سندھ کےعلاقہ لاڑکانہ میں گذشتہ دنوں ایک مقامی سنگر سیمنہ سندھو کو شادی کی خوشی میں منعقد موسیقی کی تقریب میں نشے میں مدہوش ایک تماش بین نے گولی مارکر ہلاک کردیا۔ وہ ضد کر رہا تھا کہ گلوکارہ کھڑے ہوکر گانا سنائے۔ خبر کے مطابق گلوکارہ آٹھ ماہ کی حاملہ تھی۔ اسلئے یہ بات تو سمجھ میں آجاتی ہے کہ وہ کیوں بیٹھ کر گانا گا رہی تھی لیکن جس سوال کا جواب آج ہم تلاش کرنے کی کوشش کریں گے وہ یہ ہے کہ آخر کار وہ کیوں قتل کی گئی؟ اس کے لئے ہمیں ذرا پاک ہند کے ثقافتی پس منظر میں جانا پڑے گا۔ مغل ادوارِ حکومت میں لکھنو، دہلی، آگرہ، جے پور اور لاہور کی تہذیب میں مجرہ کو ایک خاص اہمیت حاصل تھی۔ لغت کے اعتبار سے ایسی محفل جس میں غزل، ٹھمری یا گیت کو رقص کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا، مجرہ کہلاتا۔ مجرے کے لیے مخصوص علاقے ہوتے تھے جن کو بازارِ حسن کہا جاتا تھا۔ وہاں یہ طوائفیں رہا کرتی تھیں اور اپنے فن کا مظاہرہ کرتی تھیں، ان کو کوٹھے یا بالا خانے کہا جاتا تھا۔ ان کو کسی خوشی کے موقع پر بڑے بڑے نواب، رئیس اور زمیندار مجرہ کیلئے بلایا کرتے تھے۔ یہ ان کا خاندانی کام تھا اور نسل در نسل چلتا تھا۔ یہ طوائفیں قطعہ نظر اس کے کہ ان کا پیشہ کیا ہے نہایت تہذیب یافتہ موسیقی و گائیکی اور زبان و شاعری پر مکمل عبور رکھتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب کسی نواب کو اپنے کسی بگڑے بچے کو سنوارنا ہوتا، وہ اُسے محفل کے ادب و آداب، شاعری اور زبان دانی میں تلفظ درست کروانا مقصود ہوتا، وہ انہیں کچھ عرصہ کیلئےان کوٹھوں پر بھیج دیا کرتے تھے۔ ایک اہم بات یہ تھی کہ یہ طوائفیں خاندانی رئیس، نوابوں یا زمینداروں کے ہاں ہی جایا کرتی تھیں۔ یہی لوگ ہی ان کے کوٹھوں پر آیا کرتے تھے۔ کسی عام آدمی کو ان تک رسائی ناممکن تھی۔ بعد ازاں انہی بازارِ حُسن نے پاک و ہند کی فلم انڈسٹری کو بڑھنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ماضی کی کئی مشہور ادکارائوں کا تعلق انہی بازاروں سے تھا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی ایک عرصہ تک شادی بیاہ کی خوشی میں مجرے کا اہتمام یہاں کی ثقافت کا حصہ رہا ہے۔ شادی بیاہ کے موقعوں پر بازارِ حسن کی طوائفوں کو بلا کر رقص و گائیکی کی محفل منعقد کی جاتیں تھیں لیکن ان محفلوں کے کچھ ادب آداب ہوتے تھے۔ سب سے پہلے تو علاقہ تھانہ انچارج کو رپورٹ کی جاتی تھی۔ علاقہ انچارج قانوناً یا مصحلتاً اجازت تو دیتا لیکن اس بات کی گارنٹی لیتا کہ ایسی محفل کسی پرائیویٹ یعنی چاردیواری کے اندر ہوگی۔ کسی ہمسائے کو اس سے تکلیف نہ پہنچے، ہلڑ بازی و شراب نوشی نہیں کی جائیگی وغیرہ وغیرہ۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس خاندان میں شادی ہو رہی ہوتی تھی اس کے تمام افراد اس محفل میں شامل ہوتے تھے ماسوائے خواتین اور بچوں کے، جوان، نوجوان حتی کہ بزرگ تک بیٹھے ہوتے تھے۔ بزرگ سب سے آگے اس کے پیچھے نوجوان یا ان کے دوست احباب اور پھر کوئی گھر کے ملازم یا تعلق واسطے کے لوگ لیکن ان کو آگے آکر سلامی دینے کی اجازت نہ ہوتی۔ اگر گھر کے بزرگ اور ذمہ دار لوگ کسی وجہ سے وہاں نہ جاتے تو ایسا بھی ہوتا تھا کہ خاندان کے کسی بڑے سمجھ دار بڑے کو وہاں بجھوا دیا کرتے تھے کہ کسی بھی ناخوشگوار صورتحال کو سنبھال سکے۔ پھر یہ کہ جو رقاصائیں آتی تھیں ان کی بھی عزت کا خیال رکھا جاتا تھا۔ محفل میں موجود کسی کو اجازت نہ ہوتی کہ وہ ان کے ساتھ بد تمیزی کرے اور اگر کوئی ایسا کرتا تھا تو اسے نکال دیا جاتا تھا۔ حاضرین کا موضوع سخن رقص اور گائیکی کا معیار ہوا کرتا تھا اور طوائفیں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرکے داد وصول کیا کرتی تھیں لیکن پھر زمانہ نے کروٹ لی۔ خاندانی زمینداروں، نوابوں اور شرفاء نے ایسی محفلوں کو اپنی خوشیوں سے نکال باہر کیا اور نودولتیوں نے جن کے پاس کرپشن کا پیسہ یا مڈل ایسٹ اور یورپ امریکہ کے ڈالر دینار آگئے، انہوں نے اپنے پیسہ کی نمائش اور جھوٹی شان شوکت دکھانے کیلئے ایسی محفلیں شروع کردیں۔ یہ وہ طبقہ تھا جنہیں اُس زمانہ میں ایسی محفلوں میں کوئی داخل بھی نہیں ہونے دیتا تھا۔ کہتے ہیں کسی انسان کا ظرف دیکھنا ہو اس کا خاندانی پس منظر دیکھنا ہو تو اسے برائی کے پاس لے جائو۔ وہ برائی بھی ایسے کرے گا کہ نہ تو اس کی ذات سے کسی کو نقصان ہو اور نہ کوئی اس کے خاندانی نام پر کوئی حرف آئے لیکن ان نودولتیوں اور لوٹ مار کے پیسے نے معاشرے کا حلیہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ برصغیر کے کلاسک رقص کی جگہ لچر پن اور عریاں ڈانس نے لے لی۔ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر نوٹ پھیکنا اور رقص دیکھنے یا سننے کی بجائے رقصائوں سے بد تمیزی کرنا، ہلڑ بازی، شراب نوشی اور فائرنگ ان محلفوں کے شرکاء کا بڑا پن قرار پایا۔ کئی ایسے واقعات بھی ہوئے کہ ان طوائفوں کو اغواء کرلیا گیا۔ کئی دفعہ ایک دوسرے سے سبقت لیجانے کی کوشش میں نشے میں مدہوش تماش بین آپس میں لڑ پڑے اور بات قتلوں تک جا پہنچی اور ایسی دشمنیوں میں خاندان کے خاندان تباہ ہوگئے۔ ایسی محفلوں میں آنے والی طوائفوں کا بھی اب وہ معیار نہ رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا۔ وہ بھی زمانہ تھا کہ کسی چھوٹی موٹی دعوت کو وہ قبول ہی نہ کرتی تھیں اور اب یہ بھی زمانہ ہے کہ پیٹ کی خاطر جو بلائے، یہ جا پہنچتی ہیں۔ سمینہ سندھو کا قتل کسی ایسی خاتون کا پہلا قتل نہیں بلکہ ایسے بہت سے واقعات ہیں جن میں ایسی عورتوں کی جان تک چلی گئیں لیکن ان کیسوں کو دبا لیا گیا۔ آخر میں اگر میں یہ کہوں کہ اس قتل میں قصور اس بدنام پیشہ سے تعلق رکھنے والی سمینہ سندھو کا ہے یا ان لوگوں کا جو اسے وہاں لے کر گئے یا ان تماش بینوں کا ہے جنوں نے اسے قتل کیا، تو غلط ہوگا بلکہ اس قتل کا اصل قصوروار یہ پورا معاشرہ ہے جہاں پر دن بدن معاشرتی ویلیو گرتی جارہی ہیں۔ کم ظرف کرپٹ مجرمانہ ذہنیت کے لوگ طاقتور سے طاقتور اور امیر سے امیر ہوتے جارہے ہیں۔ جبکہ خاندنی شرفاء، رئیس اور زمیندار اپنی عزت و سفید پوشی پر پردہ ڈالے رکھنے کے لیے خاموشی سے معاشرے کی بھیڑ میں کہیں گم ہوگئے ہیں۔