اس ہفتہ کی خبروں کی پر اگر نظر ڈالی جائے تو کئی اہم واقعات اس دوران منظر عام پر آئے ہیں جن کی سماجی، معاشرتی اور ملکی سطح پر بڑی اہمیت ہے۔ ان میں سے پہلا واقعہ کٹھوا میں ہوئے اجتماعی عصمت دری پر کورٹ کا ابتدائی رد عمل اور تفتیشی ٹیم کی وہ رپورٹ نے جس نے اس واقعہ کی تصدیق کی ہے۔ ابتدائی رپورٹ میں انکشاف ہواہے کہ ملزمان کو بچانے میں خود جموں پولیس کے اہلکار لگے ہوئے تھے۔ عصمت دری اور قتل کی تحقیقات کی ذمہ داری شروع میں جن دو پولیس و اہلکاروں کو سونپی گئی تھی ان کا رول بھی اس معاملے میں مشتبہ رہا ہے۔ ان دونوں پولیس اہلکاروں نے آٹھ سالہ معصوم بچی کے قتل کے بعد اس کی لاش ملنے پر اس واقعہ کے ثبوت مٹانے کی کوشش کی تھی۔ ان دونوں نے متاثرہ کے قتل کے بعد اس کے کپڑے کو تھانے میں ہی دھویا دیاتھا۔ ہیرا نگر تھانے میں تعینات سب انسپکٹر آنند وتہ کے کہنے پر ہیڈ کانسٹیبل تلک راج نے متاثرہ کے قتل کے بعد اس کی جامنی فراک کو اسی تھانے میں اس وقت تک دھویا جب تک کہ وہ بالکل صاف نہیں ہوگئی۔ کرائم برانچ کے آئی جی سید مجتبیٰ کے مطابق ان دونوں پولیس اہلکاروں نے ملزمان کو بچانے کے لیے اور اس معاملہ کے اہم ثبوت تباہ کرنے کے لیے ایسا کیا تھا اور انہیں اس کے عوض میں ملزمان کی جانب سے ڈیڑھ لاکھ روپے دیئے گئے تھے۔
دوسری خبر بھارتیہ جنتا پارٹی حال ہی میں مکہ مسجد بلاسٹ معاملے میں بری ہوئے سوامی اسیما نند سے پنچایت الیکشن کے دوران کیمپین کروانے اور ریاست میں اپنی بنیاد مضبوط کرنے کے لیے ان کو ساتھ لانے کی تیاری سے متعلق ہے۔سوامی اسیمانند بنیادی طور پر مغربی بنگال کے ہگلی ضلع سے آتے ہیں جہاں ان کی فیملی رہتی ہے۔خود ساختہ سنت اور سابق آر ایس ایس کارکن اسیمانند کو 2010 میں سی بی آئی نے دھماکے کے سلسلے میں گرفتار کیا تھا۔بعد میں یہ معاملہ این آئی اے کو سو نپ دیا گیا۔ انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ قانونی خانہ پری کے بعد اسیما نند جلد ہی بنگال جائیں گے۔ریاست کی بی جے پی اکائی چاہتی ہے کہ وہ الیکشن کی تشہیر کے دوران بنگال کے مختلف دیہی علاقوں کا دورہ کریں اور پارٹی کے نظریا ت کو پھیلائیں۔واضح ہو کہ اسیمانند کے چھوٹے بھائی سشانت سرکار اس وقت بی جے پی کی ہگلی اکائی کے سکریٹری ہیں۔ سشانت نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی سے بات کرتے ہوئے کہا ہماری پوری فیملی سنگھ پریوار کووقف ہے۔اگر میرے بھائی بنگال آتے ہیں اور یہاں کام کرنا چاہتے ہیں تو ہم بہت خوش ہوں گے۔وہیں یہ خبر بھی اہم ہے کہ مکہ مسجد معاملے میں بری ہوئے ملزمین کی طرح نروداپاٹیہ قتل عام میں گجرات ہائی کورٹ نے بی جے پی کی سابق وزیر مایا کوڈنانی کو بھی بری کر دیا ہے۔ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ کوڈنانی کی جائے واردات پر موجود گی کے ثبوت نہیں ملے ہیں ۔اس کے برخلاف بجرنگ دل کے لیڈر بابو بجرنگی سمیت 31دیگر لوگوں کی سزا برقرار رکھی ہے۔آج تک کی خبر کے مطابق کوڈنانی کے خلاف کورٹ میں گیارہ چشم دید گواہوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے فسادات کے دوران مایا کوڈنانی کو نروادا پاٹیہ میں دیکھا تھا لیکن کورٹ نے معاملے کی جانچ کر رہی پولیس کی گواہی کو صحیح مانا ہے۔دراصل گجرات میں سال 2002 میں ہوئے فساد کے دوران احمد آباد واقع نروداپاٹیہ علاقے میں 97 لوگوں کا قتل کر دیاتھا۔یہ قتل 27 فروری 2002 کے گودھرا میں سابرمتی ایکسپریس ٹرین جلائے جانے کے ایک دن بعد ہوا تھا۔اس فساد میں 33 لوگ زخمی ہوئے تھے۔نرودا پاٹیہ کیس مقدمہ اگست2007میں شروع ہوا اور 62ملزموں کے خلاف الزام درج کئے گئے تھے۔سماعت کے دوران ایک مجرم وجے شیٹی کی موت بھی ہوگئی تھی۔
اسی ہفتہ کی خبروں میں ایک اہم خبر جسٹس لو یا کی موت کو فطری بتاتے ہوئے سپریم کورٹ آف انڈیا کا ایس آئی ٹی سے مزید جانچ سے انکار ہے۔چیف جسٹس دیپک مشرا کی قیادت والی تین رکنی بنچ نے کہا ہے کہ بی ایچ لویا کی موت قدرتی وجوہات سے ہوئی تھی۔عدالت نے کہا کہ ریکارڈ میں رکھے گئے دستاویزوں اور ان کی جانچ یہ ثابت کرتی ہے کہ لویا کی موت قدرتی وجوہات سے ہوئی ہے۔دراصل 2005 میں سہراب الدین شیخ اور اس کی بیوی کوثر بی کو گجرات پولیس نے حیدر آباد سے اغواکیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ دونوں کو فرضی تصادم میں ہلاک کیا گیا ہے۔شیخ کے ساتھ تلسی رام پرجا پتی کو بھی 2006 میں گجرات پولیس کی طرف سے قتل کردیا گیا تھا۔یہ سہراب الدین تصادم کا گواہ مانا جارہا تھا۔وہیں 2012 میں سپریم کورٹ میں مقدمے کی سماعت کو مہاراشٹر میں ٹرانسفر کر دیا اور 2013 میں سپریم کورٹ نے خالق شیخ کے کیس کو ایک ساتھ مل کر کیا۔شروع میں جج جے ٹی اتپت کیس کی سماعت کر رہے تھے لیکن ملزم امت شاہ کے پیش نہ ہونے پر ناراضگی ظاہر کرنے پر اچانک ان کا تبادلہ کردیا گیا تھا۔پھرکیس کی سماعت جج بی ایچ لویا نے کی اور یکم دسمبر 2014 میں ناگپور میں ان کی موت ہو گئی ۔اس وقت وہ ایک ساتھ کی بیٹی کی شادی میں شامل ہونے ناگپور گئے تھے اور چار دیگر ججوں کے ساتھ ناگپور کے روی بھون میں ٹھہرے تھے۔بعد میں امت شاہ کو اس کیس سے متعلق لگائے گئے الزامات سے بری کردیا گیا ۔جسٹس لویا کی فطری موت کا فیصلہ دینے کے باوجود ان کے گھر والوں نے اپنی بے چینی ظاہر کی ہے۔دی پرنٹ سے بات کرتے ہوئے جج لویا کے چچا شری نواس لویا نے کہا کہ فیصلہ ہماری امید کے مطابق نہیں ہے۔کئی سوالوں کے جواب ا بھی باقی ہیں۔بہتر یہ ہوتا کہ آزادانہ طور پر تفتیش کروائی جاتی۔لیکن اب ہمیں اس بارے میں کسی سے کوئی امید نہیں ہے۔میڈیا اور حزب مخالف نے اس مدعے کو اٹھایا ضرور ہے لیکن اس سے کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔
ان تمام خبروں اورعدالتوں کے فیصلوں کے درمیان ایک اور خبر جو سامنے آئی ہے وہ بامبے ہائی کورٹ سے ہے جس میں ایک معاملہ کو لے کر شنوائی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ملک میں ایک بھی ادارہ بھلے ہی وہ عدلیہ ہی کیوں نہ ہو محفوظ نہیں ہے۔موجودہ صورتحال کی وجہ سے باقی دنیا تعلیمی اور ثقافتی مسئلوں پر ہندوستان کے ساتھ جڑنے پر ہچک رہی ہے۔جسٹس ایس سی دھرماھیکاری اور جسٹس بھارتی ایچ ڈانگرے کی بنچ نے نریندر دابھولکر اور گووند پانسرے کے قتل معاملے سے جڑے مقدمے کی شنوائی کی تھی۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق جسٹس دھرمادھیکاری نے کہا کہ سیکولر لوگ محفوظ نہیں ہیں۔ جو قلمکار اور سماجی کارکن ہیں ان کی زندگی محفوظ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ایسا کوئی ادارہ چاہے وہ عدلیہ ہی کیوں نہ ہو محفوظ نہیں، کوئی بھی بین الاقوامی ادارہ آپ کے کلچر اور تعلیمی تقریبات میں حصہ لینا نہیں چاہتا۔عدالت سے نریندردابھولکر اور گووند پانسرے کے اہل خانہ نے ان قتل معاملوں کی عدالتی نگرانی میں جانچ کی مانگ کی ہے۔بنچ نے کہا ہے کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آج ملک کی امیج ایسی بن گئی ہے کہ دوسرے ممالک کے لوگ یہی سوچتے ہیں کہ یہاں صرف کرائم اور عصمت دری ہی ہوتی ہے۔
نیز اس ہفتہ کی اہم خبروں کے درمیان آخری خبر جو ہمارے سامنے ہے وہ امریکی وزرات خارجہ کی وہ رپورٹ ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 2017 میں ہندوستان میں حکومت کے ناقد رہے میڈیا اداروں پر مبینہ طور پر دبائو بنایا گیا یا انہیں ہراساں کیا گیا۔ امریکی وزرات خارجہ نے سال 2017 کے لیے اپنی سالانہ انسانی حقوق رپورٹ میں کہا،بھارت کا آئین اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے لیکن اس میں پریس کی آزادی کا واضح طور پر ذکر نہیں ہے۔ بھارت کی حکومت عام طور پر ان حقوق کا احترام کرتی ہے لیکن ایسے معاملے بھی ہوئے ہیں جن میں حکومت نے اپنے ناقدین میڈیا اداروں کو مبینہ طور پر پریشان کیا اور ان پر دبائو ڈالا ہے۔رپورٹ میں بطور خاص این ڈی ٹی وی پر سی بی آئی کے چھاپے، انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر کے عہدے سے بابی گھوش کی الوداعی ، کارٹونسٹ جی بالا کی گرفتاری ،کرناٹک کی صحافی گوری لنکیش اور تریپورہ کی شانتنوبھومک کے قتل کا ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں 54صحافیوں پر 54 مبینہ حملے، جن میں کم از کم تین کیس نیوز چینل کو محدود کرنے کے، 45 انٹر نیٹ بند کرنے کے اور 45 غداری کے افراد اور گروہوں سے متعلق معاملات کا ذکر ہے۔ہفتہ بھر کی اہم خبروں کی روشنی میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کس جانب پیش قدمی کر رہا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کے قدآور لیڈر یشونت سنہا نے برسراقتدار پارٹی سے اپنا رشتہ توڑ لیا ہے اور کہا ہے کہ ملک کی صورتحال تشویشناک ہے،جمہوریت خطرے میں ہے، اگر ہم موجودہ صورتحال کے خلاف کھڑے نہیں ہوئے تو آنے والی نسل ہمیں معاف نہیں کریں گی!