تحریر: نادیہ خان بلوچ
15 جولائی 2016 کی شب ترکی میں ترک فوج کے ایک چھوٹے گروپ نے بغاوت کرکے ترک حکومت پر حملہ کردیا. ترک صدر نے موبائل کے ذریعے عوام کو سڑکوں پر نکلنے جمہوریت بچانے کی اپیل کی. ترک عوام نے اس آواز پر لبیک کہا. بمباریوں، گولیوں اور ٹینکوں سامنے سینہ سپر ہوگئے. گولیاں کھائیں، ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے مگر طیب اردگان کی حکومت اور جمہوریت بچا کے پوری دنیا میں ایک تاریخ رقم کردی اور ثابت کردیا ہم زندہ قوم ہیں ہمارا شعور زندہ ہے. ہم فیصلہ کریں گے کس کو حکومت کرنی ہے کس کو نہیں. عوامی حمایت کی وجہ سے یہ بغاوت ناکام ہوگئی. بغاوت ناکام ہونے کے بعد باغیوں کے سرخیل 5 جرنیل اور 29 کرنل حراست میں لیکر فارغ کر دیے گئے اور 2 ہزار کے قریب نچلے درجے کے آفیسرز اور سپاہی گرفتار کرلیے گئے جن پر سخت مقدمات چلیں گے. ترک صدر طیب اردگان کے مطابق انہیں عبرتناک سزائیں دی جائیں گی تاکہ آئندہ کوئی ایسا کرنے کا سوچے بھی نہ. اور ترک فوج کو غداروں سے بھی پاک کیا جائے۔
ترک صدر نے پھانسیوں پر سے بھی پابندی ہٹانے کا فیصلہ کرلیا ہے. سننے میں آیا ہے باغی فوجیوں کیلئے ایک الگ قبرستان بنایا جارہا ہے جس میں ان فوجیوں کو پھانسی دینے کے بعد دفنایا جائے گا: اس قبرستانکا نام غداروں کا قبرستان ہوگا. جہاں صرف غدار لوگ دفن کیے جائیں گے. اور اس وقت پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے جس پر امریکہ خاصی تنقید کررہا ہے. بھائی امریکہ تنقید کیوں نہ کرے انہی کی تو سازش ناکام ہوئی ہے. خیر ترکی کا معاملہ تو ترکی تک رہا اب اگر ذرا اپنے پاکستان کی بات کی جائے تو ترکی کی ناکام بغاوت کے بعد پاکستان میں جمہوریت کے ڈھنڈورچیوں کے دل چوڑے ہوگئے ہیں جیسے ترکی میں نہیں پاکستان میں بغاوت ناکام ہوئی ہو. پاناما لیکس کا شور کم کرنے کیلئے بھی احتجاجیوں کو ترکی کی مثال دی جارہی ہے. کہ جیسے ترک عوام نے کیا بالکل ویسا ہی پاکستانی عوام کرے گی. جمہوریت کا ڈھول پیٹا جارہا ہے نگارا بجایا جارہا ہے. مگر سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کیا تالی ایک ہاتھ سے بجتی ہے؟ کیا ترکی اور پاکستان کے حالات ایک جیسے ہیں؟۔
ہرگز ہرگز نہیں. ترکی اور پاکستان کے حالات میں اگر کوئی چیز مشترک ہے تو صرف یہ کہ دونوں اسلامی ملک ہیں. باقی سیاسی، حکومتی حالات سب مختلف ہیں. ترکی میں اگر فوجی بغاوت ناکام ہوئی تو اسکی بھی کئی وجوہات ہیں. اگر بغاوت کے خلاف عوام سڑکوں پر آئی ہے تو اسکی سب سے بڑی وجہ ترک صدر کا عوام کے ساتھ رشتہ ہے. طیب اردگان نے خود کو ترکی کا مالک اور عوام کو جانور سمجھنے کی بجائے خود کو عوام کا منتخب نمائندہ اور خادم سمجھا. ملک پر عوام کا حق جانا تبھی عوام بھی ان کیلئے جان دینے کو بھی تیار تھی۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ پوری ترک فوج نے نہیں بلکہ فوج میں موجود ایک چھوٹے گروپ نے بغاوت کی جسے کسی سرکاری پارٹی یا پھر بڑی سیاسی جماعت کی جانب سے ملک میں حمایت حاصل نہیں تھی. ترک آرمی دنیا کی ساتویں بڑی آرمی ہے اگر پوری فوج بغاوت کرتی تو حالات اس کے برعکس ہوتے. تب عوام کی حمایت بھی کام نہ آتی. جب کہ پاکستان میں کچھ بھی ایسا نہیں. ایک سال سے قبل ہی فوج کو بلانے کے پوسٹر شہروں میں سر عام لگائے جارہے ہیں وہ بھی خود سیاسی قیادتوں کی جانب سے. جنوری میں جب راحیل شریف صاحب نے واضح طورپر کہا کہ وہ اپنی مدت ملازمت میںکوئی توسیع نہیں چاہتے تو تب ایک غیر معروف سیاسی پارٹی کی جانب سے شہر بھر میں پوسٹر لگائے گئے اس وقت ان بینرز میں کہا گیا تھا کہ “جانے کی باتیں جانے دو”. تب بھی ان پوسٹر کے خلاف کوئی عملی اقدام نہ اٹھایا گیا۔
اب ایک بار پھر 6 ماہ بعد ملک بھر میں دوبارہ اسی سیاسی پارٹی نے ایک نئے نعرے کے ساتھ یعنی “جانے کی باتیں ہوئی پرانی، اب آجاؤ” پیغام دیا ہے. پاکستان میں تو بارہ ماہ چند سیاسی پارٹیاں فوج کو بلانے حکومت کو گرانے کا مطالبہ کرتی رہتی ہیں. تحریک انصاف کے دھرنے کے وقت بھی کچھ سیاسی لوگوں کی یہی خواہش تھی کہ ملک میں مارشل لا لگ جائے اور وہ ماضی کی طرح فوج سے معاہدہ کر لیں. اگر ویسے بھی دیکھا جائے تو عوام حکومت سے زیادہ فوج پر بھروسہ کرتی ہے. کیونکہ جس طرح فوج نے ملک سے دہشت گردی کو مٹایا، کراچی آپریشن کے ذریعے ملک میں امن و امان قائم کیا عوام اس سب کو بہت مانتی ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ راحیل شریف اس بات کے خواہش مند ہرگز نہیں. اگر پھر بھی اگلے دو ماہ میں سیاسی حالات، پاناما کا ہنگامہ، اپوزیشن کی احتجاجی تحریک اور حکومت کی وہی “میں بیمار، مجھے آرام درکار” کی رٹ رہی تو ہوسکتا ہے ملک میں ایک بار پھر مارشل لا لگ جائے. اگر ایسا ہوا تو عوام خود ٹینکوں پر چڑھ کے آرمی کا ساتھ دے گی. یہ جو کہہ رہے ہیں ترکی میں ناکام بغاوت میں پاکستان میں مارشل لا کے حامیوں کیلئے سبق ہے یہ بات بالکل غلط ہے. پاکستانی عوام پچھلے 69 سالوں میں مارشل لا کی عادی ہوگئی ہے. ماضی میں جب 12 اکتوبر 1999ئ کو فوج نے اقدام اٹھایا تھا اس وقت بھی حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل تھی. اپنی کرسی کے مضبوط دعوے دار تھے مگر پھر جو ہوا سب نے دیکھا. عوام نے اس اقدام کو قبول کیا. اگر ہماری موجودہ حکومت کا یہ خیال ہے کہ ترکی عوام کی طرح پاکستانی عوام بھی انکے لیے بھی سڑکوں پر آئے گی تو پہلے ترک صدر کی طرح لوگوں کے دل جیتنے ضروری ہیں. آپ کیا لوگوں کے دل جیتیں گے آپ کے تو اپنے دل کے بخیے پاناما لیک نے ادھیڑ دیے۔
ہماری عوام خاندانی سیاست سے تنگ آچکی ہے. جمہوریت کی حمایتی ہوکر بھی عوام جمہوریت پر بھروسہ نہیں کرتی. عوام کا حکمرانوں سے رشتہ مظبوط ہونے کی بجائے دن بدن کمزور ہوتا جارہا ہے. ہمارے حکمران خود کو پاناما کے احتساب سے بچانے کیلئے آرام درکار کے بہانہ پر جاتی امرا تک ہی محدود رہ گئے ہیں. ملک تو اللہ کے حوالے ہے. ویسے بھی آرمی ہی چلا رہی ہے ہر چھوٹے سے چھوٹے مسلے کیلئے بھی آرمی کو آواز دی جاتی ہے اگر آرمی نے ہی سب کچھ کرنا ہے تو پھر یہ برائے نام وزارت بھی اسی کو سونپ دی جانی چاہیے۔
میاں صاحب کو بھی سوچنا چاہیے کہ ایسا کونسا جذبہ ہے جس نے ترک عوام کو ٹینکوں کے آگے لیٹنے پر مجبور کردیا. آپ تو علاج کیلئے بھی ملک سے باہر گئے تو لوگوں نے آپ کے آپریشن تک کو بھی ڈرامہ کہا اب کیا خاک آپ کیلئے لڑیں گے. میاں صاحب ہم مارشل لا کے حمایتی تو نہیں مگر جھوٹی بات کہنے کے حق میں بھی قطع نہیں. اگر آپ کو ہم سے ترک عوام جیسی حوصلہ افزائی اور بہادری چاہیے تو آپکو بھی ترک صدر طیب اردگان کی پالیسی اپنانی ہوگی. کیونکہ میں نے بڑوں سے سنا ہے تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی.
ایک شاعر نے بھی کیا خوب کہا ہے. مجھے یہ شعر اس موقعے کیلئے یاد آرہا ہے۔
“ہماری شرط وفا یہی ہے
وفا کرو گے، وفاکریں گے
تحریر: نادیہ خان بلوچ