’’مجھے دو سال ہو گئے نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھرتےہوئے… لیکن مجال ہے کہ کوئی نوکری ہاتھ آجائے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا فائدہ ایسی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنےکا جب اس کا حاصل یوں بے روزگاری کی صورت میں زندگی گزارنا ہے۔ جہاں بھی انٹرویو کےلیے جاؤ وہ تجربہ مانگتے ہیں۔ اب ان سے کون پوچھے کہ کوئی رکھے تو تجربہ حاصل ہو ناں۔ بڑا سنتے تھے کہ ڈگریاں لے لو،اعلیٰ افسر بن جاؤ گے۔ لیکن اب تو لگتا ہے کہ اعلی ڈگری حاصل کی ہی گلے میں لٹکانے کےلیےتھی۔‘‘
آج ہمارے معاشرے کا ہر نوجوان ملازمت کے حصول کےلیے کوشاں نظر آتا ہے۔ کئی مہینوں کی جدوجہد کے باوجود بھی اگر اسے کوئی امید نظر نہ آئے تو مایوسی وہ مایوسی کی گود میں پناہ تلاش کرنے لگ جاتا ہے جو ایسے موقع پر اس کا ساتھ دیتی نظر آتی ہے۔
گزشتہ دنوں ایک قریبی دوست گورنمنٹ جاب کےلیے این ٹی ایس کا ٹیسٹ دینے گئی تومجھے سن کے بڑی حیرانگی ہوئی کہ چند سیٹوں کےلیے اتنی بڑی تعداد میں ملازمت کی درخواستیں موصول ہوئیں۔ اگر مارکیٹ کا سروے کیا جائے تو ہر شعبے میں ایک محدود اور مخصوص تعداد میں نوکریاں موجود ہیں، لیکن ہر سال پاس آؤٹ ہونے والے گریجویٹس کی تعداد اس سے کئی سو گنا زیادہ ہے۔ اور اس میں سب سے زیادہ فائدہ ان تعلیمی اداروں کو ہو رہا ہے جو اپنی جیب تو بخوبی بھرے جارہے ہیں لیکن وہ نوجوان کو ایک نوکری کے حصول کے علاوہ کوئی خاص سمت دکھانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ اسی لیے جب یہ نوجوان تعلیم سے فارغ ہو کہ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو ان کو سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور ایسے میں نوکری کا مل جانا ان کے لیے جوئے شیر لانے جیسا ہوتا ہے۔
گزشتہ دنوں ایک آئی ٹی ایکسپرٹ کا انٹرویو سننے کو ملا جس میں وہ خاص کر ہمارے نوجوانوں سے ایک گلہ کرتے ہوئے نظر آئے۔ ان کی رائے کےمطابق پاکستان کے نوجوان محنتی اور ذہین تو بہت ہیں لیکن اسمارٹ اور تخلیقی بالکل بھی نہیں، جس کی وجہ سے نوجوانوں کے پاس کچھ الگ سے کرنے کی جدوجہد و صلاحیت تقریبا ناپید ہے۔
دیکھا جائے تو ہمارے نوجوان ذہنوں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ تخلیقی سوچ کی کمی کا ہے۔ سونے پر سہاگہ تعلیمی اداروں میں بھی ان کی ذہن سازی ایسی ہوئی ہوتی ہے کہ ان کی خواہش محض خوب سے خوب تر نوکری کی تلاش میں ہونی چاہیے، اور ان کو نوکری کے ساتھ کوئی اور مدِ مقابل انتخاب دیا ہی نہیں جاتا۔ مثال کے طور پر ہمارے ایم بی اے جیسے ڈگڑی ہولڈر کا یہ المیہ ہے کہ ان کا ذہن نوکری کرنے کے بجائے اپنا کاروبار شروع کرنے کی جانب جاتا ہی نہیں۔ حالانکہ اگر ہم اپنے اردگرد کے ترقی پذیر ممالک کا جائزہ لیں تو وہاں اپنے تخلیقی آئیڈیاز کی بنیاد پر نوجوان کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں؛ اور ہر نوجوان کی یہی خواہش ہے کہ وہ کسی کی نوکری کرنے کے بجائے اپنا کاروبار کرے۔
نوجوانوں میں کلچر کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ ان کے اندر یہ احساس اجاگر کیا جائے کہ وہ اپنے کسی تخلیقی آئیڈیا پر کاروبار شروع کریں، نوکری کے مواقع ڈھونڈنے کے بجائے اپنی بہترین صلاحیتوں سے وہ مواقع فراہم کرنے والے بن جائے۔ نوجوانوں کی ذہن سازی اپنا کاروبار شروع کرنے پر کروائی جائے اور ان کا فوکس سب سے زیادہ اس چیز کی طرف بڑھایا جائے کہ وہ کچھ ایسا تخلیق کریں جو وقت کی اشد ضرورت ہے اور جس سے سماج بہترین طور پر مستفید ہوسکتا ہے۔ انٹرنیٹ کی اس دنیا میں ایسے آئیڈیا پر کام کرنا اب کوئی مشکل نہیں رہا، بلکہ دنیا میں کتنے ہی ایسے نام ہیں جنہوں نے بہت تھوڑے سرمائے سے کچھ ایسا تخلیق کیا کہ اس کا فائدہ پوری دنیا کو بھرپور طریقے سے ہوا۔
بنیادی طور پر کلچر کو فروغ معاشرے کے مسائل کو نئے طریقے سے حل کرنے کی ایک سوچ کا نام ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال گزشتہ سال پاکستان میں شروع ہونے والی آن لائن ٹیکسی سروس کریم سمجھی جا سکتی ہے جو کہ دنیا میں بہت سالوں سے چل رہی تھی۔ اس کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ تک کی مسافت کو ایک اچھی سواری میں پرسکون سفر میں بدلنا تھا؛ لیکن جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے اب یہ کام گھر بیٹھے ایک موبائل ایپلیکیشن سے بھی ممکن بنا دیا گیا ہے۔ اس کی ایک اور سب سے بڑی مثال فیس بک کے بانی مارک ذکر برگ کی ہے جو کہ انٹر نیٹ کلچر کو فروغ ہے جس نے اپنے کام سے لوگوں کو جوڑنے کا کام بھرپور طریقے سے انجام دیا اور اسی تخلیقی سوچ نے سوشل میڈیا جیسی اصطلاح کو بھرپور طریقے سے منوایا۔
آج ہمارے نوجوانوں کی ذہنوں کو بھی ایسی ہی نئی سمت اور جہتیں دکھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ ابھی بھی اس طرح کے بے شمار آئیڈیاز ہیں جن پر بہت کام ہونا باقی ہے۔ نوجوانوں کے اندر ہمت اور خوداعتمادی کو اسی طرح کے تجربات کروا کہ پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کی ذہن سازی کی جائے اور ان کو نوکری کی محدود سوچ سے نکال کر پیسے کمانے کی کوئی اور متبادل سوچ پروان چڑھائی جائے۔ کیونکہ نوکری نہ ملنے کی مایوسی ہمارے بے روزگار نوجوانوں کی صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔