تحریر: سجاد علی شاکر
یہ کائنات کسی حادثے کے طور پر وجود میں نہیں آئی نہ ہی اتفاقاً ایسا ہوا ہے بلکہ اس کو بنانے سنوارنے اور پھیلانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ کائنات پہ ایک طائرانہ سی نظر ڈالیں تو آشکار ہو گا کہ اس لا متناہی اور بیکراں وسعتوں کی حامل کائنات کتنے سلیقے طریقے سے بنائی گئی نہ موسموں میں موسم مدغم ہوئے نہ دن میں رات ہوئی نہ ستاروں کی جگہ چاند نے لی اور نہ خار کی جگہ پھول اْگ سکے۔برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں جان و مال کی قربانیاں دیکر وطن عزیز پاکستان حاصل کیا تھا۔ یہ ہمارا پیارا وطن پاکستان دنیا کے ایسے خطے میں واقع ہے جہاں خوبصورت شاداب وادیاں ہیں۔ شمالی علاقہ جات میں قدرتی نظارے جنت نظیر ہیں۔ قدرتی پھولوں اور پھلوں سے آراستہ یہ علاقے قدرت کا حسین شاہکار ہیں۔ قبائلی غیور پٹھان، محب وطن جنہوں نے ہمیشہ مغربی سرحدوں کی حفاظت کی ہے۔پنجاب کے میدانی علاقے اپنی مثال آپ ہیں۔
ہر طرف ہریالی اور ہر موسم کی فصلوں اور باغات سے بھرپور کھیت کھلیان یہاں کا حسن ہے۔ وادی سندھ باب اسلام عروس البلاد کراچی جو پاکستان کا گیٹ وے ہے۔ سمندر اور ساحل سمندر کی اہمیت سب پر عیاں ہے۔ سندھ کی وادی میں زراعت سبزیاں پھل ریگستان میں بھی دستیاب ہیں۔ محب وطن لوگوں کا مسکن پہاڑوں اور معدنیات سے اٹا ہوا علاقہ زمین میں بے بہا قدرتی خزانے لئے ہوئے بلوچستان، قدرتی بندرگاہ گوادر اس کی اہمیت ساری دنیا جانتی ہے۔ چاروں موسم، تازہ سبزیاں ہر قسم کے عمدہ پھل، پیارے ملک پاکستان میں پیدا ہوتے ہیں لیکن ہر بندہ پاکستان کو کوستا رہتا ہے۔ کیا ہم نے بحیثیت قوم اور انفرادی طور پر اپنا فرض نبھایا ہے؟ اس ملک کے لیڈروں نے پیارے وطن کی کیا درگت بنائی ہے، سب پر عیاں ہے۔ کرپٹ لوگوں نے اس پیارے پاکستان کا جو حشر کر دیا ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ جن کے پاس گدھا گاڑی نہیں تھی وہ بلٹ پروف گاڑیوں اور گارڈز کیساتھ شاہانہ کروفر اور گردن میں سریا لئے ہوئے پھرتے ہیں۔ یہ سب دو نمبر پیسے کا کمال ہے۔
ہر طرف ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ عام عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ قانون ہے تو غریبوں، پٹواریوں، کلرکوں کیلئے۔ ارب پتی لوگوں کو سات خون معاف ہیں۔ اس ملک پر صرف ایک ہزار خاندان حکومت کر رہے ہیں جو کہ کھرب پتی ہیں۔ ان خاندانوں نے پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ کوئی ڈیزل کی سمگلنگ کر کے ارب پتی ہے۔ کسی نے ایک کارخانے سے 20کارخانے بنا لئے ہیں۔ کوئی ڈرگ مافیا کا ساتھی ہے۔
کوئی کانسٹیبل سے ارب پتی ہو گیا ہے۔ کئی منشیات کے سمگلر ہیں۔ اس ملک کے وزیراعظم محترم جناب میاں نوازشریف صاحب نیک نیت معلوم ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے کہ وہ پاکستان کو علامہ اقبال ، قائداعظم کا پاکستان بنا سکیں۔ یہ تب ہی ممکن ہے کہ ہر پاکستانی اپنا فرض دیانت داری سے نبھائے، اربوں کی گیس چوری نہ کریں۔ اربوں کی بجلی چوری نہ کریں۔ اربوں کا ڈیزل، پٹرول چوری کر کے نہ بیچیں، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ سے کنارہ کش ہو جائیں۔ ڈاکو ئوں کی اور سماج دشمن عناصر کی کیا زندگی ہے کہ جب موت آتی ہے تو کفن دفن کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
یہ ہماری بہادر، نڈر، اسلامی جذبے سے سرشار، مسلح افواج کا ہی امتیاز ہے کہ اس نے نصرت خداوندی سے اس ملک کو ہر آفت اور مصیبت سے بچایا اور دشمن کے ناپاک عزائم کو ہمیشہ ناکامیاب کیا۔ہماری عسکری طاقت کی پرورش ہی نظم و ضبط کا شاخسانہ ہے اس سے انحراف فتح کو شکست میں بدلنے کے مترادف ہوتا ہے۔ نظم و ضبط اور قوانین سے انحراف کی ایک اہم مثال یہ ہے کہ جب نبی پاک ۖ نے غزوہِ اْحد کے موقعے پر مسلمان سپاہیوں کے ایک دستے کو ایک درے پہ یہ کہتے ہوئے تعینات کیا کہ “اگر تم دیکھو کہ پرندے ہم کو اْچک لے گئے ہیں تو بھی اپنی جگہ نہ چھوڑنا یہاں تک کہ میں تمھارے پاس کسی کو بھیجوں” مگر انہوں نے اسی نظم و ضبط اور حکم آقا کی نافرمانی کی جس کی بنا پر اْنہیں نقصان اْٹھانا پڑا۔
اگر تاریخ پہ بھی نظر ڈالیں تو قومی زندگی کی کامیابی تو عبارت ہی نظم و ضبط اصول و قوانین کی تعمیل سر خم کر کے کرنے میں ہے۔ بادشاہِ وقت اور قانونی محافظ، دریائوں کا سینہ چیرنے والے اور بلندیوں کے شاہین وقت اور اْس کی تاریخ کو سامنے رکھ کر اور موجودہ حالات و واقعات کی روشنی میں جو بھی حکمت عملی اپناتے ہیں اْن کا اصل اْن کی بنیاد قدرت کے اْسی نظم و ضبط پہ محیط ہوتی ہے
جسکے تحت یہ نظامِ کائنات توازن نہیں بگڑنے دیتا۔ جس قوم نے نظم و ضبط تباہ کر کے اپنی زندگیوں کا توازن بگاڑ دیا ہے وہ ذلت و رسوائی کی پستی میں پٹخ دی جاتی ہیں آج کے زوال پذیر معاشرے میں ہمیں اپنی اقدار کی تجدید کی ضرورت ہے جو آپۖ نے عالمگیر اور بین الاقوامی سطح پر مرتب فرمائیں جہاں کوئی فرد کسی دوسرے کا حق غصب نہ کر سکے ، کسی فردِ واحد کو نسلی یا معاشی فوقیت حاصل نہ ہو، معاشرے میں ہر فرد کو اْس کی ذاتی صلاحیتوں کی بنا پر ترقی کے مواقع حاصل ہوں۔ اِس سلسلہ میں نہ صرف ہم نے اپنے دلوں میں ایمانی روح کو زندہ کرنا ہو گا بلکہ اخلاقی جرائم کے انسداد کیلئے تعزیری تدابیر کی بھی ضرورت ہے جو انصاف اور عدل کے بغیر ناممکن ہے۔
تحریر: سجاد علی شاکر
sajjadalishakir@gmail.com
03226390480