تحریر : ایم ایم علی
جس طرح لاہور میں رہنے والوں کو ہم بلا خوف و خطر لاہوریئے کہتے ہیں اسی طرح بلا تمثیل جمہوریت کے لیے ووٹ دے کر جمہوریت کو قائم کرنے والے ووٹروں کو ہم جمہوریئے کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ جو جمہوریئے ووٹ ڈالنا انتہائی اہم اور جزلانیفک سمجھتے ہیں اُن کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ جن میں 30 فیصد شہروں میں رہنے والے اور 70 فیصد دیہاتوں میں مکین سادہ لوح جمہوریئے شامل ہیں۔
آج میرے کالم کا اصل موضوع دیہاتوں میں رہنے والے 70 فیصد جمہوریئے ہیں اُنہوں نے جب سے ٹیلی ویژن چینلزاور اخبارات ریڈیو کے ذریعے سے جمہوریت کا حسن، جمہوریت کی فتح، جمہوریت کا تقدس اور مقدس ایوان کے الفاظ سُنے ہیں وہ اُس وقت سے جمہوریت کے ساتھ اس طرح سے مانوس ہو گئے ہیں کہ اُنہیں رات خوابوں میں جمہوریت ، کھیتوں کھلیانوں میں جمہوریت، حویلی کے پنڈالوں، پنچائیتوں کے چوپالوں میں جمہوریت، بھینس بکریوں کے باڑوں میں بھی جمہوریت ہی جمہوریت نظر آ رہی ہے۔ جمہوریت کے دلدادہ سادہ لوح جمہوریوں نے جب سے گنے کا ریٹ ، کپاس کی قیمت، گندم کی فروخت، چاول کے ریٹ سمیت دیگر زرعی اجناس کی خرید و فروخت ، جمہوریت کے سنہری اصولوں کے عین مطابق کی ہے تب سے ایسے جمہوریت پسند ہوئے ہیںکہ ترقی اور خوشحالی نے جمہوریت کی طرح اُن کے گھروں میں ڈیرے ڈال لیے ہیں اور جمہوریت کے ثمرات سے ایسے مستفید ہو رہے ہیں کہ اُٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے، سوئے جاگتے صرف جمہوریت کی تسبیح کرتے ہیں اور مسلسل جمہوریت کے گُن گا رہے ہیں یقین کریں میں نے تو دیہاتوں میں ایسے سادہ لوح جمہوریئے بھی ملاحظہ کیے ہیں جنہوں نے جمہوریت کی مضبوطی پر اللہ کا شکر ادا کر کر کے اپنے ماتھوں پر محراب بنوا لیے ہیں۔
ایک کھچرے جمہوریئے نے سادہ لوح جمہوریئے سے پوچھ لیا کہ بتاؤ پانامہ لیکس کیا ہیںتو اُس نے فوراً جواب دیا پاہ نامے نے ہمارے اور اپنے درمیان ایک لکیر کھینچ دی ہے لکیر کی ایک طرف ہم کمی کمین اور لکیر کی دوسری جانب گاؤں کے چوہدری ہو گئے ہیں یہ ہے پانامہ لیک۔ ایک مرتبہ اسی طرح سادہ لوح جمہوریئے شادی کی بارات لے کر جا رہے تھے کہ راستے میں ایک دریا پار کرنا پڑا دریا عبور کر کے ایک جمہوریئے نے کہا کہ یار بندے گِن لو پورے ہیں 30 بندے تھے۔ ایک جمہوریہ بندے گننے لگ گیا جب اُس نے گنتی مکمل کی تو پریشان ہو کر بولا یار ایک بندہ کم ہو گیا ہے اُس جمہوریئے کو اگلے بندے نے کہا یار تم لائن میں کھڑے ہو جاؤ میں گنتی کرتا ہوں اُس نے بھی جب گنتی کی تو حیرانگی سے کہا پہلے بھائی کی بات دُرست ہے بندے 29 ہیں ایک کم ہے اسی ترتیب سے باری باری تمام جمہوریئے گنتی کرتے گئے اور ایک آدمی کم ہونے کی نشاندہی کرتے گئے سب پریشانی کے عالم میں گُم سُم کھڑے تھے کہ اُن کی نظر گائوں کے چوہدری پر پڑی جو وہاں سے گزر رہا تھا، تو اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ ایک بار گنتی اُس سے کروا لی جائے تو ایک جمہوریئے نے باہمی مشاورت سے آگے بڑھ کر کہا چوہدری صاحب ہماری گنتی تو کر دیں۔
چوہدری سارا معاملہ سمجھ گیا اُس نے بیل ہانکنے والی چھڑی ہاتھ میں پکڑی اور باراتیوں کو حُکم دیا کہ تمام جمہوریئے اُلٹے لیٹ جاؤ سب اُلٹے لیٹ گئے اُس نے پورے زور سے پہلے جمہوریئے کی پیٹھ پر چھڑی ماری اور کہا ،ایک !اُس نے تڑپ کر اُس جگہ مالش کرنی شروع کردی اور ایک طرف بیٹھ کر مالش کرتا رہا اس طرح سے چوہدری نے ایک ایک پر گنتی گنی اور 30 جمہوریئے پورے کر دیئے اُنہوں نے چوہدری کا شکریہ ادا کیا اور عرض کرنے لگے کہ حضور ہم نے تو تیس بار گنتی شُمار کی اور ہر بار گنتی کرنے پر 29 بندے ہی رہے۔
آخر کیا حیران کُن وجہ ہے کہ آپ نے پہلی ہی بار میں گنتی پوری کر دی تو چوہدری نے کہا کہ ایک تو تمہارے ہاتھ میں چھڑی نہیں تھی اور دوسرا جو بھی گنتی شُمار کرتا تھا وہ خود کو شُمار ہی نہیں کرتا تھا اسی مثال کے مصداق جب یہ سادہ لوح جمہوریئے ووٹ ڈالنے جاتے ہیں تو ان کی گنتی بھی ایک چھڑی والا کرتا ہے جو کہ گاؤں کا چوہدری اور علاقے کا جاگیردار ہوتا ہے لہذا وہ ان سادہ لوح جمہوریوں کو اُسی چھڑی کے زور پر لائن میں لگا کر اپنی پسند کی جمہوریت کے عین مطابق ٹھپہ لگوا لیتا ہے اور پھر پانچ سال تک یہ تمام سادہ لوح جمہوریئے کراہتے ہوئے مالش کرتے، آہیں بھرتے، جمہوریت کی مالا جپتے گذار دیتے ہیں۔
قارئین کرام آج کی اس پُرآسائش اور جدید سہولتوں سے آراستہ دُنیا میں بھی اِن سادہ لوح جمہوریوں کو زندگی گذارنے کے لیے جو زادِ راہ درکار ہے وہ انتہائی سادہ اور قبل عمل ہے اِن سادہ لوح جمہوریوں کو آج بھی روٹی کپڑا، مکان، صحت اور بچوں کی تعلیم کی سہولیات میسر آ جائیں تو اِن کی داد رسی ہو سکتی ہے اور اِن تک بھی جمہوریت کے اصل ثمرات پہنچ سکتے ہیں جن کے نعرے صرف ایوانوں میں گونجتے ہیں اُن کی گونج عملی طور پر ایوانوں سے باہر نہیں آتی۔
آج بھی اگر ان سادہ لوح جمہوریوں کو کھانے کے لیے روٹی یعنی روزگار، تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے، مسکن کے لیے اپنی چھت، تندرست و توانا رہنے کے لیے صحت کی معیاری سہولیات اور اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے اعلیٰ معیار کے تعلیمی ادارے مل جائیں تو یہ سادہ لوح جمہوریئے بھی جمہوریت زندہ باد کے نعرے لگانے پر مجبور ہو سکتے ہیں اور مقدس ایوان کا تقدس بحال ہو سکتا ہے۔ورنہ حکمران ڈریں اُس خوفناک وقت سے جب یہ سادہ لوح جمہوریئے کسی سے گنتی کروانے کی بجائے خود چھڑی پکڑ کر اپنے آپ کو شُمار کر کے گنتی کرنے پر آ گئے تو پھر ان سادہ لوح جمہوریوں کے ہاتھوں اصل جمہوریت بحال ہو گی جو نقلی جمہوریت کو نگل جائے گی۔
تحریر : ایم ایم علی