تحریر : ایم سرور صدیقی
میدان جنگ لہو سے اٹا ہوا تھا اس کے باوجود مسلمان ٹولیوں میں آتے شہداء کو تدفین اور زخمیوں کو علاج کیلئے لے جارہے تھے ان میں قریبی عزیزو اقارب اور دوستوں کو لہو لہو دیکھ کر بھی ان کے چہرے پر طمانیت تھی سینے فخر سے چوڑے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں غزوہ بدر میں فتح عظیم سے سرفراز فرمایا تھا۔۔ اسی روز جنگی قیدیوں کو نبی ٔ اکرم کی بارگاہ میں پیش کیا گیا آ پ نے فرمایا جو رہائی کے بدلے جزیہ دے سکتے ہیں جزیہ دیدیں جو پڑھے لکھے ہیں ہمارے لوگوں کو علم سے بہرہ ور کردیں ہم انہیں رہا کردیں گے اس سے علم کی فضیلت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اللہ کے آخری نبی پر جو پہلی وحی نازل ہوئی اس میں اقراء کا ذکر کیا گیا جس کے لفظی معانی ”پڑھ ” ہے جس سے تعلیم کی اہمیت کا احساس کیا جا سکتاہے۔
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے ایک سوال کیا ہے ۔۔کیا تعلیم یافتہ اور ان پڑھ ایک ہو سکتے ہیں ؟ اللہ نے اسے بینا اور نابینا سے تشبیہ دی ہے دنیا کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی حکومت کوسب کام چھوڑ کر ایجوکیشن کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے اس وقت پاکستان کو شدید عالمی دبائو اور حالات کا سامنا ہے اس قسم کی صورت حال سے نکلنے اور حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے لئے اعلیٰ تعلیم کا حصول انتہائی ضروری ہے۔ جب تک مسلمانوں نے تعلیم اور ریسرچ کی طرف توجہ دی پوری دنیا میں اس کا بول بالا تھا ماضی کے بیشتر سائنسدان، محقق،فلاسفر مسلمان ہی تھے۔
آج بھی متعدد یورپی یونیورسٹیوںمیں ان کی کتابیں نصاب میں شامل ہیں اور ہم ہیں کہ گھر کی مرغی دال برابر کے مصداق ہم نے کتاب سے دوستی ختم کردی ہے ہماری حکومتوں نے اس جانب کوئی توجہ کی زحمت ہی نہیں کی حالانکہ سب کاموںکو چھوڑکرتعلیم کے فروغ کیلئے کچھ انقلابی اقدامات کرنے کی اشد ضرورتہے ۔ بوٹی مافیا،گھوسٹ سکول،مہنگی تعلیم،سرکاری سکولوںکی ناگفتہ بہ حالت،بیشتر تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولتوںکا فقدان اور دولت کی بڑھتی ہوس کے باعث پاکستان میں دن بہ دن تعلیم کا حصول مشکل ہوتا جارہاہے جس کا بڑا سبب یہ ہے کہ اب ایجوکیشن نے صنعت کی صورت اختیار کرلی ہے جس کے باعث نہ صرف تعلیمی اخراجات میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا ہے عام آدمی اپنے بچوں کو کالجز اور یونیورسٹیوںمیں پڑھانا افورڈ ہی نہیں کرتا حکومت نے بھی ان کو شتر بے مہار آزادی دے رکھی ہے کوئی چیک اینڈ بینلس کا کوئی سسٹم موجودہی نہیں پرائیویٹ کالجز اور یونیورسٹیوںمیں پڑھنا ہرفیملی کے بس کا روگ نہیں۔
تعلیمی انحطاط کی ایک بڑی وجہ سرکاری تعلیمی اداروںکی شدید کمی ہے دیہات اور قصبات میں بیشتر مقامات پر تو سرکاری سکولوں پر بااثر افرادکا قبضہ ہے کہیں جانور باندھے جاتے ہیں تو کئی سکولوںپر ناجائز تجاوزات کردی گئی ہیں ایک مربوط حکمت ِ عملی کے تحت انہیں واہگذار کرایا جائے دوسرا سرکاری کالجز اور یونیورسٹیوںکی کمی کے پیش ِ نظر تمام سرکاری تعلیمی اداروں میں ڈبل شفٹ کو رواج دیا جائے جس سے سستی تعلیم کو فروغ ملے گا اور ایجوکیشن سیکٹر میں اجارہ داری ختم ہونے میں بھی مدد مل سکتی ہے اس کے ساتھ ساتھ اگر ہر شخص یہ تہیہ کر لے کہ ا س نے اپنے اہل خانہ کو تعلیم یافتہ بنانا ہے تو پاکستان اقوام عالم میں سر بلند ہو سکتا ہے۔صرف اس طریقے سے ہم اپنے دشمن کا ،حالات کا،دور حاضر کا ، امریکہ کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
یہی ایک طریقہ ہے پاکستان کو بچانے کا ، اسے دشمن سے محفوظ بنانے کا۔اسے مستحکم کرنے کا ہم اپنے بچوں، بھائیوں، بہنوں اور دیگر فیملی ممبروں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرکے انہیں ڈاکٹر، وکیل، انجینئر، سائنسدان بناکر انہیں معاشرہ میں ایک باوقار مقام دلا سکتے ہیں۔ ہمارے پیارے نبی رحمت ِ عالم نے بھی علم کے حصول پر بڑا زور دیا ہے اس لحاظ سے یہ مذہبی فریضہ بھی ہے۔ اس بات نے آج تک ہمیں خوف میں مبتلا بھی نہیں کیا کہ گذشتہ سات سو سال سے مسلمان تعلیمی میدان میں انحطاط کا شکارہیں یہ کیسی منافقت ہے کہ ہم مغرب کو گالیاں بھی دیتے ہیں ان کی ایجادات و ٹیکنالوجی سے فائدہ بھی اٹھارہے ہیں حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ تعلیم یافتہ لوگوں کے شایان ِ شان ملازمتوںکاانتظام کریں ان کی ایجوکیشن کے مطابق روزگار نہ ملنے کے باعث ہزاروں قابل دماغ بیرون ِ ممالک جانے پر مجبور ہیں۔
اگر آپ آنے والی نسلوںکو جہالت سے بچانا چاہتے ہیں تو پھر ایجوکشن کی طرف خصوصی توجہ دیناہوگی بالخصوص لڑکیوںکو زیادہ سے زیادہ تعلیم دلائیں اپک پڑھی لکھی ماں اپنے بچوںکو بہتر طورپر تعلیم یافتہ بنا سکتی ہے اس سے پورے خاندان کی کایہ پلٹ جائے گی۔۔کیا آپ مستقبل کے معماروں کا مستقبل سنوارانا چاہتے ہیں؟ اس کا فیصلہ آپ نے کرناہے۔۔۔ اس کے بارے آپ کا فیصلہ کیا ہے ہر گذرتا لمحہ ہم سے یہ سوال کرتا ۔۔ہمارے احساس کو جھنجھوڑتا گذررہا ہے اورہمیں اس کا احساس تک نہیں۔
تحریر : ایم سرور صدیقی