ملک کے سیاسی حالات اور کراچی کی سڑکیں آپس میں بہت مماثلت رکھتے ہیں۔ ذرا گاڑی چلتی ہے اور اچانک سے ایک مختصر مگر پر اثر گڑھا نمودارہوئے بغیر ہی گاڑی کے پہیوں کو پڑ جاتا ہے، جو اکثر کسی نا کسی نوعیت کے حادثے کا باعث بنتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کسی نے بیچ سڑک میں بیٹھ کر باقاعدہ ہتھوڑی چھینی کی مدد سے اسے کھودا ہو۔ بالکل اسی طرح پاکستان کو بھی خارجی اور داخلی مسائل گھیرے ہی رکھتے ہیں۔ ابھی ایک مسلۂ سے نکل نہیں پاتے کہ دوسرا کوئی گھمبیر مسلۂ اچانک سے سامنے آجاتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے ہمارے ملک کی انتظامہ بغیر کسی موثر حکمت عملی کے تحت اپنی سرگرمیاں سرانجام دے رہی ہے ۔
تمام تر ذاتی اور سیاستی رنجشوں کو بالائے طاق رکھ کر اور آنکھوں پر سے لسانیت کی عینک اتار کراگر ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو کہ دور حاضر میں حقیقی قومی تشخص کی جدوجہد کا سہرا کس کے سر باندھا جائے تو کم از کم راقم الحروف بلا خوف خطر یہ کہنے کیلئے تیار ہے کہ عمران خان وہ شخصیت ہے جس نے ملک میں نسلی اور لسانیت کی سیاست کو دفن کرنے کیلئے گڑھا کھودنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ اس تھکا دینے والے بلکہ زچ کردینے والے سفر کو جاری رکھا اور آج اگر دیکھیں تو ملک میں اور دیگر کئی اور جماعتیں پاکستان کو ایک قوم دینے یا بنانے کی جدوجہد کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ افسوس کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ تحریک انصاف کی اس جدوجہد میں سیاسی اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ آج کوئی سیاست دان کسی اخلاقی اقدار کو ملحوظ خاطررکھنے کو تیا ر نہیں ہے۔
سابق آرمی چیف و صدر جنرل پرویز مشرف نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا لیکن اس نعرے میں قومی مفاد سے بڑھ کر ذاتی مفادات زیادہ تھے اور قومیتوں کو ایک جگہ یکجا کرنے کی کوئی خاطر خواہ کوششیں نہیں کی گئیں تھیں۔ پاکستان کی حقیقی میراث اور جس طرز حکومت کا اسلام تکازہ کرتا ہے اسکی وضاحت ڈاکٹر علامہ اقبال نے کچھ ان الفاظ میں کیا ہے کہ جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔ اس شعر کی عکاسی یا اسلامی طرز حکومت (علاوہ خلافت) کی ترجمانی پاکستان کی واحد جماعت، جماعت اسلامی کرتی چلی جا رہی ہے مگر افسوس یہ بھی ملک و قوم میں وہ مقام نہیں بنا سکے جس کے لئے انہیں اقتدار مل سکتا۔ اس جماعت سے وابستہ لوگ ملک کے ہر علاقے سے تعلق رکھتے ہیں مگر پھر کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ اس کی اہمیت ابھی تک ویسی نہیں جیسی کے ہوجانی چاہئے تھی۔ اسکا جواب شائد اس جماعت کے ذمہ داران بھی نہیں دے سکیں گے۔
یوں تو ملک کے ہر شہر میں پاکستان کے ہر شہر کا رنگ یعنی فرد نظر آ ہی جاتا ہے کہیں کچھ زیادہ ہوتے ہیں اور کہیں انہیں گنتی میں شمار کرلیں۔ کراچی متفقہ طور پر پاکستان کا وہ واحد شہر ہے جو نا صرف بین الاقوامی سطح پر شہرت کا حامل ہے بلکہ پاکستان کے بقیہ تمام شہروں سے لوگ خصوصی طور پر روزگار کیلئے اس شہر کا رخ کرتے ہیں۔ کراچی ہی وہ شہر ہے جسے غریب پرور شہر کہا جاتا ہے۔ اسکی اہم ترین وجہ یہاں کا موسم ہے جو کبھی شدید نہیں ہوتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہاں روزگار کے مواقع بھی دیگر شہروں سے زیادہ ہوتے ہیں۔ بندرگاہ اس شہر کا خاصہ ہے۔ معاشی حب ہونے کے ساتھ ساتھ کراچی سیاسی حب کی صورت بھی اختیار کرتا جا رہا ہے۔ جسکی وجہ یہاں ملک کے دوسرے شہروں سے آنے والوں کی مستقل سکونت ہے۔ اگر کراچی کی نواحی آبادیوں کا جائزہ لیں تو آپ کو ایسا قطعی محسوس نہیں ہوگا کہ آپ کراچی شہر میں کھڑے ہیں بلکہ وہاں رہنے والی اکثریت والی آبادی کے علاقے کا گمان ہونے لگے گا۔
پاکستان میں کراچی کی قلیدی حیثیت سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا۔ کراچی کی بندرگاہ قدرتی طور پر شہر کی اہمیت کی بنیادی دلیل ہے۔ اگر اسے ترتیب دے کر بنایا گیا ہوتا تو شائد نا ہی بنایا جاتا۔ بد قسمتی سے کراچی سے کمانے والوں نے خوب کمایا اور اپنی اپنی زندگیاں خوب سے خوب تر کرتے چلے گئے۔ کراچی مختلف سنہری اور روشن ادوار سے ہوتا ہوا تاریکی کے گھور اندھیروں میں دھکیل دیا گیا۔ یہی وہ شہر ہے جسے روشنیوں کے شہر سے جانا جاتا تھا۔ کراچی پاکستان کے ماتھے کا و ہ جھومر تھا جسے ہرکوئی چرانے کی چاہ میں لگا رہتا کیونکہ اسے چرا تو سکتا نہیں تھا مگر برباد کر کے چھوڑ دیا۔ اب اس روشنی سے اندھیرے کے سفر کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک تو دل بھی دکھتا ہے اور ویسے بھی ہر فرد ساری داستان سے بہت اچھی طرح سے واقف ہے۔
کراچی کے مختلف سیاسی ادوار میں جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے علاوہ سب سے مستحکم متحدہ قومی موومنٹ کا دور رہا۔ بد قسمتی سے اس دور میں کراچی اپنی روشنیوں اور رعنائیوں سے محروم ہوتا چلا گیا۔ آج کراچی ایک ایسے مقام پر موجود ہے کہ جہاں کوئی یہ بات نہیں کرسکتا کہ کراچی اسکا سیاسی گڑھ ہے۔ ہاں البتہ قانون نفاذ کرنے والوں کی سال ہا سال کی محنت سے کسی حد تک کراچی کی سانس بحال ہوئی ہے۔
انتخابات کا دور دورہ ہے اور بہت جلد یہ انتخابی عمل( اگر جمہوریت بحال رہی ) دوبارہ ہونے کو ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتیں ان انتخابات کی مہم کیلئے نیٹ پریکٹس کرتی دیکھائی دے رہی ہیں جبکہ ملک کی دو بڑی جماعتیں تو باقاعدہ انتخابات کی بھرپور مہم شروع ہی کر چکی ہیں جن میں اول نمبر پر تو پاکستان تحریک انصاف ہے اور دوسرے نمبر پر پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔ کراچی کی نبض پر ابھی تک کراچی سے ہی پروان چڑھنے والی اور نوزائیدہ سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی سابق مئیر کراچی سید مصطفی کمال کی قیادت میں ملکی سطح پر کمال کرنے کا عزم رکھتی ہے تو دوسری طرف کراچی کا مشہور زمانہ علاقہ لیاقت آباد (لالو کھیت) کے فلائی اوور پر آل پاکستان مسلم لیگ کے جلسے کو لے لیجئے جسکے روح رواں سابق صدر اور جنرل پرویز مشرف ہیں، آپ نے دبئی سے وڈیو لنک کے ذریعے کراچی والوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ آپ کے ساتھ چلیں تو سیدھے راستے پر چل پڑینگے۔ پہلے تو آپ یہ بتائیں کے کیا پاکستان پر ملک سے باہر بیٹھ کر ہی حکومت کی جاسکتی ہے؟ کوئی کراچی کا شہری اس کام کو سرانجام کیوں نہیں دے سکتا؟
ایسا محسوس کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کی بدلتی ہوئی صورتحال ہم پاکستانیوں کو ہوش میں لانے کی کوشش کررہی ہے جس میں کسی حد تک سوشل میڈیا بھی اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ پرانی طرز پر کئے جانے والے جلسے جلوس اور روائتی انداز سے چلائی جانے والی انتخابات کی مہم ہم پاکستانیوں پر کس حد تک اثر انداز ہوتے ہیں۔ کراچی میں کئے جانے والے جلسے جلوسوں سے یقیناً سیاسی افق پر فرق پڑتا ہوگا اور ابھی تقریباً پاکستان کی ساری ہی سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنے اپنے موقف کی وضاحت کرنے کراچی کا رخ کرینگی۔ لیکن اب یہ بات یقین سے کی جاسکتی ہے کہ کراچی والوں کی کیفیت اس وقت دودھ جلے جیسی ہے جو چھاچھ بھی پھوک پھوک کر پیتا ہے اور ایسی صورتحال میں جو بھی فیصلہ کیا جائے گا وہ بہت یقین اور اعتماد کیساتھ کیا جائے گا کیونکہ اب کراچی والوں میں اور دکھ اور صدمات سہنے کی ہمت نہیں ہے۔