تحریر: عقیل خان
چند دوستوں کے ہمراہ ایک ہوٹل میں بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے۔ہوٹل میں بڑی رونقیں تھیں۔ ہر کوئی باتوں میں مصروف تھا۔ زیادہ تر لوگ ورلڈکپ پر محو گفتگو تھے۔ ویسے بھی آج کل پوری دنیا میں کرکٹ ورلڈکپ کا چرچا ہے۔ ویسے بھی سب سے زیادہ بزنس ورلڈکپ پر ہورہا ہے کیونکہ ورلڈکپ کے ہر میچ پر کروڑں کاجوا کھیلا جارہا ہے۔ لکھ پی ککھ پتی بن رہے ہیں اور ککھ پتی لکھ پتی بن رہے ہیں۔
ہماری ٹیبل کے قریب ہی بیٹھے ہوئے ایک گروپ میں سے ایک شخص نے مجھے پہچان لیا اور میرے پاس آیا اور سلام دعا کرنے کے بعد مجھے کہنے لگا کہ برادر کچھ دیر ہماری ٹیبل پر تشریف لاسکتے ہیں ؟ میں نے وجہ پوچھی تو بولا ہمارے ”بابا جی” آپ سے چند باتیں کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا ابھی تو میں دوستوں کو ہمراہ کھانا کھا نے لگا ہوں اس کے بعد آپ کے ”باباجی” سے ضرور ملاقات کرونگا۔ وہ اپنی ٹیبل پر جا کر بیٹھ گیا اور ہم کھانا کھانے لگے۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد میں ان کی ٹیبل پر گیاتو وہاں چند نوجوانوں کے ساتھ ایک بزرگ بھی تشریف فرما تھے۔ میں نے سلام دعا کی اور پھر ان کے پاس بیٹھ گیا۔ بابا جی نے مجھ سے پنجابی میں سوال جواب شروع کردیے جو اردو میں کچھ یوں تھے۔بیٹا جی آپ اخبار میں لکھتے ہوں ؟ میں نے کہا جی بابا جی۔ بولے ایک پیغام میرا بھی حکومت تک پہنچا دے۔میں بولا جی آپ حکم کرے اور بتائیں آپ کا کیا پیغام ہے؟ اس نے کہا” پاکستان میں پہلے کونسی ایسی خوشحالی ہے جس پر ہم جشن منائیں۔
ہر طرف اپنی اپنی افراتفری پھیلی ہوئی ہے۔ ہر کوئی اپنے مفاد کی جنگ لڑرہا ہے۔ حکمران اپنی کرسی بچانے اور اپوزیشن کرسی اپنی بنانے کے لیے لڑرہے ہیں۔ عوام دو ٹائم کی روٹی کے لیے مررہی ہے۔ مختلف محکموں میں بیٹھے ہوئے لوگ رشوت لینے کے عوام کو مجبور کررہے ہیں اور اب پاکستانی کرکٹ ٹیم ہمارے دلوں کو بغاوت پر مجبورکررہی ہے”۔میں نے کہا باباجی باقی سب باتیں تو چلو ٹھیک ہے مگر یہ پاکستانی ٹیم آپ کو کونسی بغاوت پر مجبور کررہی ہے؟ انہوں نے بڑا اچھا جواب دیا کہ بیٹا کھیل انسان کو دماغی طور پر فریش کرنے کے لیے کھیلا جاتا ہے اور جب پورا پاکستان اس وقت کرکٹ کے بخار میں مبتلا ہے تو ٹیم کی کارکردگی صفر ہوتو دل تو بغاوت کرے گا نا۔ میں نے بزرگوں کرکٹ ایک ہے اور اس میں ہارجیت ہوتی رہتی ہے اگر پاکستان ہار گیا تو کوئی بات نہیں ویسٹ ایڈیز اچھا کھیلی تو اس لیے وہ جیت گئی۔انہوں نے فرمایا کہ ہارجیت کی بات توٹھیک ہے مگر کھیل تو معیار کے مطابق کھیلا جائے ۔ ویسٹ انڈیز کو آئرلینڈ جیسی ٹیم نے شکست دے دی تو کیا پاکستان آئرلینڈ سے بھی بری ٹیم ہے؟ انہوں نے کہا پاکستان کے باؤلر نے باولنگ ایسے کی جیسے وہ گیند کو زمین پر نہیں آسمان پر پہچانا چاہتے ہیں۔ ہما رے کوچ جو خود یارکرڈ کے ماسٹر ہے انہوں نے کیا سہل خان اور وہاب ریاض کو یہ نا بتایا کہ آخری آوور میں ہرگینڈ باؤنسر یا شارٹ پیچ نہیں ہوتی بلکہ یارک کی جاتی ہیں۔ اسکے بعد فیلڈنگ کوچ رکھنے کے باوجود ایسی فیلڈنگ کرنی ہوتو پھر اس کوچ پر اتنا خرچہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ مثال ہے مشہور ہے (Pick the catch and win the match)پھر جو بیٹنگ ہوئی اس نے تو کلب کرکٹ کو بھی پیچھے چھوڑدیا۔ کلب کرکٹ کے بچے بھی کبھی ایک رنز پرچار آؤٹ نہیں ہوئے ہوتے۔ میں نے پوچھا باباجی آپ کو کرکٹ کے بارے میں اتنا کچھ معلوم ہے تو انہوں نے کہا بیٹا میں نے کرکٹ کھیلی نہیں مگر کرکٹ دیکھ دیکھ کر اور تبصرے سن سن کر اتنا کچھ جان چکا ہوں ۔کرکٹ کے تبصرہ نگاروں نے اب ہر پاکستانی کو کرکٹر بنا دیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے میڈیا نے تبصرہ نگاروں کی کوئی حد نہیں رکھی۔ وہ لوگ بھی تبصرہ کرتے نظر آرہے ہیں جو اپنے دور میں ٹیم جگہ بنانے میں ناکام رہتے تھے یا پھر ایک یا دومیچوں تک کھیلنے تک محدود رہتے تھے۔جب ایسے لوگ تبصرہ کرسکتے ہیں توپھر وہ باباجی کیوں نہیں کرسکتے جن کے بقول کہ وہ کرکٹ میچ کسی بھی ملک کا ہووہ بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔لیکن جب پاکستان میچ ہارتاہے تو باباجی کا دل دکھتا ہے۔ باباجی کو میں کیسے بتاتا کہ دل تمھارا ہی نہیں میرا بھی بہت دکھ رہا ہے۔ صبح تین بجے سے یہ میچ دیکھنا شروع کیا ، لوڈشیڈنگ ہونے کی صورت میں نیٹ پر میچ دیکھا اور جب پاکستان کی شکست قریب دیکھی تو پھر وہ مجھے پتا ہے یا پھر میرے رب کو پتاہے کہ میرے دل پر کیا بیت رہی تھی۔ جیسے ساری عوام نے پاکستانی ٹیم کو گالیاں ، ٹیم مینجمنٹ کو برا بھلا اور اپنے ٹی وی توڑ کر دل کی بھڑاس نکالی وہ سب میں نہیں کر سکتا۔ البتہ اپنے قلم کے ذریعے میں ضرور اپنے دل کا غبار نکال سکتا ہوں۔
پاکستانی ٹیم نے اپنے کھیل سے یہ ثابت کر دیا کہ ان میں اختلاف ضرور ہیں۔ خواہ وہ مینجمنٹ اور کھلاڑیوں کے درمیان ہیں یا کپتان اور کھلاڑیوں کے۔ اگر یہ حقیقت ہے تو پھر صدر پاکستان کو فوری طور پر ایکشن لینا چاہیے اور جو کھلاڑی یا مینجمنٹ کا آدمی شامل ہو اس پر فوری طور پر تاحیات پابندی لگائی جائے۔ کرکٹ کی تاریخ میں اس سے بڑا ایونٹ کوئی اور نہیں۔ اگر اس ایونٹ میں آکر انہوں نے یہ کرنا ہے پھر ایسی کرکٹ کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اگر ان میں اختلاف نہیں تو پھر شکست ہمارا مقدر کیوں؟
تحریر: عقیل خان
aqeelkhancolumnist@gmail.com