کئی سالوں کے بعد اس سڑک سے میرا گزر ہوا۔ میں انجینئرنگ یونیورسٹی میں ایک تقریب میں شرکت کے بعد اس سڑک پر واہگہ کی سمت چل نکلا جس پر مغلیہ دور کی یادگار اور پاکستان میں کل موجود چھ عالمی ورثوں میں سے ایک شالا مار باغ واقع ہے۔ ایک زمانہ تھا جب یہ باغ دو درجن کے قریب بڑے بڑے باغات کے درمیان واقع تھا لیکن اب وہاں صرف تین باغات کے صرف نشان باقی رہ گئے ہیں۔ ایک گلابی باغ، دوسرا انگوری باغ اور تیسرا عنائت باغ۔ ان باغات کے اردگرد بھی مکانات کی فصل اگ آئی ہے جو سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضہ در قبضہ سے اگتی ہے۔
آج سے تیرہ سال قبل جب میں بلوچستان سے پنجاب آیا تو اس متروک اور آفت زدہ محکمے ’’آثار قدیمہ‘‘ کا مجھے ڈائریکٹر جنرل لگایا گیا۔ اس وقت لاہور میں دو عدد مغلیہ دور کی یادگاریں عالمی ورثے کی ایک ایسی لسٹ میں شامل کردی گئیں تھیں جسے خطرے سے دوچار لسٹ کہتے ہیں۔ دنیا میں عالمی ورثے کی ایک لسٹ یونیسکو تیار کرتا ہے اور پھر اس کے تحفظ کے لیے حکومتوں اور عالمی برادری کو قائل کرتا ہے۔ یہ دوسری لسٹ ان عمارتوں یا یادگاروں کی بنائی جاتی ہے جو خطرے سے دوچار ہوتی ہیں۔ جو بربادی کی طرف مائل ہوتی ہیں۔ یہ دونوں مغل یادگاریں لاہور کا شاہی قلعہ اور شالا مار باغ تھیں۔ شالا مار باغ کے ساتھ جو ظلم و زیادتی گزشہ پچاس سالوں سے روا رکھی گئی وہ ناقابل بیان ہے‘ لیکن جس ’’حرکت‘‘ کی وجہ سے اسے خطرے سے دوچار یادگار قرار دیا گیا، وہ جی ٹی روڈ لاہورکی توسیع تھی۔ شالا مار باغ کے فواروں کے لیے پانی مہیا کرنے کی غرض سے مغلوں نے ایک شاندار آبی ترسیل کا نظام بنایا تھا جس کا منبع خواب گاہ شاہ جہانی کی دوسری جانب تھا۔
یہ ہائیڈرولک سسٹم اپنے زمانے کا ایک عظیم سائنسی عجوبہ تھا۔ اسے پکی ہوئی مٹی ”مٹی” کے زیر زمین پائپوں سے فواروں کے ساتھ منسلک کیا گیا تھا۔ جی ٹی روڈ کی توسیع شروع ہوئی تو پنجاب حکومت کے حکمنامے پر عمل کرتے ہوئے مغلوں کے اس شاندار آبی ترسیل کے نظام کو ایک ناجائز قبضہ سمجھا گیا اور جس طرح بلڈوزر کھوکھے اور عمارتیں گراتے ہیں، اس کو بھی زمین بوس کردیا گیا۔ سڑک چوڑی ہوگئی بلکہ اسے کئی فٹ بلند بھی کردیا گیا اور ساتھ ساتھ شالا مار باغ کے اردگرد گھومتی ہوئی گلیوں کو بھی کئی فٹ اونچا کردیا گیا۔ یوں پورے علاقے کا گندہ پانی شالا مار باغ کے دروازوں کے راستے اس کے آخری قطعہ میں جمع ہونے لگا۔ یہ حرکت اس قدر ناپسندیدہ تھی کہ دنیا بھر میں موجود ہر وہ شخص جس کو انسانی تہذیب سے تھوڑی سی بھی ہمدردی تھی اس نے اس پر احتجاج کیا۔ یونیسکو نے اس عالمی ورثے کو خطرے سے دوچار لسٹ میں شامل کردیا اور اس کے ساتھ ساتھ لاہور کے شاہی قلعے کو بھی اسی رویے کی وجہ سے اسی لسٹ کا شکار ہونا پڑا۔ ویسے اس قلعے کی حالت بھی اس وقت کوئی ایسی قابل دید نہ تھی۔ جی ٹی روڈ کو چوڑا کیا جاچکا تھا اور اس کی تمام لائٹیں زیر زمین کردی گئی تھیں۔ لیکن شاہی قلعے کا وہ عالمگیری دروازہ جو لاہور کی پہچان ہے اس کے سامنے سے واپڈا کی تاریں گزرتی تھیں۔
یہاں اس شخص کا ذکر کرنا بددیانتی ہوگی جس کی وزارت اعلیٰ کے دوران میں اس کے پاس ان دونوں عمارتوں کی بحالی کا منصوبہ لے کر گیا تو اس نے خوش دلی سے اسے منظور کیا۔ حالانکہ ان دونوں عمارتوں نے اسے ووٹ نہیں دینا تھے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے ان دونوں عمارتوں کے لیے 60 کروڑ یعنی 30 کروڑ فی عمارت منظور کیے جو آیندہ آنے والے 8 سالوں میں خرچ ہونا تھے۔ لاہور شاہی قلعہ کی زبوں حالی کا یہ عالم تھا کہ شیش محل کی چھت ایک جانب جھک گئی تھی اور گرنے کے قریب تھی۔ اس کے لیے یونیسکو نے عالمی سطح پر اپیل کی اور نو ممالک کے ماہرین نے اسے ناروے کی حکومت کے سرمائے سے بحال کیا۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو آج شیش محل صرف اور صرف تصویروں میں موجود ہوتا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کام کا آغاز کرنے کے بعد میں نے دس ملکوں کی تنظیم ای سی او کے کلچرل سینٹر‘ تہران کے لیے امتحان اور انٹرویو دیے اور کامیاب ہوا۔ مجھے وہاں اپریل 2006ء میں جائن کرنا تھا۔ پرویز الٰہی نے ایک سال تک اسے روکے رکھا اور وزارت خارجہ کو بار بار میرے لیے مہلت لینا پڑی۔ یہ الگ بات ہے کہ میں چند ماہ بعد ہی وہاں سے واپس آگیا کیونکہ پرویز مشرف کو جامعہ حفصہ پر ہونے والے مظالم پر میرا ٹیلی ویژن پروگرام میں بولنا برا لگا اور مجھے راتوں رات تہران چھوڑنے کا حکم ملا۔ ایک بہت بڑی انکوائری کا آغاز کیا گیا جسے میں کئی سال بھگتا رہا۔
لاہور کے شاہی قلعے او شالا مار باغ پر کیے گئے ان کاموں کا نتیجہ تھا کہ یونیسکو نے انھیں خطرے سے دوچار ہونے والی لسٹ سے نکال دیا۔ لیکن آج جب میں انجینئرنگ یونیورسٹی سے واہگہ کی سمت روانہ ہوا تو اورنج ٹرین کے بڑے بڑے ستونوں نے مجھے حیرت زدہ کردیا۔ یہ ستون عین خواب گاہ شاہجہانی کے سامنے سے گزرتے ہیں اور اس ہائیڈرولک سسٹم کی قبر بنا کر انھیں کھڑا کیا گیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایسی ہی ایک ٹرین کا منصوبہ جب پرویز الٰہی کے زمانے میں بنایا جارہا تھا تو میں نے اس ورثے کے تحفظ کی آواز اٹھائی تھی تومیری آواز سنی گئی تھی۔ لیکن شاید اب کوئی آواز بلند نہیں کرتا۔ دو قوانین اس ملک میں آج بھی موجود اور نافذ العمل ہیں۔ ایقدیم دور ایکٹ اور دوسرا خصوصی پریمیسیس ایکٹ ان دونوں کی موجودگی میں اگر اس طرح کی کوئی عمارت ورثے کے قریب کسی عام شہری نے بنائی ہوتی تو بلڈوزر اس کو گرا چکے ہوتے لیکن شاید قانون حکومت، حکومتی اداروں پرلاگو ہی نہیں ہوتا۔ چوبرجی‘ بادشاہی مسجد اور لاہور کے شاہی قلعے کے پاس جدید میٹرو اور اورنج ٹرین کیا اس لیے ضروری تھیں کہ ان کو کھڑا کر کے لوگوں کو دکھایا جائے کہ ہم نے کیسی ’’بدنما‘‘ چیزیں بنائی ہیں۔ جتنی لاگت ان دونوں پر خرچ ہوئی اس سے پورے لاہور میں ہزاروں بسیں خرید کر لوگوں کو سفری سہولت مہیا کی جا سکتی تھی۔
آج میں شالا مار باغ کے سامنے سے گزر رہا تھا تو میں سوچ رہا تھا کہ اگر شہباز شریف لندن کے میئر کا الیکشن لڑتے اور جیت جاتے اور پھر اس کے بعد ان پر لندن شہر میں سفری سہولیات بہتر بنانے کا جنون سوار ہوتا۔ وہ ایک اورنج ٹرین شروع کرتے جو ہائیڈ پارک سے شروع ہوتی‘ بکنگم پیلس کے دروازے کے اوپر سے گزر کر ٹریفلگر اسکوائر کو چھوتی ہوئی پکاڈلی جا پہنچتی۔ لندن کی کئی سڑکوں کے اوپر اورنج ٹرین اور میٹرو کی چھت استوار کر دی جاتی۔ ٹیمز دریا کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑا جنگلہ ہوتا جس کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے جدید قسم کے اسٹیشن ہوتے۔ پارلیمنٹ کی بلڈنگ کے سامنے ٹرین کا ستون ہوتا اور وہ گھڑی جیسے دنیا بگ بین کہتی ہے لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی تو پھر کیا ہوتا۔کیا پورا لندن سڑکوں پر نہ نکل آتا۔ لیکن شاید لاہور والوں کو پروا نہیں یا پھر وہ جانتے ہی نہیں کہ جو کچھ ترقی کے نام پر ان کے شہر میں ہو رہا ہے اس کے بارے میں جان پرکنز نے اپنی کتابوں میں تحریر کیا ہے کہ دنیا کے امیر ممالک اگر کسی غریب ملک کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں تو وہ انھیں ایسے پراجیکٹ میں قرض دیتے ہیں جیسے پل‘ موٹروے‘ میٹرو۔ انھیں تعلیم‘ صحت‘ صاف پانی اور سیوریج کے لیے قرض نہیں دیتے جیسے یہ انفراسٹرکچر پراجیکٹ قوم کو مقروض بنا دیتے ہیں تو پھر ایک دن وہ اس قوم کے وسائل پر قابض ہو جاتے ہیں۔ یہ صرف لاہور کی بدنمائی نہیں اس ملک کو قرض میں جکڑنے کی ایک ایسی سازش ہے جس کا نتیجہ اس قدر خوفناک نظر آتا ہے کہ سوچ کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ ابھی تو صرف بدصورتی اور بدنمائی کا دکھ ہی کافی ہے کہ دوسرے موضوع پر بار بار تحریر کر گیا ہوں۔