تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال
ہمارے ملک میں ایک طرف پاکستانی قوم مسائل و مشکلات اور سیلاب جیسی قدرتی آفت میں مبتلا ہے۔ تو دوسری طرف افسوس ناک طرز عمل یہ کہ سیاسی قائدین، عوام کے خیر خواہ، ہمدرد، لیڈر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے بیان بازی، فوٹو سیشن میں مصروف ہیں۔ پاکستان میں سب سے بڑا سیلاب 1977 میں آیا تھا جس میں سینکڑو ں دیہات کے ساتھ 20 ہزار افراد جاں بحق ہوئے تھے اسی طرح 2010 کے سیلاب میں بھی بہت جانی و مالی نقصان ہوا تھا۔
اب تک پاکستان میں بیس بڑے سیلاب آ چکے ہیں ا ب تو ہر سال سیلاب آتا ہے۔یعنی سیلاب بھی سالانہ تہوار بن چکا ہے ۔اور تباہی مچاتا ہوا گزر جاتا ہے۔ اپنے پیچھے سینکڑوں داستانیں چھوڑ جاتا ہے ،بہت سے افراد کو بے گھر کر جاتا ہے ۔ان میں زیادہ تر غریب ہی ہوتے ہیں ۔سیلاب ہوتا کیا ہے ۔انسائیکلوپیڈیا کے مطابق سیلاب کسی بھی مقام پر اضافی پانی کا بہاؤ کہلاتا ہے جس کی وجہ سے زمین زیر آب آ جائے ۔ سیلاب کسی بھی علاقے کا محدود وقت تک زیر آب آجانا ہے ۔سیلاب کسی بھی دریا یا جھیل میں موجود پانی کی وجہ سے تب پیش آتا ہے ، جب کہ اس میں گنجائش سے زیادہ پانی بھر جائے اور اضافی پانی کناروں سے باہر بہہ نکلے ۔چونکہ جھیلوں اور تالابوں میں پانی کی مقدار موسم اور برف کے پگھلاؤ سے مشروط ہوتی ہے اور ان قدرتی وسائل میں پانی کی سطح بڑھتی اور گھٹتی رہتی ہے ، تو سیلاب عام طور پر اسی وقت اہمیت اختیار کرتا ہے جب یہ زرعی زمینوں اور شہری یا دیہی آبادیوں کو نقصان پہنچائے۔
سیلاب اکثر آبادیوں، زرعی املاک اور جنگلات کو نقصان پہنچاتا ہے ۔ پاکستان میں تو سیلاب ہر سال آتا ہے ،اور وجوہات کا بھی سب کو علم ہے ،ان کا سدباب بھی ممکن ہے ۔لیکن کوئی بھی حکومت اس کو سنجیدگی سے نہیں لیتی ۔ہمارے بہت سے سیاست دان ،صحافی اسے بھارتی سازش قرار دیتے ہیں ،اصل میں اس کی وجہ حکمرانوں کی ناقص پالیسی ہے ۔ہر سال سیلاب سے نپٹنے کی تیاری نہیں کی جاتی بے شک اس میں بھی حقیقت ہے کہ ہندوستان آبی جارحیت کر رہا ہے ۔ دو باتیں ہیں ایک یہ کہ پاکستان اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں کیوں نہیں اٹھاتا ،اس پر شدید احتجاج کیوں نہیں کرتا ،ہندوستان سے ہر قسم کی تجارت بند کیوں نہیں کرتا اس لیے کہ اس سے چند افراد کے مفادات وابستہ ہیں ۔بھارت کی حب الوطنی دیکھیں کہ اس کی کرکٹ ٹیم ایسے الزامات لگا کر جن کا وجود ہی نہیں ہے (الٹا بھارت کے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوت ہیں )لیکن کرکٹ بورڈ نے پاکستان کے ساتھ کرکٹ کھیلنے سے انکار کیا ہوا ہے۔
ہم مرے جارے ہیں ان کی فلموں کی نمائش کے لیے ،تجارت کے لیے ،امن کی آشا کے لیے ،دوستانہ تعلقات کے لیے وغیرہ دوسری بات یہ کہ مجھے حکمرانوں اور فلڈ انتظامیہ اور ایسے دیگر اداروں سے جو اس سے منسلک ہیں کہنا ہے کہ دوسروں کی سازش قرار دے کر ہم اپنی ذمہ داریوں سے نہیں بچ سکتے اور دشمن تو سازش ہی کرے گا ایسا نہ کرے تو وہ دشمن ہی کیوں ہو ۔بے شک ہندوستان پر الزام تراشی کی جائے لیکن ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا چاہئے کہ ہم سیلاب سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں،کوئی منصوبہ بندی نہیں ، کیا کوئی مجھے بتاسکتا ہے کہ ہم نے 2010 کے سیلاب کے بعد سیلابی شدت میں کمی لانے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ جبکہ اس کے بعد ہر سال سیلاب آرہا ہے گزشتہ سال 2014 میں حکومت نے سیلاب متاثرین سے بہت سے وعدے کیے تھے ان کا کیا ہوا؟ان وعدوں کو پورا کرنے کے اقدامات کن اداروں نے کرنے تھے؟کوئی ان پوچھنے والا ہے ؟ جن کی ذمہ داری ان سے اس بابت پوچھنا ہے ان سے کوئی پوچھنے والا ؟کیا ان کو اپنی ذمہ داری پوری نہ کرنے پر سزا دی جائے گی؟میرے جمہوری ملک میںایسا کچھ نہیں ہو گا کیونکہ اب جمہوری حکومت ہے جن میں اکثریت کرپٹ عناصر کی ہے۔
ایک خبررساں ایجنسی کے مطابق پاکستان کے بیشتر علاقوں میں بارشوں کے باعث دریاؤں میں سیلابی صورت حال ہے سیکڑوں دیہات زیر آب آگئے ہیں جب کہ کئی علاقوں کا زمینی رابطہ منقطع ہوگیا ہے ۔کوئی تو ایسا ہو جو مستقل بنیادوں پر اس سیلاب کے نقصان سے بچنے کے لیے منصوبہ بندی کرے ۔پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں،یہ تباہی صرف ان کی ہے جو غریب ہیں ،جو میڈیا اور صاحب اقتدار کے لیے اعدادو شمار ہیں ۔ ملک کے بہت سے شہر، قصبے اور دیہات زیر آب آچکے ہیں، ہزاروں گھر بہہ چکے ہیںلاکھوں متاثرین کھلے آسمان تلے بے یارومددگار پڑے ہیں، معصوم بچوں کو سینوں سے لگائے ما ئیں مایوس آنکھوں سے حکومت کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ لوگ اپنے پیاروں کو ،مال و زر کو سیلاب کی لہروں میں سوکھے پتوں کی مانند بہتے دیکھ کر بے بسی سے ہاتھ مل رہے ہیں۔جو غریب ہیں وہ بھوک سے مریں (تھر)گرمی سے مریں (کراچی)یابارشوں اور سیلاب سے مریں۔
محسن غریب لوگ بھی تنکوں کا ڈھیر ہیں
ملبوں میں دب گئے کبھی پانی میں بہہ گئے
حکومت کوئی پائیدار منصوبہ بندی کیوں نہیں کرتی جس سے اس سالانہ سیلاب کے عذاب سے بچا جا سکے یا اس سے کم سے کم تباہی ہو ،پڑھا ہے حکومت فنڈ جاری کرتی ہے لیکن کرپٹ افسران اور دیگر متعلقہ افراد اسے کھا پی جاتے ہیں،حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ ایک دریا کاایک ہی جگہ سے ہر سال بند کیوںٹوٹ جاتا ہے؟ ،عوام کے لیے بارشیں تہراعذاب ہوتی ہیں۔ حالانکہ یہ اللہ کی رحمت ہے اس سے فضا دھل جاتی ہے زمین کے پانی کی سطح قائم رہتی ہے ،کھیت کھلیان کی زرخیزی برقرار رہتی ہے وغیرہ ادھر بارشیں ہوئیں ادھر سیلاب آیا اور ساتھ ہی لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھی نازل ہو جاتا ہے۔
میڈیا کو چاہیے کہ وہ اس پر کام کرے سیلاب کی تباہی سے کیسے بچا جا سکتا ہے اور گذشتہ ادوار میں ایسا کیوں نہ کیا گیا ؟کالم نویس لکھ رہے ہیں کہ اس سے سیلاب بیورو کریسی کی موجیں لگ جاتیں ہیں ۔اس لیے سب سے پہلے کرپٹ عناصر کا خاتمہ کیا جانا چاہیے اس کے بعد ہمیں جنگلات زیادہ سے زیادہ لگانے چائیے ،ساتھ ساتھ ڈیم بنانے ان پر توجہ دینی ہو گی ،پشتوں اور بندوں کو مظبوط بنانا ہو گا ،سیلابی پانی کا رخ بدلنا،اور سب سے بڑھ کر پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم بنانے ہوں گے اب کیونکہ جمہوری حکومت ہے اس لیے حکومت کو مشورہ ہے ڈیم بنانے کے لیے ملک میں ریفریڈم بھی کرایا جا سکتا ہے اسی صوبے میں کروا لیا جائے جس کو شکایت ہے تب بھی اکثریت کا ڈیم کے حق میں فیصلہ ہو جائے گا ۔ ملک کو تباہی سے بچانے کے لیے ملک میں ڈیموں کی اشد ضرورت ہے ۔ہمارے پڑوسی ملک نے گذشتہ چند سال میں درجنوں ڈیم بنائے ہیں ہم کو بھی ملک کے لیے اپنی عوام کے لیے سوچنا چاہیے مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کرنی چاہیے ،اس پر تمام جماعتوں کی ایک میٹنگ بھی بلائی جا سکتی ہے ۔عوام ،اہل ثروت ،مخیر حضرات سے اپیل ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے جماعت الدعوة اور الخدمت فاونڈیشن کو عطیات دیں۔جو متاثرہ جگہوں پرجا کرقیمتی جانوں کا مزید ضیاع روکنے اور ان کی بروقت مدد کر کے ان کو باحفاظت مناسب جگہوں پر منتقل کرنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔
خدارا سیلاب زدگان کی دل کھول کر مدد کریں ،خدا کے لیے تمام سیاسی و مذہبی رہنما اپنے اختلافات بھلا کر ان ضرورت مندوں کی مدد کریں۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ پاکستان پر اپنی رحمتیں ،برکتیں نازل فرما ۔اے اللہ اے خدائے کارساز ہماری قوم کو ہدائت دے مل جل کر مصیبت کے ماروں کی مدد کرنے کی توفیق دے ہماری حکومتوں کو ملک و قوم کے لیے کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ میرے ملک کو تمام آفات سماوی و ارضی سے محفوظ رکھ۔ آمین
تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال