تحریر: امجد ملک
جب بھی تین دسمبر آتا ہے , آنکھوں کے سامنے بہت سے کرب ناک منظر گھوم جاتے ہیں. سوشل ورک سے منسلک لوگوں کی فطرت میں لوگوں کے دکھ درد کو محسوس کرنا , انکی مدد کی کوشش کرنا شامل ہوتا ہے. پاکستان کی آزادی کے ستر سالوں میںآج بھی معذور افراد کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں. علاج معالجہ تو درکنار ان بدنصیبوں کو ایسی سہولیات بھی میسر نہیں کہ وہ اپنی جسمانی معذوری کو تھوڑا سہارا دے کر زندگی کا ساتھ دے سکیں. حکومتی دعوے , پریس کانفرسیں , جلسوں کی دھواں دھار تقریریں , سیمینارز کا سارا تاثر اس وقت دم توڑ دیتا ہے. جب رورل ایریا میں سینکڑوں معذور بچے بچیاں حسرت و یاس کی تصویریں بنے نظر آتے ہیں۔
مجھے ہر قومی دن یاد نہیں رہتا. اکثر اوقات اخبار انٹرنیٹ یا دوست اچانک یاد کرواتے ہیں لیکن 3 دسمبر مجھے نہیں بھولتا. معذوروں کے عالمی دن مجھے ” آمنہ ” شدت سے یاد آتی ہے. جسکا سن کر میں ملنے اسکے گھر گیا ,میں اتنی پیاری , با اخلاق اور پر اعتماد بچی کو دیکھ کر حیرت زدہ ہو گیا. اسکی پہلی جماعت سے آٹھویں تک کی پوزیشن دیکھ کر میری آنکھیں برسنے لگیں۔
ایک ایسی ہونہار بچی جو پہلی , دوسری پوزیشن لیتی تھی جب نویں کلاس میں پونچی تو اچانک بینائی چلی گئی. والدین نے پوری کوشش کی لیکن اسکے نصیب میں روشنی نہیں تھی. مجھے کوئی سوال سمجھ نہیں آرہا تھا. میں نہیں رندھی ہوئی آواز میں پوچھا ” بیٹا ! آگے کیا کرنا ہے ۔آمنہ میری حالت سمجھ رہی تھی. بولی ” انکل ! اتنے پریشان نہ ہوں اللّہ بہتر کرے گا ” ہم نے آمنہ کا بلائنڈ اسکول داخلہ کروایا. آمنہ کو ہم خواتین کے بڑے فنکشن میں بطور مہمان خصوصی لائے تو بہت سی آنکھیں پر نم تھیں لیکن ایک احساس پیدا ہوا کہ ہمارے یہ بچے , ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔
3 دسمبر میں اپنی بیٹی ” اسرا ” کو نہیں بھولتا جو معذوری کے سبب گلی کی دیواریں پکڑ پکڑ کے اسکول جاتے ساتویں تک پونچ گئی. میں اسکے گھر کے صحن میں نظریں جھکاے اپنی بے حسی کا ماتم کرتا رہا کہ ہم اسرا کو ایک” واکر ” نہیںدے پائے. اسرا ٹیچر بننا چاہتی تھی جب ایک سستی سی واکر لے کر اسکے سامنے رکھی تو اسکے چہرے کی چمک دیکھنے کے قابل تھی۔
ہم بے حسی کی چلتی پھرتی تصویریں ہیں. معذور افراد کے لئے فوٹو سیشن کے ساتھ کسی معروف سڑک پر واک میں شامل ہوتے ہیں لیکن چند قدم کی ” واک ” کر کے اس معذور بچے بچی کے سر پر شفقت کا ہاتھ نہیں رکھتے. معذوروں کے عالمی دن مجھے گاؤں کا “ظہیر “یاد آتا ہے. جسے وہیل چیئر پہ بیٹھا دیکھ کر میں نے کہا تھا کہ ” اب تمہیں آسانی ہے وہیل چیئر ” پہ گھوم پھر سکتے ھو۔ظہیر چپ سا ہو گیا. پھر بولا ” کوئی دھکیل کے باہر لانے والا ہو تب ” ہم نے ایک ہاتھ سے چلنے والی ٹرائی سائیکل لے دی. اب زہیر خود گھوم پھر لیتا ہے کسی کی محتاجی کم ہو گئی ہے. مجھ جیسے غریب سے لے کر بڑے بڑے سیاستدانوں اور امیرزادوں تک ہر انسان کسی نہ کسی حوالے سے روز مرہ زندگی میں بھی دوسرے انسانوں کا محتاج ہے. لیکن ہماری خود غرضیاں ہمیں صرف اپنی ذات تک سوچنے میں مصروف رکھتی ہیں. ہم ارد گرد کے لئے دیکھنے سوچنے اور احساس کرنے میں سب سے بڑے ” ذہنی معذور ” ہیں۔
تھوڑا سا وقت عملی خدمت کے لئے نکالنا چائیے , مجھے اسپیشل ایجوکیشن سنٹرز حضرو ڈیف اینڈ ڈمپ اٹک کے بچوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا رہتا ہے. میں ان معذور بچوں کی محبت کا اسیر ہوں. یہ اپنے نازک دلوں , والہانہ محبت اور پیاری حرکتوں سے آپکا دل موہ لیتے ہیں. ” معزوروں کے عالمی دن ” میں اپنے تجربات محض اس وجہ سے شئیر کر رہا ہوں کہ ہماری چھوٹی سی عملی کوشش ان مخصوص افراد کی زندگیوں میں خوشیاں بکھیر دیتی ہے. ایک اچھا قدم ایک اچھی کوشش ایسی انویسٹمنٹ بن جاتی ہے جسکا منافح ہمیں صدیوں تک قبروں میں بھی پنچتا رہے گا. اور وہاں ہمیں اسکی شدید ضرورت بھی ہوگی.مسجد , اسکول اورہسپتال کبھی بند ہوتے نہیں دیکھے. خدا انہیں چلاتا رہتا ہے. مجھے اس 3 دسمبر ایک بات کی خوشی بھی ہے۔
ہمیں پتا چلا کہ اسپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نئے سنٹرز کھولنے کا ارادہ رکھتا ہے. میں نے خود رابطے کیے , ضلح انتظامیہ کو” والنٹیر خدمات ” پیش کیں. جولائی 2015 میںدرد دل رکھنے والے دوستوں کی مدد سے اٹک خرد ،حاجی شاہ ، ملاں منصور، مانسر میں کمپس لگا کر گھر گھر سے معذور بچوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا. اس دوران بچوں کی تعداد اور حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا تھا۔
ایک ایک بچہ اسکی امید بھری نظریں , والدین کی بے بسی میں زندگی بھر نہیں بھول پاؤنگا. جولائی سے اب تک کی مسلسل کوششوں تگ و دو کے بعد آج اللہ کے فضل سے ہم اس قابل ہو گئے ہیں کہ ضلح انتظامیہ نے تمام ضروری قوائد و ضوابط پورے کرنے کے بھد کیس منظوری کے لئے بھیج دیا. اس دوران ہم نے آزاد کشمیر رجمنٹل سنٹر کو جگہ دینے اور تمام ضروری مدد کے لئے قائل کر لیا. ایک پیارے دوست ہمدرد انسان نے معذور بچوں کے اسکول کے لئے سات کنال اراضی مفت دینے کی خوائش کا اظہار بھی کر دیا ہے۔
خدا جلد ہمیں وہ دن دکھائے جب ہم ان معذور بچوں کو ہنستے مسکراتے , تعلیم و تربیت اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہوتے دیکھ سکیں. اس تمام تفصیل کا بنیادی نقط صرف یہ ہے کہ اس مقصد کے لئے میں اکیلا چل پڑا تھا , بنا وسائل , بنا کسی لمبی پلاننگ اور جھجھک کے.خدا راستے بناتا ہے , خدا اچھے لوگوں کو ہم رقاب کر دیتا ہے. کوئی جانب منزل چلے تو سہی , کارواں خدا بنا دیتا ہے۔
معذوروں کے عالمی دن آگاہی کے لئے احساس کے لئے , سیمینار , واک اور مجالس بہت ضروری ہیں. لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ ہم اپنے ارد گرد معذور افراد کا خصوصی خیال رکھیں. اپنے دوستوں , عزیزوں کے چھوٹے چھوٹے گروپ بنا کر معذور افراد کے لئے آسانیوں کا سبب بنیں. حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ معذور افراد کے بحالی سنٹرز کے ساتھ ساتھ نوکریوں میں انکے لئے مخصوص کوٹہ پر حقیقی معنوں میں عمل در آمدکروائیںتاکہ معذور افراد اس معاشرے کا حقیقی اور کار آمد حصہ بن سکیں۔
تحریر: امجد ملک