تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا
ہر سال اگست کے ماہ میں اسلامی جموریہ پاکستان کی یوم آزادی کے موقع پر بھارت میں صفِ ماتم بچھ جاتی ہے جس کا اظہار دشمن نے 1947 سے لیکر آج تک کر رہا ہے 6ستمبر1965 اور ستمبر2016 میں جو چیز مشترکہ ہے وہ ہے ہمارا ازلی دشمن ” بھارت” جس نے کبھی بھی کوئی موقع پاکستان کے خلاف ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ آج 2016 میں بھارت ” پاگل ” ہو گیا ہے یہی وجہ ہے اسلامی جموریہ پاکستان کے خلاف کبھی بلوچستان کا پتہ استعمال کرتا ہے تو کبھی سندھ کو ہم سے جدا کرنے کی بھڑکیں مارتا ہے۔ ANP ہو یا MQM درحقیقت ” بھارت” کی بولی ہے۔بھارت نے پہلے دن سے ہی پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کیا ۔ اور مستحکم پاکستان کو دیکھ کر ” بھارت کے پیٹ میں مڑوڑ ”پڑتے ہیں ، اور یہ بھارت کے پیٹ میں مڑوڑ ہی جو بھارت آئے دن پاکستان کے خلاف کوئی نہ کوئی محاز کھولا ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کے” یوم دفاع” کیوں منایا جاتا ہے۔ یا ایسے دن منانے کا کیا فائدہ ہے؟ایسے دن منانے کیوں ضروری ہے یہ جاننے سے پہلے تھوڑا سا تاریخ کو چھوتے ہیں کہ 6 ستمبر کی حقیقت کیا ہے۔
ستمبر 6 ہمیں یاد دلاتا ہے جب پاکستان کے شہیدجوانوں نے اپنی سرحدوں کے بہادر اور غیّور پاسبانوں کی فہرست میں اپنا نام رقم کیا۔ پاکستان کے غازی اور شہیدوں نے شجاعت کے ناقابل یقین کارناموں میں اپنی کامیابی کا لوہا گاڑھا ان کی فرض شناسی اور حب الوطنی جدید جنگوں کی تاریخ میں درخشندہ مقام پر فائر کی جا سکتی ہے۔ بھارت نے چھ ستمبر 1965ء کو اچانک لاہور کے تین اطراف سے حملہ کر دیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ وسط میں لاہور پر حملہ کے ساتھ شمال میں جسٹر کے مقام پر اور جنوب میں قصور کے مقام پر محاذ کھول دئیے جائیں۔ میجر جنرل نرنجن پرشاد کی قیادت میں پچیسواں ڈویڑن ٹینکوں اور توپ خانے کی مدد سے آگے بڑھ رہا تھا۔ ستلج رینجرز کے مٹھی بھر جوانوں نے ان کا راستہ روک لیا۔ ان کی پلٹنوں کے تمام جوان آخری گولی اور آخری سانس تک لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔ نہ کوئی پیچھے ہٹا’ نہ کسی نے ہتھیار ڈالے بھارتی فوج جسے لاہور کے مضافات میں ناشتہ کرنا تھا۔
اس جنگ کا پس منظر یہ تھا کہ 1962ء میں بھارت نے چین کو دعوت مبارزت دی مگر منہ کی کھائی چین از خود جنگ بند نہ کردیتا تو بھارت صدیوں تک ذلت کے داغ دھو نہ سکتا۔ 1965ء میں بھارت نے رن کچھ کے محاذ پر پاکستان سے پنجہ آزمائی کی مگر ذلت اٹھانا پڑی۔ جس پر بھارتی وزیراعظم نے اعلان کیا کہ اب ہم مرضی کا محاذ منتخب کر کے پاکستان کو مزا چکھائیں گے پاکستان کے غازی اور شہیدوںکا یہی جذبہ شجاعت تھا جس نے پاکستانی عوام کے ساتھ مل کر اپنے سے پانچ گنا بڑے اور جدید اسلحہ سے لیس دشمن کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔یہ ایک تاریخی معرکہ تھا جس میں ہمت اور حوصلوں کی بے مثال کہانیوں نے جنم لیا۔ پوری دنیا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ پاکستان کے عوام اور افواج دشمن کے عزائم کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن گئے اور اس کے منصوبے خاک میں ملا دیئے۔
اس محاذ پر پاک فوج کے زیر کمان قوت صرف سات بٹالینوں پر مشتمل تھی اور محاذ 50 میل لمبا تھا۔ لاہور میں داخل ہونے کے لئے باٹا پورکے پل پر قبضہ ضروری تھا’ چنانچہ ایک پورے بھارتی بریگیڈ اور ایک ٹینک رجمنٹ نے دوسرا حملہ کیا۔ لاہور کو بھارتی یلغار سے بچانے کے لئے نہر بی آر بی کا پل تباہ کرنا بہت ضروری تھا۔ دن کو یہ کام نا ممکن تھا۔ دشمن نے پل کے دائیں بائیں گولوں کی بوچھاڑ کر رکھی تھی۔ پل تک دھماکہ خیز بارود لے جانے کی کوشش میں ایک جوان شہید ہو گیا۔ اس کے بعد چند رضاکاروں نے ہزاروں پونڈ وزنی بارود ایک گڑھے میں اتارا۔ اس پر ریت رکھ کر آگ لگانے والی تاروں کو جوڑا اور گولیوں کی بوچھاڑ کو چیرتے ہوئے واپس آگئے۔ ان کا واپس آنا ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ یوں لاہور میں داخل ہونے کی بھارتی امیدیں منقطع ہو گئیں۔ اس کے بعد سترہ دنوں کے دوران بھارتی فوج نے تیرہ بڑے حملے کیے مگر ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ سکی۔
باٹا پور سے شکست کھانے کے بعد بھارت نے بھینی کے محاذ پر دباؤ سخت کر دیا۔یہ مقام باٹا پور سے سات میل شمال کی طرف واقع ہے۔ دشمن کا ارادہ تھا کہ وہ لاہور شہر کو ایک طرف چھوڑ کر بھینی کے راستے محمود بوٹی پر بند پر پہنچے اور وہاں سے راوی کے پل پر قبضہ کر کے لاہور کو راولپنڈی سے کاٹ دے۔ چنانچہ یہاں دشمن نے انیس حملے کیے اور تقریباً ڈیرھ ہزار گولے برسائے مگر ہر حملے میں منہ کی کھا کر پسپا ہو گیا۔ برکی سیکٹر پر دشمن نے ایک ڈویژن اور دو بریگیڈوں کی مدد سے حملہ کیا۔ پنجاب رجمنٹ کی ایک کمپنی اس پر ٹوٹ پڑی اور پورے نو گھنٹے تک دشمن کی یلغار روکے رکھی۔ دشمن نے دوبارہ صف بندی کرنے کے بعد حملہ کیا تو پاکستان کی ٹینک شکن رائفلوں اور توپخانوں کے گولوں نے دشمن کو آڑے ہاتھوں لیا۔10 ستمبر تک دشمن نے چھ حملے کیے جنہیں پسپا کر دیا گیا۔ 10 اور11 ستمبر کی درمیانی شب دشمن نے پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ حملہ کیا۔
میجر عزیز بھٹی رات بھر دشمن کو روکے رہے۔ صبح کے قریب دشمن نے نہر کی طرف سے بھی گاؤں کو محاصرے میں لے لیا تو میجر عزیز بھٹی نے نہر کے مغربی کنارے پر چلے جانے کا فیصلہ کیا۔صبح نہر کے کنارے ایک اونچی اور کھلی جگہ پر کھڑے اپنے جوانوں کی قیادت کر رہے تھے اور اسی مقام پر انہوں نے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ بہادری کی بے مثال روایت قائم کرنے پر انہیں سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر دیا گیا۔
بھارتی ہائی کمانڈ نے قصور کی طرف پیش قدمی کامیاب بنانے کے لئے بھیکی ونڈ اور کھیم کرن کے نواح میں تقریباً دو ڈویڑن فوج صف آراء کی۔ اس محاذ پر ضلع لاہور کے سرحدی گاؤں بیدیاں کو پیش قدمی کے آغاز کے لئے منتخب کیا گیا تھا۔ اس رات یہاں پاکستانی فوج کی صرف ایک بٹالین موجود تھی۔ اگلے دفاعی مورچوں میں فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ کی صرف ایک کمپنی صف آراء تھی۔یہاں دشمن نے چودہ بڑے حملے کیے ‘ مگر پاکستانی جوانوں نے انہیں ایک انچ آگے بڑھنے نہ دیا۔ قصورکے بعد دشمن نے کھیم کرن کے محاذ پر اپنی عسکری قوت کا مظاہرہ کیا۔ بھارتی فضائیہ بھی محاذ پر آ گئی مگر پاکستانی طیارہ شکن توپوں سے وہ جلد ہی پسپا ہو گئی۔ دشمن کے سات ٹینک تباہ ہوئے تو اس کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی8 ستمبر کو کھیم کرن پر پاکستان کا قبضہ ہو گیا۔ 6 ستمبر منانے کا یہ عہد اور مقصد ہے کہ اسلامی جموریہ پاکستان کی طرف اگر کسی نے میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرت کی تو اس کی آنکھ پھوڑ دی جائے گئی۔ اسی طرح یوم دفاع کو ہم رسماً نہیں مناتے بلکہ اللہ پاک اور رسالت مآب ۖ کے حکمات کی روشنی میں یہ عہد کرتے ہیں کہ ملک دفاع کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریخ نہیں کیا جائے گا۔
جیسا کہ6 ستمبر 1965 کو دنیا نے دیکھا ۔ ستمبر6 منانے کا یہ بھی مقصد ہے دنیا پر عملی شکل میں یہ باور ہو جائے کہ دو قومی نظریہ قائد اعظم محمد علی جناح نے جو پیش کیا تھا ۔ہم آج بھی اس پر قائم ہیں اور قیامت تک انشااللہ دو قومی نظریہ پر کاربند رہیں گئے۔ ایک بات دو قومی نظریہ کی بنیاد قائد اعظم محمد علی جناح نے نہیں رکھی تھی بلکہ دنیا میں پہلی بار دو قومی نظریہ اس وقت ہی پیش ہو گیا تھا جب اللہ تعالیٰ کے پیارے حبیب نبی غفور رحیم محسن ِ انسانیت جناب رسول خدا ۖ نے دنیا کو سبق توحید پڑھایا تھا، یہی وجہ ہے پاک بھارت جنگ میں پاکستانی افواج اور قوم کے ساتھ ساتھ روحانی قوتیں بھی جنگ کے محاز پر موجود تھی، جن کا ثبوت صرف پاکستانی افواج کے غازی جوان ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے انڈین سورمے بھی تھے اور انڈیا کا الیکٹرانک و پرنٹ میڈیااس بات کی گوائی چیخ چیخ کر دے رہا ہے۔
ستمبر 6 کی یاد ہم اس لئے بھی مناتے ہیں جیسا کہ اسلام نے حکم بھی دیا ہے کہ۔ اپنے جنگی سازو سامان کو ہر وقت تیار رکھو تا کہ دشمن پر تمھارا ” رُعب و دبدبہ” قائم رہے ، اور یہ سچ ہے جب تک مسلمانوں کا غیر مسلمانوں پر ” رعب و دبدبہ ” رہا دنیا میں سکون و امن رہا اور جیسے جیسے مسلمانوں نے ‘] اپنے جنگی سازو سامان ” سے توجہ ہٹائی دشمن نے نہ صرف امن و امان تباہ و برباد کر دیا بلکہ مسلمانوں پر یلغار کر دی۔ اسلامی جموریہ پاکستان میں ” 6 ستمبر ” پوری شان و شوکت سے قیامت تک منایا جائے گاتاکہ آئندہ اسلامی جموریہ پاکستان کی طرف کوئی ہاتھ نہ بڑھنے پائے۔
تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا