تحریر : شاذ ملک فرانس
اخلاقیات کی سرحد پر کھڑے رویئے جب زبان کی حدود پھلانگ کر الفاظ کا روپ دھارتے ہیں تو دل اپنے احساسات کی کسوٹی پر انکی پرکھ کرتا ہے اور ہم لاشعوری طور پر شعور کی کیفیت کے ادرا ک میں یہ جان لیتے ہیں کے مد مقابل کا ہدف کیا ہے ۔ انسان اپنے وجود کے اندر ایک خالی پن کو مٹانے کی تگ و دو کرتا ہے اسکا ماخذ کیا ہے وہ نہیں جان پاتا اسکی طلب اسکی تشنگی کیا ہے اور کیوں ہے وہ سمجھ نہیں پاتا ۔ کی کھوج بھی کرتا ہے مگر اسکے باوجود وہ اس خلا کو پر کرنے کے لئے زندگی کے جھمیلوں کو اپنے اوپر اور طاری کر لیتا ہے خود سے بھاگتا ہے خود شناسی کے عمل سے گزرنے کے باوجود اس عمل کے نتایج اور ماخذ سے بے خبر رہتا ہے۔
یہ خالی پن انسانی وجود کو ذات کے اندر پھیلے کھوکھلے پن سے آشنایی کا کرب عطا کرتا ہے مگر انسان خود اپنے آپکو اپنے اندر پنہاں اسرار کو سمجھ نہیں پاتا ۔ کبھی دل کی آنکھیں کھلیں تو معلوم ہو کے رب تعالیٰ نے جو فرمایا ووہی برحق ہے ۔ اور الله رب العزت نے فرما دیا زمانے کی قسم بیشک انسان خسارے میں ہے (سورہ العصر ) اور بیشک یہ سچ بات برحق ہے کے ہم انسان خسارے کے سودے کرنے میں مگن ہیں۔
ہر انسان خسارے میں ہے مگر اسے احساس نہیں دل ہیں مگر درد سے عاری زندہ جسموں میں مردہ روحیں پڑی ہیں یعنی انسانی اجسام ارواح کی لطافت سے محروم ہو چکے ہیں آبادیوں میں ویرانے بسیرا کر رہے ہیں محفلیں تنہایئوں کی آماجگاہ بن چکی ہیں دلوں کی بستیاں تاراج ہو چکی ہیں سب جذبے گمراہی کی اور بڑھ رہے ہیں ہر بدن دکھ کی دریدہ چادر اوڑھے ہے ہے بےسکونی اور اغراض کے پھندے ہر گلے کی زینت بن چکے ہیں دل محبتوں کی چاشنی سے محروم ہو چکے ہیں۔
اس عالم نفسا نفسی میں انسان اپنی فلاح کے رستے کو بھلا چکا ہے رب کی رضا کو بھلا کر دنیاوی مفادات اغراض کے پر خطر راستے پر گامزن ہو چکا ہے بلامقصد رب کو بھلا کر قرانی تعلیمات کو چھوڑ کر دین کو کو بن سمجھے نبی پاک کی سنت کو چھوڑ کر اپنے لئے خسارے ہی خسارے اکھٹے کرنے میں دن رات مشغول ہے ،نجات کے راستے کو خوف کا رستہ سمجھ کر چھوڑنے والوں کو ما سوا دکھ درد کے خسارے کے سوا کیا ہاتھ آئے گا۔
خسارہ ہی خسارہ بس خسارہ سمجھنے کی بات یہی ہے کے جب تک ہم اپنے مذہب کی اصل روح سے واقف نہیں ہوں گے۔ ہم الله کے احکامات و پیغامات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گیں ہم یہ جان لیں کے دین سے دوری قرآن کو سمجھے بنا سنت رسول صل الله علیہ وسلم کو اپنائے بنا زندگی کا ہر ڈھب بیکار ہے۔
زندگی کا رشتہ ررح سے تبھی استوار ہو گا جب انسان اپنے اندر اپنے اسرار سے واقف ہو گااور یہ واقفیت یہ آگاہی اسے صرف قرآن اور سنت کے ذریعے سے ملے گی ورنہ ہر سودا صرف خسارے اور گھاٹے کا سودا ثابت ہو گا۔
تحریر : شاذ ملک فرانس