تحریر : ڈاکٹر ریحان غنی
اللہ تعالی مسلمانوں کی تماتر بد اعمالیوں اور کوتاہیوں کے باجود ان کا معاون و مددگار اور حامی و ناصر بنا ہوا ہے۔ یہ اس کا احسان ہے۔ ورنہ عالمگیر سطح پر ہمیں ذلیل و رسوا کرنے کے لئے جو سازشیں کی جا رہی ہیں وہ ہمیں احساس کمتری میں مبتلا کرنے اور ہمیں پست ہمت کرنے کے لئے کافی ہیں۔ دو روز قبل امریکہ کے ٹکساس کے ١٤ سال کی عمر کے طالب علم احمد محمد کے ساتھ اس کے اسکول کے اساتذہ نے جو سلوک کیا اور اس کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا وہ ایسی ہی سازش کی ایک کڑی تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس ”شر” میں ”خیر” کا پہلو نکال لیا اور یہ مسلم لڑکا نہ صرف چشم زدن میں پوری دنیا میں مشہور ہو گیا بلکہ وہ ذرائع ابلاغ جو مسلمانوں کے اندر خامیاں اور کمزوریاں ہی تلاش کرتا رہتا ہے، اس مسلم لڑکے کی حمایت میں کھڑا ہو گیا اور بیشتر ٹی وی نیوز چینلز نے اس اسکول اور اس کے اس ٹیچر کی مذمت کی جس نے لڑکی کی مثبت اور تعمیری کوشش کو کچھ دوسرا ہی رنگ دے کر پورے مسلم سماج کو بدنام اور اور رسوا کرنے کی مذموم حرکت کی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ جسے عزت دینا چاہے اسے کون ذلیل کر سکتا ہے اور جسے رسوا کرنا چاہے اسے کون عزت بخش سکتا ہے۔
ہوا یہ کہ محمد احمد نے گھر میں نئی ڈجیٹل گھڑی بنائی اور اسے ٹکساس کے ارونگ میں واقع اپنے اسکول ‘ارتھر ہائی اسکول’ لے گیا ۔اسے امید تھی کہ اس کی اس نئی ایجاد سے اس کے ٹیچر خوش ہوں گے اور اس کی تعریف و توصیف کریں گے لیکن معاملہ ہی الٹ گیا۔ جب اس نے اپنی یہ گھڑی اسکول میں دکھائی تو اسکول کے اساتذہ نے اس گھڑی کو ”بم” سمجھ لیا اور پولیس کو بلا کر اسے گرفتار کرا دیا۔ اسے ہتھکڑی پہنائی گئی۔اس کے فنگر پرنٹس (انگلیوں کے نشانات) لئے گئے لیکن جب یہ طے ہو گیا کہ اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے تو اسے رہا کر دیا گیا۔ جب یہ خبر سوشل میڈیا پر عام ہوئی تو بڑے پیمانے پر اس کی تنقید کی گئی ۔ بی بی سی کی اطلاع کے مطابق ”آئی اسٹینڈود احمد” کے ”ہیش ٹیگ” کے ساتھ ٹوئیٹر پر ہزاروں ہزار لوگوں نے احمد محمد کی گھڑی کی تعریف کی اور اسے حراست میں لئے جانے کی شدید مذمت کی۔ ان میں ‘ناسا’کے سائنسداں ، فیس بک کے سی ای او مارک زکربرگ اور امریکہ کے صدر براک اوبامہ بھی شامل ہیں۔
اوبامہ نے ٹوئیٹ کیا ”احمد شاباش، آپ اسے وھائٹ ہائوس لانا چاہیں گے؟ہمیں آپ جیسے بچوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہئے تاکہ انہیں بھی سائنس پسند آئے۔ اس طرح کے کام ہی امریکہ کو عظیم بناتے ہیں۔”بی بی سی نے احمد کے حوالے سے بتایا کہ اس نے اپنے گھر میں گھڑی بنائی تھی اور انجینئرنگ کے استاد کو دکھانے کے لئے اسے اسکول لے گیا تھا۔ اس نے کہا کہ استاد نے اسے مبارکباد دی لیکن ساتھ ہی نصیحت کی کہ وہ یہ گھڑی دوسرے ٹیچروں کو نہ دکھائے۔ احمد نے بتایا کہ جب کلاس میں سبق کے دوران گھڑی سے ”بیپ” کی آواز آئی تو اس کی استانی کو اس گھڑی کا علم ہو گیا ۔ اس ٹیچر نے کہا کہ یہ تو بم لگتا ہے۔ احمد کی بنائی ہوئی گھڑی میں سرکٹ بورڈ ہے۔ جس کے ساتھ تاریں جڑی ہوئی ہیں۔ جو ڈجیٹل ڈسپلے تک جاتی ہیں۔ اس واقعہ کے بعد احمد کو کلاس سے باہر لایا گیا۔ ہیڈ ٹیچر اور چار پولیس اہلکاروں نے اس کا انٹرویو لیا اور اسے بچوں کے سزا خانے میں لے جایا گیا۔ بعد میں اسکول نے ایک بیان جاری کیا کہ ”ہم نے اپنے طلبہ اور عملے سے کہہ رکھا ہے کہ وہ اگر کوئی مشکوک چیزیں دیکھیں تو فوراً اس کی اطلاع دیں۔
احمد کے والد محمد الحسان محمد نے جن کا تعلق سوڈان سے ہے کہا کہ ان کے بیٹے کو اس کے نام اور گیارہ ستمبر کی وجہ سے برے سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکن اسلامک ریلیشن کانسل کی عالیہ سلیم اس بات پر متفق ہیں کہ اگر لڑکے کا نام احمد محمد نہ ہوتا تو اس طرح کے سوال ہی نہ اٹھتے۔ وہ پرجوش لڑکا ہے اور بہت ذہین ہے اسے اپنے اساتذہ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہے۔ ٹیکساس کی ایک کالج کی طالبہ آمنہ جفاری اس بات سے حیرت زدہ ہیں کہ چودہ سال کے احمد محمد کی حمایت کے لئے چلائے گئے” ہیش ٹیگ ”نے ٹوئیٹر پر چوبیس گھنٹوں میں ایک مہم کی شکل اختیار کر لی ۔ سات لاکھ سے زیادہ افراد نے ٹوئیٹر پر احمد محمد کے ساتھ اپنی حمایت کااظہار کیا۔ انہوں نے اپنے ٹوئیٹ میں لکھا کہ اگر احمد محمد کا نام ‘جان ‘ہوتا تو کہاجاتا کہ وہ ذہین ترین بچہ ہے لیکن اس کا نام احمد ہے اس لئے اس کو مشتبہ بنا دیا گیا”۔”آئی اسٹینڈ ود احمد ”آر لنگٹن نے ٹکساس یونیورسٹی کی تیئس سالہ طالبہ جفاری کو یہ جان کر صدمہ پہنچا تھا کہ ان کی ریاست میں اتنے کم عمر طالب علم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ” لوگوں کے ذہنوں میں مسلمانوں کے بارے میں غلط تصورات موجود ہیں۔” وہ یونیورسٹی میں مسلم طلبہ کی تنظیم مسلم اسٹوڈینٹس ایسو سی ایشن (MSA)کی سابق صدر ہونے کی حیثیت سے اسلام مخالف جذبات اور مذہبی بنیادوں پر امتیازی سلوک کے موضوعات پر بات کرنا ان کے لئے نئی بات نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ”میرے ایم ایس اے سے وابستہ ہونے کی وجہ یہی تھی کہ میں اپنے ہم خیال لوگوں سے ملنا چاہتی تھی۔
انہیں اس وقت خوشگوار حیرت ہوئی جب انہوں نے دیکھا کہ احمد کی حمایت میں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی آگے آئے۔ جفاری کہتی ہیں کہ ”مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے ان لفظوں میں اتنی طاقت تھی کہ وہ نہ صرف احمد بلکہ ان لوگوں کے لئے بھی تھے جن کو مذہبی بنیادوں پر ان کی نسل یا نام کے باعث امتیازی سلوک کا سامنا رہا ہے۔” اس واقعہ کی سب سے دلچسپ اور قابل غور بات یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کھڑی پوری دنیا میں اللہ تعالیٰ نے کس طرح اس”شر” سے ”خیر” کا پہلو نکال دیا۔ یہاں تک کہ امریکی صدر براک اوبامہ کو بھی اس بچہ کو شاباشی دینی پڑی اور اس سے ملاقات کی خواہش ظاہرکرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ امریکہ کو ایسے ہی بچے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ تقریباً ایک دہائی قبل ایک اور واقعہ سے امریکی انتظامیہ میں کھلبلی مچ گئی تھی۔ وہ واقعہ یہ تھا کہ امریکی انتظامیہ کو اپنے خفیہ کیمرے کی اسکرین پر پاکستان کے کسی دور دراز کے علاقے کے میدان میں گولا ، بارود اور بم جیسی چیزیں نظر آئیں۔ فوراً امریکی انتظامیہ متحرک ہوئی اور اس نے پاکستانی انتظامیہ کو یہ پتا لگانے کا حکم دیا کہ پاکستان کے کس علاقہ میں گولا، بارود اور بم میدان میں رکھا ہوا ہے۔
پاکستانی انتظامیہ بھی حرکت میں آئی اور اس نے تفتیش شروع کی تو اسے معلوم ہوا کہ امریکہ نے پاکستان کے جس میدان کے بارے میں گولہ بارود رکھے جانے کی اطلاع دی ہے اس میدان میں تبلیغی جماعت کا اجتماع ہو رہا ہے اور وہاں وضوکے لئے بدھنے، اور نماز پڑھنے کے لئے چٹائیاں رکھی ہوئی ہیں۔ پاکستانی انتظامیہ نے امریکی انتظامیہ کو یہ اطلاع دی کہ امریکہ میدان میں رکھی جن چیزوں کو گولہ بارود اور بم سمجھ رہا ہے وہ دراصل لوٹے، بدھنے اور لپیٹی ہوئی جائے نمازیں ہیں جسے تبلیغی جماعت کے لوگ وضو کرنے اور نماز پڑھنے کے لئے استعما ل کرتے ہیں۔ اس واقعہ سے بھی امریکہ کو بڑی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن جو بے شرم ہو جائے اسے شرمندگی کا احساس نہیں ہوتا۔امریکہ اس وقت خوف کے ماحول میں زندگی گزار رہا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ اس کا وجود خطرے میں ہے۔
تحریر : ڈاکٹر ریحان غنی