تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال
مسلمانوں میں کام چوری، کرپشن،اور سب سے بڑھ کر سہل انگاری وغیرہ جب سے پیدا ہوئی ہے تب سے ملت اسلامیہ زوال کا شکار چلی آ رہی ہے ۔اس سے جو سب سے زیادہ نقصان ہوا وہ ہے اسلامی اصولوں سے روگردانی ہے جس سے زوال مقدر بن گیا ۔اسلامی اصولوں سے روگردانی کا مطلب ہے اللہ نے جو نظام حکومت بندوں کے لیے مقرر فرمایا کہ اس کے مطابق فیصلے کیے جائیں اس کے مطابق اصول و قوائد اور قوانین بنائے جائیں نہ کہ ان سے بہتر اللہ کے بندوں کے بنائے ہوئے نظام حکومت کو ماننے لگ جائیں بلکہ اس کو اسلامی قرار دیں جیسا کہ آج کل جمہوریت کے بارے میں کہا جاتا ہے۔
مجھے اس بارے میں زیادہ علم نہیں ہے کہ جمہوریت عین اسلامی کیسے ہو سکتی ہے جس میں علم والے اور جاہل برابر ہیں اور دو جاہل ایک عالم سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں جمہوریت کے بارے میں مگر پریشانی اس وقت ہوتی ہے جب ہمارے مذہبی علماء مثلا ڈاکٹر طاہر القادری ،جناب سراج الحق اور مولانا فضل الرحمن جیسے علماء جمہوریت کے لیے رطب السان ہوں ۔
غم نصیب اقبال کو بخشا گیا ماتم ترا حضرت صلاح الدین ایوبی کا فرمان ہے کہ حکمران جب اپنی جان کی حفاظت کو ترجیح دینے لگیں تو وہ ملک و قوم کی آبرو کی حفاظت کے قابل نہیں رہتے ۔مسلمان حکمرانوںکواپنی ہی عوام سے خوف آنے لگا اور اربوں روپے اپنی حفاظت پر خرچ ہونے لگے عوام سے اپنی جان کو خوف اس لیے ہوا کہ عوامی مفاد کی بجائے اپنے مفاد میں فیصلے کیے ،عوام کو ان کا حق نہیں دیا ،خود کرپشن کرنے لگے ، مال جمع کرنے لگے ۔ ایسے جیسے اس دنیا میں ہمیشہ رہنا ہو۔
ایسا پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں ہوا ۔امریکہ نے جیسا کہ سب جانتے ہیں پورے عالم اسلام کے ممالک میں اپنی سیاسی گرفت قائم کر رکھی ہے اس لیے امریکہ کو خوش کرنے کے لیے مسلمان حکمران اس کی بولی بولتے ہیں اس کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اسی لیے جمہوریت سب سے بہترین نظام حکمرانی قرار دہتے ہیں کیونکہ اس سے ان سب کے مفادات وابستہ ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ مسلمان رہنما ئو ں کی دوغلی سیاست نے ان کے دہرے معیار نے خود مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچایا تو شائد غلط نہ ہو۔
جب ایسا کہا جاتا ہے تو اس نظام کے جن سے مفادات وابستہ ہیں وہ ایسی باتیں کرتے ہیں جیسی کہ میں نے شوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھی جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو کوئی اسلام کو گالی دینا چاہتا ہے مگر عوامی دبا ئو سے دے نہیں سکتا تو وہ ملا کو گالی دے لیتا ہے ۔اس کا مطلب ہوا ملا اور اسلام کی حرمت برابر ہو گی ،بلکہ ملا کا اسلام ہی اصل اسلام ہو گیا اور یہ ملا بے شک دوسرے ملا کو گالی دیتا رہے ۔ مولانا عبد الستار خان نیازی نے ایک بار کہا تھا کہ بعض مولوی امریکی اور یہودی لابی کے پیروکار ہیں۔
غم نصیب اقبال کو بخشا گیا ماتم ترا بات ہو رہی تھی زوال کی اس کے اسباب کی اور حل کی ۔موت کا خوف ،مال کی محبت ،سہل پسندی اور مسلمان رہنما ئو ں کا اپنے مفادات کے لیے اسلامی قانون سے روگردانی وغیرہ کا ذکر ہو چکا اسی سے جڑے ہوئے چند اور اسباب مثلا نظام تعلیم و تربیت میں خامیاںجیسا کہ سائنس کو اتنی اہمیت نہ دینا جتنی دی جانی چاہیے تھی ہمارے ہاں سائنس رٹا لگا کر پڑھائی جاتی ہے ،نصابی کتابوں کو بدلتے وقت کے ساتھ اپ ڈیت نہیں کیا جاتا ،پوری دنیا میں جس نے بھی ترقی کی ہے
اس نے علم کی وجہ سے کی ہے دین اسلام میں تو قرآن کی ابتدائی آیات ہی اقرا سے شروع ہوتی ہیں جس میں پیدائش کا ذکر سائنسی بنیادوں پر کیا گیا ہے سائنس بھی علم ہے مختصر یہ کہ زمانے کی بصیرت کے مطابق علم ہمارے ہاں ہمارے نوجوانوںکو نہیں دیا جا رہا ہمارے ہاں تعلیمی زوال کا مختصر جائزہ لیا جائے تو اسباب یہ ہیں ۔نصاب تعلیم میں جامعیت نہیں ہے ۔دو نہیں بہت سے تعلیمی نظام رائج ہیں ،ماہر اساتذہ کی کمی ہے ،طریقہ تعلیم میں خامیاں ہیں، طلبا کو رٹا لگوایا جاتا ہے سمجھایا نہیں جاتا۔آسان حل پانچ سالہ اولڈ پیپرز کو یاد کرو اور ایم اے کر لو امتحان پاس کرنا ،ڈگری کا حصول اور نوکری مقصد تعلیم ہے۔
غم نصیب اقبال کو بخشا گیا ماتم ترا ہمارے ملک کے معاشی حالت بہت خراب ہیں اس کے لیے کہ اپنے وسائل کو درست طور پر استعمال نہ کیا جا سکا اور آنے والے دنوں میں بھی اس کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ۔اس کا سبب بھی حکومت ہی ہے حکومت جو بھی ہو کیونکہ جب حکمرانوں کے اپنے کاروبار بیرون ممالک ہوں گے ان کے اپنے پیسے دوسرے ملکوں کی بینکوں میں ہوں گے تو ملک خاک ترقی کرے گا۔
غم نصیب اقبال کو بخشا گیا ماتم ترا اس طرح کے بے شمار اسباب ہیں جن سب کا ذکر اس کالم میں ممکن نہیں ہے کالم کے آ خر میں ایک بہت قابل توجہ بات کہ یہ دور میڈیا کا ہے اس میں ایک بہت قابل قدر طبقہ ایسے صحافیوں کا ہے جو صاحب علم ہیں اور وطن کے لیے کام کر رہے ہیں اگر یہ صحافی حقیقت میں اتحاد کر لیں تو ملک کی کایا پلٹ سکتے ہیں اگر یہ وطن کے لیے ذاتی مفادات کی بجائے کام کرنا شروع کر دیں ان میں اتحاد ہو جائے یہ سیاسی پارٹیوں کے نظریاتی محافظ نہ بنیں بلکہ پاکستان اور اسلام کے نظریاتی محافظ بن جائیں۔
مسلمان اور پاکستانی بن کر سوچیں تو پاکستان میں تبدیلی آ سکتی ہے یہ جو زوال ہے عر وج میں بدل سکتا ہے یہ اصل اپوزیشن کا کردار ادا کریں تو کوئی بھی حکومت ذاتی مفادات پر ملکی مفادات کو قربان نہیں کر سکے گی ۔لیکن اس میں بھی کالی ،نیلی ،پیلی بھیڑیں موجود ہیں۔ غم نصیب اقبال کو بخشا گیا ماتم ترا چن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم ترا۔۔