انسان کی جنسی طلب کے بارے میں معلومات کم دستیاب ہیں خصوصا اس وجہ سے کہ یہ اتنا پیچیدہ مسئلہ ہے جو ہارمونز، احساسات اور صحت کے گرد گھومتا ہے۔ عمومی طور پر عمر کے ساتھ یہ طلب کم ہوتی جاتی ہے۔ انسان کا جنسی ردعمل، سماجی، ہارمونل، جسمانی اور نفسیاتی عناصر کا پیچیدہ مجموعہ ہے۔ ان میں اکثر کے بارے میں مغالطے پائے جاتے ہیں۔ معاشرہ جس عمل کو جنسی خواہش کے طور پر قابل قبول سمجھتا ہے اس میں ایک کردار ادا کرتا ہے: مذہبی عقائد، خاندانی اقدار اور پرورش سب انسان کے رویے اور جنسی خواہشات کے بارے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بالغوں میں ٹیسٹرون اور آسٹروجن کے ہارمونز کا اتار چڑھاو قبل از جنسی سرگرمی نوجوانی سے بلوغت کی تبدیلی میں بہت اہم ہوتا ہے۔ جنسی خواہش تولیدی عمل سے جڑے تین رویوں میں سے پہلا ہے: سیکس کی خواہش (ساتھی تلاش کرنے کے لیے)، بہترین ساتھی پانے کی کشش اور محبت یا لگاؤ۔
جنسی خواہش مردوں (اور جانوروں) میں غالبا مضبوط ترین خواہشات میں سے ایک ہے اور یہ لوگوں میں ان کا بہترین اور بدترین پہلو سامنے لاسکتی ہیں۔ اس کی زیادتی ہائپر جنسیت اور جنسی اعضا کے ضرورت سے زیادہ متحرک ہونے سے، جنسی جرائم، جنسی عمل کے نشے اور فحش مواد کے مسلسل استعمال جیسے مسائل سامنے آسکتے ہیں۔ اگر اسے دبایا جائے تو یہ ذہنی دباو اور خبط یا یہ کسی تخلیقی صلاحیت میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ جب اسے مستحکم تعلقات میں نظر انداز کیا جائے تو یہ مردوں اور عورتوں کو ان تعلقات سے باہر نکلنے پر مجبور کرسکتا ہے جو خاندانوں کی استحکام اور خوشی کو متاثر کرسکتا ہے۔
اگر اسے مکمل طور پر دبا دیا جائے تو یہ شادی شدہ زندگی یا جنسی تعلق سے دور رہنا ہوگا اور اس کے بدلے اپنی توانائیاں اپنے اور گرد موجود لوگوں کی روحانی بہتری پر صرف کی جاتی ہیں۔ اس سے انکار کرکے زندگی بھر کی جذبات پر مبنی دوستی کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے جو محض کشش سے زیادہ مضبوط ہوسکتی ہے۔ اسے پورا نہ کرکے دلکش تصنیف، شاعری، موسیقی اور فن تخلیق کیا جاسکتا ہے۔ یہ اچانک ملاقات سے زندگیاں تبدیل کرسکتی ہے۔ یہ چٹ منگنی اور پٹ بیاہ میں منتج ہوسکتا ہے۔۔۔یا پھر شراب میں ڈوبی شام کے بعد مکمل مایوسی کی صورت میں سامنے آسکتا ہے اور ’آل ریوڈ اپ اور نو وئیر ٹو گو‘ جیسے گیتوں پر ختم ہوسکتا ہے۔
’جنسی خواہش‘ کی اصطلاح ان دو چیزوں میں سے ایک ہوسکتی ہے: یہ جنسی عمل کی ضرورت کا حوالہ دے سکتی ہے، یا یہ کسی مخصوص شخص کے لیے جنسی کشش کے قریب ترکی کوئی چیز ہو سکتی ہے۔ جنسی خرابی کی تشریح کیا کی جاتی اس سے بھی ابہام پیدا ہوسکتا ہے۔ جنسی خواہش/خرابی کے اس پہلو کا سائنسی ادب میں احاطہ نہیں کیا گیا ہے۔
جنسی ردعمل تین مراحل پر مشتمل ہوتا ہے، خواہش، خواہش میں اضافہ اور خواہش کا پورا ہونا۔ تمنا یا خواہش خیالی عمل کے ذریعے حقیقت میں خوشی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ یہ آغاز ہوتا ہے خواہش میں اضافے کا۔ تاہم ان مراحل ایک دوسرے پر انحصار نہیں ہوتا ہے: مثال کے طور پر خواہش کے پورے ہونے کے مسائل کو جذبات کے ابھارنے سے جوڑا جاسکتا ہے جس کی اصل وجہ خواہش کا نہ ہونا بھی ہوسکتی ہے۔ جنسی اعضا کے مسائل بھی کم جنسی خواہش کی وجہ ہوسکتے ہیں۔ تیس فیصد خواتین جنسی مسائل سے متاثر ہوتی ہیں۔ بڑھتی عمر کے ساتھ جنسی خواہش کم ہوتی ہے، اور سماجی، نفسیاتی یا جسمانی دباؤ دونوں صنفوں میں جنسی خواہش کم کر دیتے ہیں۔ (زیادہ) لوگ سیکس پسند کرتے ہیں
جنسی ملاپ کی انتہا کسی شخص کی صحت کا بھرپور اظہار ہے۔ یہ آپ کے لیے بہت اچھا بھی ہے۔ 45 سے 59 سال کے 918 مردوں پر کی جانے والی ایک ویلش تحقیق کے مطابق جنسی عمل کی انتہا کو زیادہ پہنچنے والے مردوں میں دل کے دورے کا امکان کم ہوتا ہے۔ اکثر مرد اپنے ساتھی کے ساتھ جنسی عمل کا لطف اٹھاتے ہیں: 75 فیصد مرد اپنے ساتھی کے ساتھ ہمیشہ انتہا کو پہنچتے ہیں۔ ایک تہائی عورتیں بھی اپنے ساتھی کے ساتھ کلائمکس کو پہنچتی ہیں۔ لیکن ایک فیمنسٹ کے مطابق اس کی وجہ باقیوں کا اپنے ساتھی کو کلائمکس کے محدود مواقع فراہم کرنا ہے۔ زیادہ عمر کے لوگوں میں کلائمکس کی زیادہ تعداد ریکارڈ کی جاتی ہے۔
موجو سے محروم ہونا
بڑھتی عمر کے ساتھ جنسی خواہشات میں کمی معمول کی بات ہوسکتی ہے ۔ یہ صرف اس وقت ایک مسئلہ بن جاتی ہے جب یہ آپ کے لیے یا آپ کے ساتھی کے لیے دکھ یا دباؤ کا سبب بنتی ہے ۔ خواہش میں فرق کی وجہ ہارمونز میں فرق بھی ہوسکتا ہے اور مردوں میں خواہش کا یہ ہارمون (ٹیسٹوسٹرون) عورتوں سے کچھ زیادہ ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ مردوں کو اپنی جنسی طلب زیادہ ظاہر کرنے اپنی مردانگی بھی ثابت کرنا ہوتی ہے۔ بعض عورتوں کو اپنے مردوں کی خواہش جاننے سے اپنی نسوانیت کی یقین دہانی ملتی ہے۔
ارتقا کے نقطہ نظر سے خواتین کی جنسی خواہش افزائش نسل کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ تو ثابت ہوتا ہے کہ خواہش اور حمل کی صلاحیت کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ جنسی خواہشات میں اضافہ خواتین کے ماہواری کے دنوں سے پہلے یا بعد ہو سکتا جو افزائش نسل کے لیے بہت اہم دن سمجھتے جاتے ہیں اور ان دنوں میں جنسی عمل میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ مانا جاتا ہے کہ خواتین میں جنسی عمل کی خواہش ماہواری سائیکل کے ساتھ بڑھتی گھٹتی ہے۔ لیکن ادھیڑ عمر خواتین اور مردوں میں جنسیت کا تعلق افزائش نسل سے نہیں ہوتا۔ لیکن جنسی عمل زندگی کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ انسان کے جذبات اور اس کی صحت میں بہتری کا احساس جگاتا ہے۔
زیادہ تر نوجوانوں کو لگتا ہے کہ ادھیڑ عمر افراد کو اس عمر میں جنسی طور پر متحرک نہیں ہونا چاہیے اس کے ساتھ ساتھ ادھیڑ عمر افراد کو بھی لگتا ہے کہ اس عمر میں انہیں اس طرح کی حرکت زیب نہیں دیتا۔ یہ صحت کے لیے کام کرنے والے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان ادھیڑ عمر افراد کو یقین دلائیں کے اس عمر میں بھی ایسی خواہشات کا ہونا بالکل جائز ہے۔ادھیڑ عمر لوگ جنسی عمل کو زیادہ پرلطف پاتے ہیں۔904 مردوں جن کی اوسط عمر 60 سال ہے ان پر کی جانے والی ایک تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ بڑی عمر کے افراد جنسی عمل میں اپنی کارکردگی کے حوالے سے اتنے پریشان نہیں تھے جتنے نوجوان ہوتے ہیں۔ یہ مختلف عمر کے لوگوں میں پائی جانے والی مختلف خواہشات کی عکاسی کرتی ہے۔ بڑی عمر کےمردوں نے جنسی عمل میں نوجوانوں کی نسبت زیادہ مطمئن ہونے کا اعتراف کیا چاہے ان میں جنسی عمل کی صلاحیت جتنی بھی کم تھی۔گو کہ بڑی عمر کے مردوں نے نوجوانوں کی نسبت جنسی خواہش کی کمی کا اظہار کیا۔ ان کی جنسی خواہش میں کمی دراصل ان کے جنسی اعضا میں مسائل پر منحصر تھی۔اس دور میں ادویات جیسے کے سلائیڈنافل یعنی ویاگرا آر بڑی عمر کے مردوں میں جسمانی کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے آسانی سے مل جاتی ہیں۔لیکن ٹیسٹوسٹرون بڑی عمر کے مردوں میں جنسی خواہش کو بڑھانے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ مردوں کا معاملہ ہے
حال ہی میں ہونے والے ایک ڈینش تحقیق میں 8 ہزار 8 سو68 بالغوں نے چند سوالوں کا جواب دیا۔ ان میں مختلف عمروں کے افراد شامل تھے جنہوں نے گذشتہ پانچ سال میں اپنی جنسی خواہشات میں کمی یا اضافے کی وجوہات جانچنے کی کوشش کی نتائج کے مطابق مردوں میں خواتین کے مقابلے میں جنسی خواہشات زیادہ پائی جاتی ہیں۔ بوڑھے افراد میں پائی والی جنسی خواہشات جانچنے کے لیے کی جانے والی تحقیق میں سامنے آیا کہ اوسط 81 سال کی عمر والے افراد جن میں 56 فیصد خواتین تھی ۔ ان افراد میں 41 فیصد مردوں کے مقابلے میں صرف 18 فیصد خواتین جنسی طور پر متحرک پائی گئیں۔مردوں کے لیے دخول جبکہ خواتین کے لیے خود لذتی زیادہ عام جنسی سرگرمی دیکھی گئی۔ خواتین میں خواہش کا نہ ہونا بھی جنسی خواہشات نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ تھی۔ ہم کیٹگری میں خواتین کے لیے جنسی خواہش میں کمی دیکھی گئی چاہے وہ جنسی طور پر پائے جانے والا مرطوب ہو،خواہش کا پورا ہونا ہو، درد ہو یا اطمینان۔ مردوں میں جنسی سرگرمی کی وجہ جنسی اعضا کے مسائل تھے۔ جنسی عمل کا سکور جنسی خواہش کے پورا ہونے اور عمومی طور پر اطمنان کے گرد گھومتا تھا لیکن خواہش نہیں پائی جاتی تھی۔ بوڑھے مردوں میں بھی خواہش تو موجود تھی لیکن اعضا شاید کام نہیں کر رہے تھے۔ بڑی عمر کی خواتین میں جنسی خواہش تقریبا ختم ہی دیکھی گئی۔
خواہش اور مینوپاز
مینوپاز ایپڈیمیولوجی تحقیق جس میں مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے 1 ہزار چار سو 80 جنسی طور پر متحرک افراد کا جائزہ لیا گیا ۔ ان میں امریکہ سے تعلق رکھنے والی 40 سے 65 سال کی عمر کی خواتین شامل تھیں۔انہوں نے خواتین کی جنسی بے عملی کو بیان کرنے کوشش کی۔ اس میں سامنے آیا کہ خواتین میں جنسی خواہش کی کمی، اور شہوت کے پورےنہ ہونے کے مسائل رحم کے خشک رہنے کے باعث تھیں۔ ان میں رحم میں درد، خون کا آنا وغیرہ بھی شامل تھے۔امریکہ میں خواتین میں کم جنسی خواہش کی وجہ ہائپو ایکٹو سیکشوئل ڈیزائر ڈس آرڈر کی موجودگی تھی۔یہ پری مینوپازل 755 خواتین جبکہ 550 فطری مینو پازل(سن یاس) خواتین کے ساتھ سرجیکل مینو پازل 637 خواتین شامل تھیں۔مینوپازل خواتین کے مقابلے میں سرجیکل اور فطری مینوپازل خواتین میں جنسی خواہش کم دیکھی گئی۔لیکن جو خواتین سن یاس کو پہنچ چکی تھیں وہ اس حوالے سے نفسیاتی دباو کا شکار تھیں۔ خواتین کی جنسی خواہشات اور فطری مینوپاز میں احساسات، ان کے ساتھی کی خوشی، جسمانی اطمنان اور جنسی ہارمونز میں کمی جیسے عوامل شامل ہیں۔
اس مسئلے کو حل کرتے ہیں
برازیل میں 219 خواتین سے کی جانے والے سوالوں پر مشتمل ایک تحقیق کے مطابق درمیانی عمر کی خواتین میں جنسی خواہش کا دارومدار ایک جنسی شریک حیات کے ساتھ رہنے یا ان کی مینوپازل اور بعد از مینوپازل پر منحصر ہے۔ متحرک جنسی ساتھی کے ساتھ رہنا بھی جنسی خواہشات پر ہونے والے اثرات کی وجہ بن سکتا ہے۔ لیکن ایک طویل رشتے میں جنسی خواہش کو برقرار رکھنا ایک مسئلہ بن سکتا ہے۔ مقاصد کو سامنے رکھ کر طے کی جانے والی حکمت عملی اس مسئلے کو حل کر سکتی ہے۔ تحقیق میں کوشش کی گئی کہ مقاصد طے کر کے مثبت تجربات کی بنیاد پر کسی بھی رشتے میں جنسی جذبات کی گہرائی کو جانچا جا سکتا ہے یا نہیں۔ مقاصد سامنے رکھ کر آگے بڑھنے والے افراد انفرادی طور پر مزید خواہشات رکھتے ہیں جب ان کا ساتھی اسی جذبے کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہو۔ لیکن ان دنوں میں ان جذبات میں کمی ہو جاتی ہے جب دونوں کے درمیان تعلقات اچھے نہ ہوں۔یہ حکمت عملی مردوں کے مقابلے میں خواتین کے ساتھ زیادہ کامیابی سے چلتی ہے لیکن اپنی ساتھی کے جنسی خواہش میں اضافے کا فائدہ مردوں کو بھی ہوتا ہے۔ایک خاتون اپنے جسم کو کیسے دیکھتی ہے یہ چیزاس کی جنسی خواہش اور ان خواہشات کی تکمیل میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔بڑی عمر کی خواتین میں نفسیاتی دباؤ کی علامات ان کی نفسانی خواہشات سے گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ جنسی خواہش میں کمی نفسیاتی مسائل کے اضافے پر منحصر ہے۔وہ خواتین جو اپنی جنسی خواہشات کے بارے میں تشویش میں مبتلا نہیں ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ساتھی کے ساتھ محفوظ اور مطمئن محسوس کرتی ہیں جو ان کو بتاتے ہیں کہ وہ کتنی سیکسی اور وہ کتنا رومانوی ہے۔یہاں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی خاتون مینوپاز میں ہے یا نہیں۔ لیکن بعد از مینوپاز کی خواتین اپنے مرد ساتھی کی جانب سے کہی جانے والے تعریفی جملوں اور محبت کی زیادہ طلبگار ہوتی ہیں۔ ان نتائج کے مطابق خواتین میں جنسی خواہش ان کے پری مینوپاز کے ساتھ موازنے کی وجہ بنتی ہیں۔
حتمی نتائج
انسان کی جنسی طلب کے بارے میں معلومات کم دستیاب ہیں خصوصا اس وجہ سے کہ یہ اتنا پیچیدہ مسئلہ ہے جو ہارمونز، احساسات اور صحت کے گرد گھومتا ہے۔ عمومی طور پر عمر کے ساتھ یہ طلب کم ہوتی جاتی ہے۔ اس کی وجہ ان کا بیمار ہونا، پاروں کا بچھڑ جانا اور کم ہارمون کی سطح ہوسکتی ہے۔ کیا طلب کی کمی ذہنی دباو کی وجہ بنتی ہے اس کا انحصار انفرادی طور پر ہوتا ہے تاہم ان کا ساتھی کے ساتھ تعلقات پر بھی اثر ہوتا ہے۔ بڑی عمر میں بھی زیادہ مرد عورت کی نسبت اس طلب کا شکار ہوتے ہیں۔
علاج
ہارمونز کا بیرونی علاج عورتوں کے لیےتجویز کیا گیا ہے جن کی کم جنسی طلب کا ان کی زندگی کے معیار پر منفی اثر ہوتا ہے۔ ایچ ایس ڈی ڈی ایک تسلیم شدہ بیماری ہے اور ٹیسٹوسٹرون تھراپی سے اس میں وقت کے ساتھ بہتری آتی ہے۔برطانیہ میں وہ خواتین اس کی مجاز ہیں جو ٹیسٹوسٹرون سرجیکل مینوپاز کی شکار اور جو آسٹروجن تھراپی سے گزر رہی ہیں ۔
مرکب میں ٹیسٹوسٹرون لینے والی سرجیکل مینوپاز سے گزرنے والی خواتین کو اس کی اجازت نہیں ہے۔ایک سال سے زیادہ ٹیسٹوسٹرون کے استعمال کا محفوظ ہونا ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا۔ لیکن اسی دوران ہارمونز ری پلیسمنٹ تھراپی نے خواتین میں جنسی عمل کی صلاحیت میں نمایاں اضافہ دکھایا ہے بنسبت ان خواتین کے جو علاج نہیں کروا رہیں۔گو کہ کلینکل ٹرائلز میں اس کے کچھ منفی اثرات سامنے آئے ہیں۔ کچھ ماہرین صحت ایچ آر ٹی کے استعمال سے پائے جانے والے فوائد کے بارے میں شکوک و شبہات کو شکار ہیں۔ لیکن اس کے باجود زیادہ تر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر ایچ آر ٹی کو کم مدت کے لیے استعمال کیا جائے تو ان منفی اثرات کے مقابلے میں زیادہ فائدہ مند ہے۔
رشتے میں دونوں افراد کا ان مسائل کو حل کرنے کے لیے مشترکہ کوشش کرنا ہی رشتے کی کامیابی کی ضمانت ہے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ لوگ صحت مند طرز زندگی اپنائیں ۔سگریٹ نوشی کم اور ورزش زیادہ ہونی چاہیے۔ عورتوں کو پیلوک فلور پٹھوں کو (جاپانی چھوٹے گیندوں کے ساتھ) مضبوط کرنے چاہیے۔
اگر ضروری ہو تو جوڑوں کو ماہرین سے مشورہ بھی لینا چاہیے۔مردوں کے لیے سائیکوسیکشوئل تھراپی ان مسائل کے ساتھ ساتھ نفسیاتی مسائل پر قابو پانے کے لیے سلڈینوفل سے زیادہ فائدہ مند ہو سکتی ہے۔