پرانے زمانے میں توہین اور غداری کے الزامات کی آڑ میں مخالفین یا باغی عناصر کو زیر کرنے کا عمل کارگر اور آزمودہ ہتھیار تھا۔ برصغیر پاک و ہند میں انگریز سامراج نے مقامی آبادی پر تسلط قائم کرنے کی خاطر انہی قوانین کا استعمال کیا۔ انگریز دور میں توہین عدالت اور یونین جیک سے بغاوت کے جرم میں غداری کے الزامات آزادی کا مطالبہ کرنے والوں کو راہ سے ہٹانے یا پابند سلاسل کرنے کیلئے لگائے جاتے تھے۔ ان قوانین کا سہارا لے کر نہ صرف جبراً انگریز سامراج انتظامی احکامات کی تکمیل کروا لیتی تھی بلکہ خوف کی فضا برقرار رکھنے میں بھی یہ قوانین معاون ثابت ہوتے تھے۔
وقت بدلا اور انگریز سامراج کے خاتمے کے بعد پاکستان معرض وجود میں آیا۔ وطن عزیز کے قیام کے بعد بھی انگریز سامراج کے یہ کالے قوانین ایک آزاد و خود مختار ملک کے آئین کا حصہ آج بھی ہیں۔ توہین اور غداری کے قوانین کی آڑ میں چند طاقتور گروہوں، اداروں اور شخصیات نے مقدس گائے کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔ توہین عدالت سے لیکر توہین مذہب کے الزامات کی آڑ میں سیاسی و مسلکی مخالفین کو زیر کیا جاتا رہا جبکہ غداری اور ملک دشمنی کے الزامات کی آڑ میں ان آوازوں کو چپ کروایا گیا جو فکری و نظریاتی اقداروں سے اختلاف رائے کرنے کی جرات کرنے کی جسارت کرتے آئے۔ جسٹس منیر سے لیکر جسٹس حمید ڈوگر تک کے دور کی عدالتی تاریخ ہمارے وطن عزیز کی عدالتی تاریخ کا ایک سیاہ ترین دور ثابت ہوا جس میں عدلیہ نے ہر آمر کے اقتدار کو دوام بخشنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ افتخار چوہدری کے بعد جیوڈیشل ایکٹوزم کا ایک نیا دور شروع ہوا،جو کہ آج تک جاری و ساری ہے۔ حیران کن طور پر جیوڈیشل ایکٹوزم محض منتخب حکومتوں کے دور میں ہی نظر آتا ہے اور اس کا دائرہ کار محض سویلین اداروں کے احتساب تک ہی محدود رہتا ہے۔
حال ہی کی مثال دیکھ لیجئے جب ججوں کو گھروں میں قید کرنے والا آمر مشرف اس ملک کے عدالتی نظام کا مذاق اڑاتےہوئے اطمینان سے بیرون ملک روانہ ہو گیا اور وہاں ایک پرتعیش زندگی گزار رہا ہے۔ دوسری جانب دو منتخب وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو گھر بھیج دیا گیا جبکہ سینیٹ کے ایک رکن نہال ہاشمی کو ایک مہینے کیلئے جیل بھیج دیا گیا ۔ پانامہ کا مقدمہ ایک سیاسی نوعیت کا کیس تھا اور ہر ذی شعور شخص اس نکتے سے واقف تھا کہ فیصلہ جس مرضی فریق کے حق آئے یا خلاف آئے ،دونوں ہی صورتوں میں اعلیٰ عدلیہ کے جج حضرات کو سیاسی اور عوامی حلقوں کی جانب سے تنقید کو برداشت کرنا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں اول تو اعلیٰ عدالتیں سیاسی نوعیت کے کیسز کی سماعت کرنے سے ہر ممکن گریز کرتی ہیں اور بالفرض بہ امر مجبوری اگر اس نوعیت کا کوئی کیس سماعت کیلئے منظور کریں تو بار ثبوت الزامات لگانے والوں پر ڈالتے ہوئے ہر ممکن طریقے سے متنازعہ ریمارکس پاس کرنے سے گریز کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے نہ تو پانامہ کے مقدمے کے دوران ریمارکس پاس کرنے میں احتیاط برتی گئی اور نہ ہی بار ثبوت الزام لگانے والوں پر ڈالا گیا۔ جب عدلیہ کے معزز جج حضرات ایک منتخب وزیراعظم کو الزامات ثابت نہ ہونے کے باوجود سسلین مافیا اور گاڈ فادر قرار دے ڈالیں اور اسے گھر بھیج دیں تو پھر معزز عدلیہ کے ججز کو تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ بھی رکھنا چاہئیے۔
نہال ہاشمی نے معزز عدلیہ کے بارے میں جو کچھ کہا اسے ہرگز بھی سراہا نہیں جا سکتا لیکن کیا سابقہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بالوں سے گھسیٹنا اور اعلی عدلیہ کے معزز جج حضرات کو بچوں سمیت گھروں میں قید کرنا اس سے کئی گنا زیادہ سنگین جرم نہیں تھا؟ کیا عدلیہ پر 2013 کے انتخابات میں اثرانداز ہونے کے الزامات لگانے والا توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتا تھا؟ کیا سپریم کورٹ کے احاطے پر شلواریں لٹکانا توہین کے زمرے میں نہیں آتا؟ کیا مولوی خادم حسین کی اعلیٰ عدلیہ اور معزز جج حضرات کے خلاف نازیبا اور ناشائستہ تقریریں توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتی تھیں؟ اگر توہین عدالت کے جرم میں نہال ہاشمی کو جیل بھجوایا جا سکتا ہے تو باقی حضرات کو بھی اسی قانون کے تحت پابند سلاسل کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ اب یہ فطری سوالات ہیں جو ہر حالات حاضرہ کو جاننے والے کے ذہن میں اٹھتے ہیں۔
اگر معزز عدلیہ دانیال عزیز، طلال چوہدری اور خواجہ سعد رفیق کے ساتھ ساتھ پرویز مشرف،عمران خان، طاہر القادری اور مولوی خادم حسین کو بھی توہین عدالت کے نوٹس بھجوا دے تو یقیناً کم سے کم ان سوالات کا جواب عام آدمی کو مل جائے گا اور چند شخصیات کے قانون سے بالاتر ہونے کے مفروضے اور کسی کے لاڈلا ہونے کی تھیوری بھی خود اپنی موت آپ مرجائیں گے۔ البتہ پانامہ کیس کے فیصلے پر تنقید تو کم سے کم اگلے عام انتخابات کے منعقد ہونے تک معزز عدلیہ کو چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی برداشت کرنا پڑے گی۔ صورتحال کچھ یوں ہے کہ اگر نواز شریف مریم نواز اور ان کے ساتھیوں کو بالفرض توہین عدالت کے جرم میں پابند سلاسل کیا جائے یا قومی اسمبلی کی نشستوں سے نااہل کیا گیا تو سیاسی فائدہ مسلم لیگ نواز کو ملے گا اور پھر مسلم لیگ نواز کے کارکن بھی مشتعل ہوتے ہوئے کسی بڑی تحریک کا آغاز کر سکتے ہیں جو یقیناً اداروں کے ٹکرائو کا سبب بن سکتا ہے۔ دوسری جانب اگر نواز شریف ،مریم نواز اور ان کے ساتھیوں کو کھلی چھوٹ دی جائے تو یقیناً وہ عدالتی فیصلوں پرتنقید کے نشتر برساتے چلے جائیں گے اور اپنے ووٹ بنک سے ہمدردی کی لہر حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یعنی دونوں ہی صورتوں میں سیاسی فائدہ نواز شریف اور ان کی جماعت کو حاصل ہو گا۔
سیاستدانوں کے انجام کا فیصلہ عدالتوں میں نہیں ہوا کرتا، اس حقیقت کو معزز عدلیہ ،اگرتلہ ساش کیس اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلوں سے باآسانی سمجھ سکتی تھی۔ اسی نواز شریف کو پرویز مشرف دور میں پی سی او ججز نے عمر قید کی سزا دیتے ہوئے تاعمر نااہل قرار دیا تھا لیکن نہ تو شیخ مجیب نے اگرتلہ سازش کیس کے بعد عوامی مقبولیت کھوئی اور نہ ہی ذوالفقار بھٹو یا نواز شریف کی عوامی مقبولیت کو کوئی ٹھیس پہنچی۔ جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سیاستدانوں کے اہل یا نااہل ہونے کا فیصلہ صرف اور صرف عوام کرتے ہیں اور ووٹ کی طاقت سے انہیں تخت پر بٹھاتے ہیں یا مسترد کردیتے ہیں۔ امید غالب ہے کہ معزز عدلیہ تاریخ پر نگاہ دوڑاتے ہوئے آئندہ آنے والے دنوں میں بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اب عدالتوں میں سماعت کے منتظر دیگر کیسز پر توجہ دے گی اور سیاستدانوں کی تقدیر کا فیصلہ عوام کے اجتماعی شعور پر چھوڑے گی۔
دوسری جانب منتخب نمائندوں اور پارلیمان کو اب توہین، غداری اور صادق و امین کے قوانین کو ختم کرنے کی جانب عملی اقدام اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔ صادق و امین کی شرط پر پورا اترنے کی شرط والے ضیاالحق کے متعارف کروائے گئے قانون کا مقصد صرف اور صرف سیاسی مخالفین کوزیر کرنا تھا۔ وگرنہ اس قانون کی رو سے تو وطن عزیز میں ایک بھی ایسا آدمی ڈھونڈنا مشکل ہے جو اس قانون کی تعریف پر پورا اترتا ہو۔ اسی طرح اب پارلیمان کو اب ایسے قوانین ختم کرنے کی ضرورت ہے جو کسی کو بھی مقدس گائے کے منصب پر بٹھا دینے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ آزاد معاشروں میں کسی بھی شخص ،جماعت یا ادارے کو مقدس گائے کا درجہ حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی کو مذہب آئین یا حب الوطنی کے نام پر اجارہ داری یا تسلط قائم کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ والٹیر نے کہا تھا کہ اگر تم یہ جاننا چاہتے ہو کہ کون تم پر حکومت کرتا ہے تو تنقید کر کے دیکھو جس پر تنقید کرنے کی اجازت نہ ہو تو سمجھ جائو وہی تمہارے اصل حکمران ہیں۔ اس قول کی روشنی میں دیکھا جائے تو وطن عزیز میں صرف سیاستدانوں پر ہی تنقید کرنےکی آزادی ہے اور سزائیں بھی صرف سیاستدانوں کے ہی حصے میں آتی ہیں۔ اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ معاشرے کے کن طبقات گروہوں اور اداروں پر تنقید کرنا کفر، غداری یا توہین کے زمرے میں آتا ہے اور ان قوانین کی ڈھال تلےدراصل وہ قوتیں ہیں جو وطن عزیز کی اصل حکمران ہیں۔
معزز عدلیہ، اداروں اور گروہوں کا تقدس اپنی جگہ لیکن ان پر اصلاح یا بہتری کی خاطر کی گئی تنقید کو جرم قرار دینے سے بذات خود ریاستی اداروں میں عدم توازن پیدا ہو جاتا ہے۔ منتخب پارلیمان اگر واقعی میں سپریم ہے تو پھر ہماری ستر سالہ تاریخ اس کی نفی کیوں کرتی دکھائی دیتی ہے؟ تاریخ کے پنے توہین غداری وکفر کے خود ساختہ نظریات وقوانین سے ہٹ کر فیصلے سنایا کرتے ہیں اور تاریخ کے ان فیصلوں کی نفی ریاستوں کی بنیادیں ہلا دیا کرتی ہے۔ امید ہے کہ طاقت کی بساط کے تمام فریقین وطن عزیز کی سیاسی تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے اپنی اپنی حدود میں رہ کر اور ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو مضبوط کر کے ریاست کی بنیادیں مضبوط کرنے میں اپنا کردار ضرور ادا کریں گے۔ فیصلے عدالتی ہوں یا سیاسی کبھی بھی وضاحتوں کے محتاج نہیں ہوا کرتے اور اگر ان کو سچا ثابت کرنے کییلئے وضاحتوں کا اور توہین عدالت کے قانون کا سہارا لینا پڑے تو پھر ان فیصلوں پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔