لاہور: میں نے پہلے بھی کئی بار اپنے کالموں میں ذکر کیا ہے کہ جنگ خدا کی رحمت ہے، زحمت نہیں۔ لیکن یہ رحمت اس وقت جائز ہوتی ہے جب امن کی تمام آپشنز آزما لی جائیں اور وہ بے نتیجہ رہیں۔ ہم اس نبیؐ پاک کی امت ہیں جن کو 40برس کی عمر میں نبوت ملی۔ نامور دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔اس سے پہلے بھی آپؐ اوائل عمری میں صادق اور امین مشہور ہو چکے تھے۔ اور مرتبہ ء نبوت پر سرفراز ہونے کے بعد تو آنحضورؐ نے امن و سلامتی کی تلقین کو آخری حدوں تک پہنچا دیا لیکن 13برس کی اس تبلیغِ امن کا انجام کیا ہوا؟ کفارِ مکہ نے آپ کو قتل کرنے کی ٹھان لی۔ ہجرت کے وقت آپ کی عمر مبارکہ 53برس تھی۔ ان کی محبوب ترین زوجہ ء محترمہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ آپؐ کے چچا جناب ابو طالب بھی خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔ یکے بعد دیگرے یہ صدمات آپؐ پر اتنے گراں گزرے کہ اس سال کو ’’عام الحزن‘‘ یعنی غم اور اداسی کا سال قرار دیا گیا۔ آپؐ اہلِ مکہ کو امن کا درس دیتے دیتے تھک چکے تھے۔ غم و یاس کی افزودگی کا گراف جب حد سے اوپر اٹھ گیا تو خدا تعالیٰ کی طرف سے پیام بلکہ پیار بھری اور مشفقانہ سرزنش آئی کہ اے محمدؐ! کیا آپ ان لوگوں کو سمجھاتے سمجھاتے اپنے آپ کو ہلاک کر لیں گے؟۔۔۔ جو نہیں سمجھتا اس کو چھوڑ دیں اور ہلکان مت ہوں۔ میں خود ان سے نمٹ لوں گا‘‘۔۔۔۔ ذرا اندازہ کیجئے کہ آپ کی ناامیدی کا عالم کیا ہو گا۔ لیکن عام الحزن کے بعد حکم خداوندی آیا کہ یہاں سے کوچ کر جائیں۔ یہ تمام تفاصیل ہر مسلمان کو معلوم ہیں۔ میں صرف قارئین کو یہ یاد دلا رہا ہوں کہ جب امن کا پیغام بے نتیجہ رہے تو جنگ کا حکم نازل ہو جاتا ہے۔ 27فروری کو پاک فضائیہ نے بھارت کے جو دو طیارے مار گرائے وہ دامن کو حریفانہ کھینچنے ہی کی آپشن تھی۔ پاکستان کے کسی بھی حکمران نے (سویلین ہو کہ ملٹری) انڈیا کو امن کی دعوت دینے کا وہ مسلسل انداز نہیں اپنایا جو عمران خان نے اپنایا، کسی وزیراعظم نے مذاکرات کا ڈول ڈالنے کے لئے متواتر وہ لچک نہیں دکھائی جو عمران خان نے دکھائی اور کسی اور حکومتِ پاکستان کے دور میں اس کے وزیر خارجہ نے کبھی اتنے تسلسل سے ڈائیلاگ کا دامن نہیں پھیلایا جتنا شاہ محمود قریشی نے پھیلایا۔۔۔ ہاں 10منٹ کی اس درخواستِ امن میں ایک آدھ منٹ کی وہ للکار بھی تھی جو امن کی گدائی کو جوابی وار کے عزم سے ممتاز کرتی ہے۔مجھے معلوم نہیں کہ ونگ کمانڈر ابھی نندن کی رہائی کے بعد بھارت کا گیم پلان کیا ہو گا۔ لیکن دنیا نے تسلیم کر لیا ہے کہ پاکستان نے جنگ کی راہ نہیں لی۔ اس کے پاس جوہری وارہیڈز کا ذخیرہ بھارتی وارہیڈز سے کچھ زیادہ ہی ہے، لیکن حکومت کے کسی بھی ذمہ دار رکن نے اس طرف خفیف سا اشارہ بھی نہیں کیا۔ صرف اتنا ضرور بتایا ہے کہ ایک بار جنگ شروع ہو جائے تو اس کا خاتمہ خدا کی مرضی سے ہوتا ہے۔عمران خان نے بار بار یاد دلایا ہے کہ جب طبلِ جنگ بجا دیا جائے گا تو اس نقارے کو واپس نقار خانے میں لے جا کر خاموش کر دینا نہ میرے بس میں ہوگا نہ آپ کے۔۔۔ لہٰذا اب بھی موقع ہے کہ باز آجائیں ورنہ ہمارے نبیؐ کی سنت یہی ہے کہ جب مکہ والوں کی طرف سے امن کا پیغام ٹھکرا دیا گیا تو اس کے بعد رسول خداؐ نے اپنی وفات تک شمشیرِ اسلام نیام میں نہ ڈالی اور فتح مکہ کے بعد بھی تبوک میں جا کر آنے والی صدیوں میں امت کو یہی پیام دیا کہ امن کی دعوت دو لیکن اپنے گھوڑوں کو جنگ کے لئے تیار رکھو۔ اس انڈو پاک ملٹری سٹینڈ آف کا نتیجہ آنے والے کل میں کیا نکلے گا اس کے بارے میں کوئی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی لیکن اب تک جو دو جھڑپیں ہوئی ہیں ان میں پاکستان کا پلہ بھاری رہا ہے۔ ان جھڑپوں کا ’’پوسٹ ملٹری فال آؤٹ‘‘ یہ ہو گا کہ انڈیا کو اپنے مگ۔21لڑاکا طیاروں کا وہ فضائی بیڑا جو 200سے زیادہ طیاروں پر مشتمل ہے، تبدیل کرنا پڑے گا۔اس کے لئے امریکہ، برطانیہ، فرانس اور روس منتظر بیٹھے ہیں۔ مگ۔21اگرچہ رشین طیارہ ہے لیکن روس نے تو بی جے پی حکومت کو 1999ء کی کارگل وار ہی میں کہہ دیا تھا کہ یہ ’’اڑتے تابوت‘‘(پرواز کی تابکاری)اب ریٹائر ہونا مانگتے ہیں۔ اب بھی شائد روس یہی کہے کہ ان کو تبدیل کیوں نہیں کرتے؟۔۔۔ اور کتنی بدنامی کروانی ہے ہماری؟۔۔۔ مودی نے تو رافیل کا سودا بھی یاتو منسوخ کر دیا ہے یا شائد تاحال التوا میں رکھا ہوا ہے۔اب فرانسیسی حکومت ’اندر خانے‘ مودی حکومت کو اکسا رہی ہو گی کہ وقت آ گیا ہے، رافیل ڈیل کومنطقی انجام تک پہنچاؤ۔ دوسرا انڈین طیارہ جو گرایا گیا اس کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ مگ۔21تھا یا ایس یو۔30یا میراج 2000۔۔۔ لیکن وہ جس کسی بھی طیارہ ساز کمپنی کا تھا اس کے گرائے جانے کی وجوہات اور تجزیہ بھی ضرور کیا جا رہا ہو گا۔ دوسری طرف پاکستان کے JF-17 کا بول بالا ہو گیا ہے۔ چین نے اس کے بعد بھی کئی ایسے ماڈل تیار کرکے اپنی ائر فورس میں انڈکٹ کئے ہیں جو JF-17سے کہیں بڑھ کر جدید ٹیکنالوجی اور سٹیٹ آف دی آرٹ حصوں پرزوں سے آراستہ پیراستہ ہیں۔ تاہم اب JF-17کی مانگ بڑھ جائے گی۔ اس کی قیمت بھی دوسرے ’’ہم سبق‘‘ ماڈلوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ کئی ترقی پذیر ممالک اس کی کم قیمت اور بہتر آپریشنل کارکردگی کی بناء پر اس کو اپنی فضائی سروس کا حصہ بنانے کا سوچ رہے ہوں گے۔اگرJF-17 کی مانگ بڑھتی ہے تو یہ پاکستان کے لئے ایک بہت اچھا شگون ہو گا۔۔۔ کسی بھی بھاری ہتھیار کا امتحان اصل جنگ کی صورت میں ہوتا ہے۔ پاک فضائیہ کے بھی F-7قسم کے طیارے حادثات کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ لیکن مجبوری یہ ہوتی ہے کہ ان کو ریٹائر کرنا اور کوئی متبادل طیارہ انڈکٹ کرنا بجٹ میں اضافے کا تقاضا کرتا ہے جو فی الحال ہمارے بس میں نہیں۔انڈیا نے جن طیاروں کو بالاکوٹ پر بھیجا تھا ان کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا کہ کس ٹائپ کے تھے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کو ایواکس (Awacs) سے رہنمائی مل رہی تھی۔ یہ ’’ارلی وارننگ اینڈ کنٹرول سسٹم‘‘ کسی ملک کی فضائی سرحدوں کے اندر رہتے ہوئے دشمن ملک کے ٹارگٹ تک اپنے حملہ آور طیاروں کی رہنمائی کرتا ہے۔ انڈیا نے یہ سسٹم (طیارے) اسرائیل سے خریدے ہیں۔