسری عالمگیر جنگ اور دجال تک پہنچ گئی ہم واپس کاغذی کر نسی کی طرف آتے ہیں کہ اس کا آغاز کیسے ہوا؟فر ی میسن کے پیش ٹمپلرKinghts Templerکہلاتے تھے یہ تبر کات یعنی تابوت سکینہ کے محافظین تھیں اس صندوق میں پتھر کی وہ تختیاں جو طورِسیناپر حضرت موسی کو اللہ تعالی نے دی تھیں۔
تو رات کا اصل نسخہ جسے حضرت مو سی نے خود لکھوا کر بنی لادی کے سپرد کیا تھا،من سے بھری ایک بوتل اور عظیم الشان معجزات کا مظہر بننے والا حضرت موسیٰ کا عصا تھایہ تبرکات ان نائٹس سے گم ہو گئی آج بھی دینا بھر میں اس کی تلاش جاری ہے،آپ میں سے کچھ لوگوں نے Knight Riderقسم کی فلمیں دیکھی ہوں گی ۔وہ سمجھتے ہیںکہ ان کو دینا پر دوبارہ غلبہ ان تبر کات کے بغیر نہیں مل سکتا۔یہ تبر کات ا نہیں کبھی نہیں ملیں گی۔ا نہیں حضرت مہدی علیہ السلام بر آمد کر یں گے۔ان نائٹس نے سب سے پہلے تجوریوں لاکرزکا نظام متعا رف کرکے لو گو ں کے زیورات،سکے،اور سو نا اجرت پر محفوظ کرنا شروع کیا تا کہ لو گو ں کو اپنے مال کے لٹ جا نے کا ڈر نہ رہے۔مذہبی پس منظر رکھنے کی وجہ سے یہ نا ئٹس لو گو ں کے لیے قابل بھروسہ تھے ۔مشکل یہ تھی کہ خریداری کے لیے جب سکو ں کی ضرورت ہوتی توان کے پاس جا کر وہ نکلوانے پڑتے ۔یہ سکے یا سونا د کاندار پھر جا کر ان مہاجنوں کے پاس جمع کر ا دیتے اور رسید لے لیتے۔
اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ان رسیدوں پر ہی لین دین شروع ہو گئی کاغذ کے یہی پرزے کر نسی نو ٹوں، ٹریولرز چیکوں اور کر یڈٹ کارڈوں کی بنیاد ہیںخریدوفروخت کاغذی چٹوں پر ہی مقبول ہونے کے بعد ان مہاجنوں کے پا س سونا بے مصرف پڑا تھا ۔انہوں نے اس ڈپازٹ کو سودی قرض پر دینا شروع کر دیا جس کیلیے وہ ایک دستاویز لکھوالیتے۔سرما یہ محفوظ کرنے،قرضہ دینے اور ضمانت حا صل کرنے کا یہ قدیم طریقہ آج کے جدید بنکاری نظام کی بنیاد بنا۔یورپ کے نشاةثانیہ میں حصہ لینے والے خاندانوں میں سے فلو رنس اٹلی کے میڈیکس خاندان نے اس نظام کی اعانت کی اور سویڈن میں پہلا بنک دی رکس 1656 میںقا ئم ہوا۔پھر بنک آف انگلینڈ سود خوری کے منظم ادارے کے طور پر 1694 میں قائم کر دیا گیا۔آہستہ آہستہ پوری دینا سودی لعنت کے اس جال میں پھنستی چلی گئی ۔جبکہ بائبل میں سود خور کی کی سزا موت ہے ۔جبکہ ارشادباری تعالیٰ قرآن شریف میں جو سزا سود خور کی بیان کرتے ہیں۔
1) اے ایما ن والو کئی گنا بڑھا چڑھا کر سود مت کھائو اور اللہ سے ڈرو تا کہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔ (آل عمران 130 ) (2) اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔
حدیث نبویۖہے
حضرت ابن عبا سسے روایت ہے کہ رسول اللہۖنے فر مایا:جو شخص سو د کھاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے (سود) کھانے کے بقدر اس کے پیٹ کو آگ سے بھر دیتا ہے (اتحاف الخیرةللبو صیری، حدیث:1543 حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے سو د کھانے والے پر ،اس کے کھلانے والے پر،اس کے لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے (صحیح مسلم ،حدیث:1598 حضرت ابو ہریر سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے فر ما یا :سو د کے گناہ کی ستر قسمیں ہیں، ان میں سے سب سے ہلکی قسم یہ ہے کہ آدمی اپنی ما ں سے زنا کرے (ابن ماجہ، حدیث 2274
تحریر: وسیم اسلم