تحریر : مختار اجمل بھٹی
یہ 21 اگست 2008 جمعرات کا دن تھا پی او ایف کے کارکنان اپنے کارِمنصبی انجام دینے کے بعد گھروں کو لوٹنے والے تھے جونہی چھٹی کے لیے ہوٹر بجا لوگ فیکٹری کے خارجی دروازوں سے باہر نکلنے لگے کہ اچانک فضازوردار دھماکوں سے گونج اُٹھی اس بار دہشت گردوں کا نشانہ پی او ایف کے نہتے محنت کش تھے وہ محنت کش جوملکی دفاع کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے خاموش مجاہدین کے روپ میں دن رات مصروف ِعمل ہیں1951 میں قائم ہونے والی پاکستان آرڈننس فیکٹری آج ایک دفاعی کمپلیکس کی شکل اختیار کر چکی ہے پی او ایف نا صرف پاکستان کی مسلح افواج کی دفاعی ضروریات یعنی اسلحہ و گولہ بارود کی فراہمی کویقینی بنا رہا ہے بلکہ اعلیٰ معیار کی دفاعی مصنوعات دنیا کے مختلف ممالک کو برآمد کر کے وطنِ عزیز کے لیے کثیر زرمبادلہ بھی کما رہا ہے۔
پی او ایف اپنے دستیاب وسائل کو بروئے کار لاکر Efficiency ——- Economy—– Self Relience کو مشن بنا کر تیزی سے خودانحصاری کی جانب گامزن ہے پی او ایف کوForce Behind the Forces کا اعزاز حاصل ہے جبکہ قدیم ترین ادارہ ہونے کے باعث اسے Mother of Industries بھی کہا جاتا ہے پیشہ ورانہ امور میں مہارت، جدید وسائل سے مزین، تکنیکی صلاحیتوں سے مالامال بہترین افرادی قوت کی حامل پاکستان آرڈننس فیکٹریز ملکی دفاع میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ پی او ایف ملک دشمن عناصر اور ان کے سر پرستوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے اس لیے انھوں نے اُن ہنر مند ہاتھوں کو نشانہ بنایا جو شب وروز ملکی استحکام، سلامتی،بقا اور تعمیر و ترقی کے لیے کو شاں ہیں۔
پی او ایف کے گیٹس پر ہونے والے دو خودکش دھماکوں میں 70 افراد شہید جبکہ 196 زخمی ہوئے پی او ایف میں ہر سال 21 اگست کو ان شہداء کی برسی منائی جاتی ہے اس بار شہدائے پی او ایف کی آٹھویں برسی منائی جائے گی واہ کینٹ کی مساجد میں نمازِ فجر کے بعد شہداء کے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کا اہتمام کیا جاتا ہے جبکہ شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یادگارِ شہداء پر مرکزی تقریب منعقد کی جاتی ہے۔
اس تقریب کے مہمانِ خصوصی چیئرمین پی او ایف بورڈ ہوتے ہیںجو یادگار شہداء پر پھولوں کی چادر چڑھاتے ہیں جبکہ شہداء کے لواحقین بھی اس تقریب میں کثیر تعداد میں شریک ہوتے ہیں شہداء کے ورثا میں امدادی رقوم کے چیکس بھی تقسیم کے جاتے ہیں چیئرمین پی او ایف بورڈ کو اپنے درمیان پا کر شہداء کے لواحقین دلی طمانیت محسوس کرتے ہیں اور تھو ڑی دیر کے لیے اپنے دکھوں کو بھول جاتے ہیںعلاوہ ازیں شہداء کے لواحقین کے مسائل و معاملات کو مانیٹر کر نے کے لیے شہداء سیل بھی قائم کیا گیا ہے۔
شہداء کی یاد میں منعقدہ یہ تقریب دراصل اس بات کی غماز ہے کہ پی او ایف انتظامیہ اور اہلیانِ واہ اپنے ان غازیوں اور شہیدوں کو نہیں بھولے جنہوں نے وطن عزیزکی سربلندی اور پی او ایف کی عظمت و حرمت کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے شایددہشت گردوں کا خیال تھا کہ اس بزدلانہ کاروائی سے وہ پی او ایف کے خاموش مجاہدین کی جرات اور حوصلہ مندی کو توڑ دیں گے مگر دھرتی کے یہ جفاکش و بہادر سپوت اپنے سالار چیئرمین پی او ایف بورڈ کی سرکردگی میں عزم و ہمت کی تصویر بنے،ملی جوش و جذبے،لگن اور تندہی سے ملکی دفاع کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے دیوانہ وار سر گرم ہیں۔
مجاہد چاہے وہ وطن کی سرحدوں کی حفاظت پر مامور ہو،یاامن و امان قائم رکھنے کے لیے دہشت گردوں سے بر سر پیکار ہو یا پھرخاموش مجاہد کے روپ میں ملکی دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے مصروفِ عمل ہو ،سب کامقصد حیات شہادت ہی ہوتا ہے۔
شہادت ہے مطلوب و مقصودمومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
تحریر : مختار اجمل بھٹی