لاہور (ویب ڈیسک) سردار اختر مینگل نے تحریک انصاف کی اس وقت مدد کی تھی جب کپتان کو ان کے چار ووٹوں کی اشد ضرورت تھی اور انہوں نے قومی اسمبلی کے چار ووٹ کپتان کو اس لیے دیے کہ ان کے عوض ان کے کچھ مطالبات تھے۔ کپتان کو تو ہر صورت میں وزیر اعظم بننا تھا نامور کالم نگار وکیل انجم اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ان سے ایک تحریری معاہدہ کیا گیا ۔ ڈیڈ لائن مقرر تھی۔ عین اس وقت جب کپتان کچھ اور لوگوں کی چھتر چھاؤں میں بیٹھے اور سب نے نواز شریف اور اپوزیشن سے بدلے لینے کی ٹھانی احتساب کے نام کا ڈنکا بجا دیا۔ نیب بھی حرکت میں آ رہی ہے۔ جب چیئر مین نیب ٹیلی وژن پر آ کر وزیر اعظم عمران خان کی تعریف کرے تو ایسا منصف لاکھ کہے احتساب سب کے لیے ہے مگر عملاً یہ ادارہ کپتان کے اس وعدے کو پورا کرنے کی راہ لے چکا ہے کہ 50 اپوزیشن کرپٹ لیڈروں کو جیل میں ڈالیں گے ۔ یہ تو جا بر سلطان کے حکم پرپوچھ کر کلمہ حق کہنے والی بات ہو گئی۔ نیب کی جانب سے گرفتاریوں پر ممبر قومی اسمبلی نوید قمر نے تاریخی الفاظ کہے ’’ گرفتاریوں کا یہ سلسلہ جاری رہا تو آئندہ قومی اسمبلی کا اجلاس ’’ اڈیالہ جیل ‘‘ میں ہو گا ۔ اس منظر نامے نے اس وقت دلچسپ موڑ لیا جب نیب نے خواجہ سعد رفیق کو گرفتار کیا ۔ جس پر سخت رد عمل سامنے آیا۔ ایک رد عمل ہمارے سپہ سالار کا تھا جو کسی ایک مقدمے کے بارے میں نہیں بلکہ پاکستان کے اداروں کے حوالے سے تھا کہ فوج اداروں کے ساتھ کھڑی ہے ۔ اس سے قبل پی ٹی آئی کے بارے میں ترجمان اسٹیبلشمنٹ کا بیان آیا اس پر بھی کچھ حلقوں کی جانب سے سخت رد عمل آیا۔ نیب کا اب تک کا طریقہ واردات رہا ہے۔ کپتان کی طرح پگڑیاں اچھالے۔ ایسے ریمارکس تو عدالت عظمیٰ کی طرف سے بھی آ چکے ۔صورت حال یہ ہے کہ وہ خود کچھ نہیں کرتا بلکہ ہر مقدمے میں کسی نہ کسی کو وعدہ ’’ معاف گواہ‘‘ بننے پر زور دیتا ہے۔ دوسرکاری اہلکار جیل میں ہیں۔ ان کو اس لیے پکڑا گیا وہ اس دور کے ’’ مسعود ‘‘ نہیں بنے۔ فیڈرل سکیورٹی فورس کے سربراہ کی حیثیت سے مسعود محمود نے بھٹو کی جی بھر کر خوشامد کی ۔ بھٹو نے اگر کسی کو سبق سکھانے کی بات کی مسود محمود نے تو اس کا قصہ ہی صاف کر دیا پھر بھی مسعود محمود وعدہ معاف گواہ بن گیا اور بھٹو کو پھانسی کا راستہ دکھا دیا ۔اب دونوں افسر ڈٹے رہے انہوں نے مسعود محمود بننے سے انکار کر دیا ۔ شہباز شریف کے خلاف نیب میں جتنے بھی مقدمات کھولے کسی میں کمیشن یا کرپشن کا سراغ نہ مل سکا۔ اب شہباز شریف کیوں جیل میں ہے۔ امیر شہر کا حکم ہے کوئی سر اٹھا کر نہ چلے کیوں کہ وہ اور ہم ایک پیج پر ہیں۔ نیب کے دو غلے پن کا بھانڈا پھوٹ چکا ہے۔ اب اگر وزیر اعظم کہے کہ یہ کہیں گے جمہوریت خطرے میں ہے۔ مگر یہاں تو بازی پلٹ چکی ہے۔ خواجہ سعد رفیق کی گرفتاری نے حکمران جماعت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے ۔ سردار اختر مینگل جو حکمران جماعت کے اتحادی ہیں۔ قومی اسمبلی کے لیے سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیے اپوزیشن نے شہباز شریف کی قیادت میں بائیکاٹ کیا۔ سردار اختر مینگل بھی بائی کاٹ کرنے والوں میں شامل تھے پھر ریاض فتیانہ نے بھی بیان داغ دیا۔ اور بھی تحریک انصاف کے اڑان بھرنے والے ممبران کے نام آئے تو کپتان نے کہا فاروڈ بلاک بنتا ہے تو انہیں کوئی پروا نہیں ۔ یہ دعوی انہوں نے خود کیا ہے۔ پارلیمانی آداب کے مطابق آپ کو پروا ہونی چاہیے کیوں کہ آپ کی وزارت عظمیٰ کی گدی خطرے کی زد میں آ گئی ہے۔ آپ کوکسی غیبی طاقت کی مدد کی ضرورت ہے اور مدد حاصل ہے تو الگ بات جو بھی آپ کی مدد کرے گا وہ آئینی تقاضوں سے باہر ہو گی جب کپتان کی مجلس شوریٰ نے بیٹھ کر سوچا تو انہیں معلوم ہوا کہ بلوچستان سے بڑا سیاسی طوفان ایک بار پھر اٹھ رہا ہے۔اب نواز شریف بھی اس بات کے لئے رضا مند ہو چکے ہیں کہ حکمرانوں کو جمہوریت کی پروا نہیں ۔ وہ کرپشن کا شور اس لیے مچا رہے ہیں کہ اپوزیشن کو بد نام کیا جائے۔ عوام دیکھ رہے ہیں۔ آصف زرداری سے سردار اختر مینگل کی ملاقات نے طوفان اٹھا دیا ہے۔ اب جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی منت ترلے کرنے جا رہے ہیں۔ سردار اختر مینگل کی سیاست کو دیکھا جائے تو حکومت کے لیے ان کو منانا مشکل کام ہے ۔ کسی لالچ میں وہ آنے والے نہیں ۔ آپ کی وزارت پر انہوں نے پہلے ہی لات مار دی تھی ۔ جو معاہدہ آپ نے کیا اس کی وہ شکایات کر رہے ہیں۔ جو معاملہ انہوں نے اٹھایا ہے وہ میرے کپتان کی پہنچ سے بہت دور ہے ۔ ایم کیو ایم بھی ناراض ہے مگر وہ کر کچھ نہیں سکتی ۔ اسی تنخواہ پر کام کرے گی ۔ اپوزیشن کو کافی شکایات ہیں مگر عمران خان قسمت کا دھنی ہے ان کو کافی رعایت ملتی آئی ہے ۔ ان کے خلاف نیب میں بھی مقدمات ہیں اور عدالتون میں بھی نواز شریف کے مقابلے میں ان کا بال بیکا نہیں ہوا۔ ایک عزت ہتک کا مقدمہ نجم سیٹھی کا ہے ۔ شہباز شریف کا ہے اور افتخار محمد چوہدری کا ہے مگر سالوں ہو گئے کچھ نہیں ہوا۔ بنی گالہ کی تعمیر ضابطہ کی خلاف ورزی پر کوئی ایکشن سامنے نہیں آیا۔ سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے کا ریفرنس ہے نیب کو کوئی جلدی نہیں ’’ فیڈزون‘‘ میں کپتان کو لایا گیا جو تماشا ہوا کھل کر دہشت گردی ہوئی کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ آف شور کمپنی نکلی صادق اور امین بن کر نکلے عدالتوں کو بے شرم کہا تو ہین عدالت کا مقدمہ چلا۔ قدرت کی مہربانی تھی۔ جھوٹ پر جھوٹ بولا گیا دھاندلی ہوئی کچھ نہیں بنا۔ وزیر اعظم بننا تھا سیاست کا کھیل اکثریت نہیں ملی کوئی بات نہیں ۔ آزاد ارکان کو ملایا گیا پھر بھی اتنے ووٹ نہیں ملے ۔ اختر مینگل نے ساتھ دیا بھی مشروط ہاتھ ملایا۔ ق لیگ کے ارکان کو ساتھ لیا، ایم کیو ایم ملی بلوچستان کی ’’ باپ ‘‘ ساتھ ملی۔ اور بھی ایک ایک دو ووٹ والے تھے ۔ اب شیرازہ بکھر رہا ہے۔ وزیر اعظم کی کرسی ہلنے لگی ہے۔ مگر ان کو اندازہ ہے کوئی تو ہے جو ان کو گرنے نہیں دے گا۔ خاتون اول کے وظیفے بھی تو ہیں۔ پھر بھی لرزا طاری ہے۔ آصف زرداری ایک بار پھر بولے ہیں۔ کچھ رازوں سے پردہ اٹھایا ہے اہم بات یہ ہے کہ وہ اس دن بولے ہیں جب مشرقی پاکستان دو لخت ہوا۔اس سانحہ کے ذمہ داروں میں یحییٰ خان بھی تھے۔ وزیر خزانہ اسد عمر کے والد جنرل عمر بھی تھے۔ ان کو بھٹو کے مشرقی پاکستان کے ذمہ داروں کی فہرست میں شامل کر کے نظر بند کر دیا تھا۔ سقوط ڈھاکہ کافی دل دکھانے والی بات ہے۔ اس سانحہ کو تاریخ کے صفحات سے ادھیڑنے کا عمل کامیاب ہو رہا ہے۔ غلطیاں یحییٰ خان نے کیں اور کھل کر کیں۔ جنرل خالد محمود عارف، روئیداد خان، جنرل جہاندادار خان، حمود الرحمن کمیشن جتنے بھی جرنیل تھے سب نے یحییٰ خان کے شراب اور شباب کی باتوں کو نظر انداز نہیں کیا ۔ اقلیم عرف رانی تو یحییٰ خان کی زندگی میں ہی سارے راز کھول دیے۔ پیپلز پارٹی کی سیاست سمجھ میں آنے والی نہیں ہے۔ آصف زرداری نے حیدر آباد میں جلسہ کیا سوال اٹھایا، جس کی نوکری کی مدت تین سال ہو اسے قوم کے فیصلے کرنے کا کیا حق ہے۔ قوم کے فیصلے کرنے کا حق صرف پارلیمنٹ کو ہے۔پیپلز پارٹی کی کہانی سمجھ سے بالا تر ہے کبھی وہ ’’ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں اور کبھی نہیں ۔ یہ سب کچھ 1958 ء سے شروع ہوا ہے جب بھٹو نے ایوب خان کی سر پرستی میں سیاست شروع کی۔ پھر 1966 ء کا سال بھٹو نے ایوب کی مخالفت میں گزارا۔ 1967 ء میں پارٹی بنی اس کو 4 سال ہو چکے۔ بھٹو کو اقتدار ملا فوج کی مہربانی سے پھر ضیاء الحق نے انہیں ہٹا دیا۔ پھر بے نظیر کو جنرل مرزا اسلم بیگ کی وجہ سے وزارت عظمی پر بٹھا دیا ورنہ جونیجو حکومت تو بحال ہو رہی تھی۔ پھر بی بی پر سکیورٹی رسک کی طعنہ زنی کر کے نکال دیا اپنے نئے مہرے نواز شریف کو آنے کا موقع ملا پھر بے نظیر اور غلام اسحاق خان، ’’جنرل کاکڑ‘‘ فارمولا پر رضا مند ہوئے۔ دوسری بار بھی بے نظیر کو اقتدار میں خفیہ ہاتھ ہی لایا۔ اسے اپنے ہی جیالے صدر نے بھی چلتا کیا۔ پھر نواز شریف آئے اور وہ بھی مشرف کی وجہ سے جلا وطن ہوئے۔ مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی اچھی بات یہ ہوئی کہ اس نے 2006 کے بعد ماضی کی محاذ آرائی ختم کر دی ۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے ’’ چار ٹر آف ڈیمو کریسی کا عہد کیا۔ البتہ دونوں آئین پاکستان کے مخافظ ہیں۔ بے نظیر جو نواز شریف کو ضیاء الحق کی باقیات کہتی تھیں۔ اسی سے مل کر 13 ویں ترمیم کی ۔ جس سے 1973 کے آئین کو درست سمت پر لانا نواز شریف کا کارنامہ ٹھہرا۔ اس ترمیم سے فاروق لغاری جو ضیاء الحق جیسے اختیارات رکھتے تھے وہ محض آئینی صدر بن کر رہ گئے۔مشرف نے آئین کی دو مرتبہ توہین کی مگر آصف زرداری اور نواز شریف نے اسے پھر درست کیا۔ آصف زرداری موجودہ حکمرانوں سے جان چھڑانے کا اعلان کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے لیے بلوچستان سے اچھی خبر 9 ارکان کے بارے میں مبینہ طور پر کہاجاتا ہے وہ عمران خان سے نجات چاہتے ہیں۔ نواز شریف الیکشن کے لیے تیار ہیں۔اب سپیکر کا ووٹ بھی کاسٹ نہیں ہو گا ۔ عدم اعتماد آ رہی ہے۔ پتہ چل جائے گا عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے کون پیچھے آئے گا۔