ہارون الرشید کے دور میں بغداد میں ایک درویش رہتا تھا۔ اس درویش کا نام بہلول دانا تھا۔ بہلول دانا بیک وقت ایک فلاسفر اور ایک تارک الدنیا درویش تھا۔ اس کا کوئی گھر، کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ وہ عموما شہر میں ننگے پاؤں پھرتا رہتا تھا اور جس جگہ تھک جاتا تھا وہیں ڈیرہ ڈال لیتا تھا۔ لوگ اس کے پیچھے پیچھے پھرتے رہتے تھے۔ وہ جب کسی جگہ بیٹھ جاتا تھا تو لوگ اس کے گرد گھیرا ڈال لیتے تھے جس کے بعد بہلول دانا بولتا رہتا تھا اور لوگ اس کے اقوال لکھتے رہتے تھے۔ اگر کسی دن اس کا موڈ ذرا سا خوشگوار ہوتا تو وہ لوگوں کو سوال کرنے کی اجازت بھی دے دیتا تھا اور اس کے بعد لوگ اس سے مختلف قسم کے سوال پوچھتے رہتے تھے۔ ہارون الرشید بھی اس کا بہت بڑا فین تھا۔ جب کبھی بہلول دانا کا موڈ ذرا سا بہتر ہوتا تھا تو وہ بھی اس کی محفل میں شریک ہو جاتا تھا۔ ایک دن بہلول دانا محل کے پاس آگیا۔ ہارون الرشید کو اطلاع ملی تو وہ اس کے پاس حاضر ہوگیا۔ بہول نے بادشاہ کی طرف دیکھا اور غصے سے پوچھا: ہاں! بتاؤ کیامسئلہ ہے؟ ہارون الرشید نے عرض کیا: حضور !جب اﷲتعالی کسی حکمران سے خوش ہوتا ہے تو وہ اس کو کیا تحفہ دیتا ہے؟ بہلول دانا نے غور سے اس کی طرف دیکھا اور بولا: اﷲ اسے درست اور بروقت فیصلے کی قوت دیتا ہے۔ ہارون الرشید نے پوچھا: حضور! اگر اﷲ کسی حکمران سے ناراض ہوجائے تو وہ اس سے کون سی چیز چھین لیتا ہے؟ بہلول دانا نے چند لمحے سوچا اور ہنس کر بولا: فیصلہ کرنے کی قوت۔ ہارون الرشید نے پھر پوچھا: حضور! بادشاہ کو کیسے پتہ چلے گا کہ اﷲ اس سے خوش ہے یا ناراض؟
اس سوال پر بہلول دانا چند لمحے خاموش رہا۔ اس نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں اور ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا: ہارون الرشید! جب اﷲ تعالی کسی شخص سے خوش ہوتا ہے تو وہ اس کو عزت اور متبے سے نوازتا ہے لیکن جب اﷲ کسی سے ناراض ہوتا ہے تو وہ اس شخص کو نفرت کی علامت بنا دیتا ہے۔ خلق خدا اس سے پناہ مانگنے لگتی ہے اور اس کی زندگی عبرت کا نشان بن جاتی ہے۔ ہارون الرشید کے ماتھے کے شکنین گہری ہوگئیں۔ اس نے ایک لمبی آہ بھری۔ اس کے بعد بہلول سے عرض کیا: اور حضور! جب اﷲ کسی بادشاہ سے ناراض ہوجائے تو اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ بہلول دانا نے غور سے بادشاہ کی طرف دیکھا، پھر مسکرایا اور بولا: ہارون! جب کوئی شخص قدرت کے انجام کا شکار ہوتا ہے تو درد رکی ٹھوکریں اس کا مقدر بن جاتی ہیں۔ وہ سونے میں ہاتھ ڈالتا ہے تو ریت اس کی مٹھی میں آتی ہے۔ وہ اپنے تئیں اچھا فیصلہ کرنا چاہتا ہے لیکن قدرت اسے بے عزت کردیتی ہے۔ اس کے اپنے بھی پرائے ہو جاتے ہیں اور وہ اپنی زندگی سے تنگ آکر اپنا گلہ خود ہی گھونٹ دیتا ہے۔