تحریر: ماجد امجد ثمر
انسانیت کی بے لوث خدمت کرنے والے لوگ معاشرے کا بہترین سرمایہ ہوتے ہیں۔ بلک یہ لوگ دنیا میں محبت،احساس،امن اور انسانیت کے سفیر ہوتے ہیں۔ان رضا کاروں کے عمل کی وجہ سے ہی دوسرے لوگوںمیں انسانوں کی مدد کرنے اور بھلائی کرنے کا ایک تصور پیدا ہوتا ہے۔ اور انسان کی دوسروں کے ساتھ کی ہوئی بھلائی کبھی بھی رائیگاں نہیں جاتی۔ ایک مخلص رضاکار بغیر کسی لالچ کے انسانوں کی مدد کرتا ہے اور کبھی بھی کسی انسان سے اس کے بدلے کی توقع نہیں رکھتا بلکہ ایک رضاکار کو تو دوسروں کی مدد کر کے جو روحانی خوشی اور دلی سکون حاصل ہو تا ہے بس وہ ہی اس کے لئے اصل ثمر ہوتا ہے۔ دراصل یہ رضاکار معاشرے کے ایسے قابل اعتماد سپاہی ہوتے ہیں جو بغیر کسی مفاد کے عوام کے حقوق کے لئے لڑتے ہیں اورمعاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے اپنی ہر ممکن حد تک کوشیش میں مصروف رہتے ہیں۔
رضا کاروں کا عالمی دن ہر سال 5 دسمبر کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔اور یہ دن اقوام متحدہ کی طرف سے 1985ء سے منایا جا رہا ہے۔یہ دن دراصل دنیا کے تمام رضاکاروں کو علاقائی ،قومی اور عالمی سطح پرمعاشرے میں اپنی خدمات پیش کرنے کی مزید حوصلہ افزائی کرتاہے اس کے علاوہ دوسرے افرادمیں اپنے اند ر ایسا جذبہ ء پیدا کرنے کا شعور بیدار کرتا ہے۔لیکن معاشرے میںدیکھا گیا ہے کہ بہت سے لوگ طاقت یا حیشیت رکھنے کے باوجو د بھی لوگوں کی مدد نہیں کرتے جبکہ ایک انسان اگر کسی کی ضرورت پوری کرنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے ضرور چاہیے کہ وہ اگلے انسان کی اپنی طاقت سے بھی بڑھ کر مدد کرے۔اور انسانیت کی خدمت کرنا اسکا بہترین اخلاقی رویہ ہے ۔اسلام میں بھی دوسروں کے کام آنے بارے بڑا زور دیا گیا ہے۔”اور اللہ کی بندگی کرواور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہرائو اور بھلائی کرو ماں باپ سے،اور رشتہ داروں سے ،اور یتیموں سے اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی،اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے بے شک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والا بڑائی مارنے والا۔”(سورہ النساء ۔آیت 36)۔ایک برطانوی تحقیق کے مطابق رضا کار عموماً لمبی ذندگی پاتے ہیںاور آخر ایسا ہو بھی کیوں نہ کیونکہ وہ لوگوں کے لئے ہی تو زندہ رہتے ہیں۔ کیونکہ دوسروںکے کام آنے اور ان کی مدد کرنے کا حوصلہ یا احساس ہر ایک انسان میں نہیں ہوتا۔بس یہ وہ بہت ہی خوش قسمت لوگ ہوتے ہیں جو اس نعمت یا رحمت سے مالا مال ہیں۔
اب ہر لفظ کا کوئی نہ کوئی متضاد ہوتا ہے جیسا کہ دن کا متضاد رات ، خوشی کا غمی اور اگر رضاکاروں کا متضاد حکمرانوں کو کہہ دیا جائے تو یقینا یہ غلط نہیں ہو گا۔ کیونکہ ایک طرف تو حکمران جن کی ذمہ داری بنتی ہے اور جن کو لانے کا اصل مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ انسانوں کی خدمت کریں اورلوگوں کے حقوق کا خاص خیال رکھیں۔لیکن وہ اتھارٹی رکھنے کے باوجود بھی ایسا نہیں کرتے اور بجائے اس کے کہ انسانو ں کی خدمت کریں بلکہ وہ لوگوں کی حق تلفی کر جاتے ہیں۔اب دوسری طرف رضا کارجو بلامعاوضہ ،بلامفاد اپنی طاقت اور اپنی حیثیت سے بھی ذیادہ بڑھ کر لوگوں کی مدد کر رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ ہی وہ انسان ہیں جو حقیقت میں انسان کہنے کے حقدار ہیں۔
رضاکاروں کا کوئی معاوضہ نہیں ہوتا وہ اس لئے نہیں کہ ان کا کام بڑا معمولی سا ہوتا ہے بلکہ ان کا عمل اس قدر بڑا ہوتا ہے کہ اس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ۔اور رضاکاروں کے دل میں معاشرے کے تمام افراد کے لئے یکساں محبت اور ہمدردی ہوتی ہے ۔نہ کہ وہ معتصبی کا شکار ہوتے ہیں بلکہ انسانوں میں تفریق کرنے والا شخص رضا کار ہو ہی نہیں سکتا اور ذندگی اس چیز کا نام نہیں کہ انسان مشکل وقت کے گزرنے کا اور اچھے وقت کے آنے کا انتظار کرے بلکہ ہر حال میں خود خوش رہنے اور دوسروں کو خوش رکھنے کا فن سیکھے اور بے شک رضا کار اس فن کے ماہر ہوتے ہیں۔دنیا میں بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب ان کے پاس خوب پیسہ آئے گا تو وہ ضرور دوسروں کی مدد کریں گے لیکن لازمی بھی نہیں کہ مد د صرف مالی ہی ہو انسان اخلاقی طور پر بھی دوسروں کی مدد کر سکتا ہے۔ہر انسان اپنے طور پر کسی نہ کسی طرح دوسرے کی مدد کر سکتا ہے۔
ہر سال ہزاروں رضا کاروں کو متحرک کرنے کے علاوہ دنیا میں رضاکاریت کو برقرار رکھنے کے لئے اقوام متحدہ کا رضا کارانہ پروگرام حکومت کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔کسی انسان کی رضا کارانہ مصروفیت ہو سکتا ہے کہ بے حس لوگوں کے لئے ذیادہ توجہ یا اہمیت کا باعث نہ بنے لیکن ان کا عمل اچھے کاموں میں ہی شمار ہو رہا ہوتا ہے اور بے شک ان کا ہر عمل دوسروں کو ایک مثبت پیغام ہی دے رہا ہوتا ہے۔ہر انسان کو اپنے طور پر رضا کار ہونا چاہیے اسے اپنی ذات کے علاوہ جہاں تک ممکن ہوسکے دوسرے انسانوں کی فلاح کے لئے بھی سوچے۔مدر آف ٹیریسا کہتی ہیں کہ ”انسان کو ہاتھ دوسروں کی مدد کے لئے اور دل دوسروں سے محبت کے لئے دیئے گئے ہیں۔”آج دنیا میں بہت سی رضا کارانہ تنظیمیں ہیں جو واقعی انسانوں کی خدمت و مدد کر رہی ہیں۔اور یہ دن ان کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا دن ہے۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانیت کی خدمت کرنے والا شخص دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں ذندہ رہتا ہے۔
تحریر: ماجد امجد ثمر