تحریر : سید شہاب الدین
جمہوریت کا لفظ دو یونانی الفاظ (Demo) یعنی جمہور(عوام ) اور Kratosیعنی حکومت (سلطنت) سے نکل کر بناہے،لغوی اعتبار سے اس کے معنی ہے ”عوام کی حکمرانی ”۔جمہوریت ایک ایسی سلطنت اور حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات مکمل طور پر عوام کو حاصل ہوتے ہیں،سادہ لفظوں میں جمہوریت کی تعریف یوں کی جائے گی! کہ لوگوں کی اکثریت کی بات ماننا یا اکثریت کا فیصلہ تسلیم کرنا ۔اس کا عین مطلب اور مقصدکچھ یوں ہواکہ جمہوریت میں اصل حکمرانی عوام کی ہوتی ہے ،جمہوریت سے پیوستہ لفظ سیاست ایک ایسا عمل اور طریقہ کار ہے جس کے ذریعے عوامی مسائل اور مشکلات کا حل نکالا جاتا ہے ۔ریاستی فیصلوں کے ذریعے منصوبہ بندی اپنا کر دیرپا حل تلاش کیا جاتا ہے ،اسی طرح اگر سیاست کے مقصد پرغور کیا جائے تو نتیجہ یہ اخذکیا جاسکتا ہے کہ اقتدار حاصل کرکے عوام کو ان کے حقوق دہلیز پر فراہم کئے جائیں اور جمہوری روایات کے عین مطابق ہی ملک کا انتظام چلا یا جائے ،سیاست ویسے تو ہر ملک میں ہوتی ہے اور اسی طرح جمہوریت بھی دنیا کے اکثریت ممالک کی زینت بنی ہوئی ہے ،یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں جمہوریت مقابلہ آمریت کے فسانے ہی فسانے رہے ہیں ۔پاکستان کو معرض وجود میں آئے 68سال کا عرصہ بیت گیا ہے۔
اس عرصہ کے دوران جمہوریت کبھی نہیں ٹکی ہے اور ہمیشہ سیاستدانوں کی غلطیوں یا عدم برداشت کی وجہ سے مارشل لاء لگا کر جمہوریت کا پہیہ روک دیا گیا ،یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں ابتداء سے ہی سیاست کو دھوکہ اور فریب کا ذریعہ بنایا گیا عوام نے ہر بار دھوکہ کھا کر سیاستدانوں اور جمہوری پارٹیوں کو آزمایا لیکن ستم بالائے ستم کہ ان جمہوری جماعتوں نے اقتدار میں آکر نہ صرف عوام کو ٹرخا یا بلکہ خود اپوزیشن جماعتیں ،حکمران جماعت کی ٹانگیں کھینچنے میں لگی رہتی ہیں اوریوں جمہوریت کا پھل عوام کو ملتا نہیں ،یہی وہ وجہ ہے کہ پاکستان کو بنے 68سال کی عمر میں آدھی تک عمر فوجی حکومت اور دیگر عرصہ میں جمہوری حکومتیں براجمان رہی ہیں۔
لیکن پاکستان اورباسیوں کو اس کے ثمرات نہیں مل سکے۔پوری دنیا کے نظام کو دیکھا جائے تو وہاں پرحقیقی معنوں میں عوام کی حکمرانی ہوتی ہے لیکن وطن عزیز میں عوام کو ہمیشہ محکوم اور عضوئے ناکارہ سمجھ کر نظر انداز کردیا گیا ہے ،یہ بات بھی عیاں ہے کہ عوام اب سیاست اور جمہوریت سے نہ صرف نالاں بلکہ مایوس ہوتے نظر آرہے ہیں ،سیاسی جماعتوں کو نشیب وفراز اور بدترین شکست کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن سب اچھا ہے یا سیاستدانوں کے مابین مک مکا ہونے کے تناظر میں ان کا رویہ عوامی نہیں ہوتا ،کوئی روٹی کپڑا مکان پر عوام کوبے وقوف بناتے ہیں تو کوئی اسلام اور کوئی قرض اتارو ملک سنوارو اور کوئی تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہیں۔
2013کے انتخابات میں ملک میں ایک بار پھرانتخابات ہوئے تو پنجاب میں اکثریت اور تین صوبوں میں شکست کے باوجود مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہوئی ،البتہ دو صوبوں میں مسلم لیگ ن کو کامیابی نہ مل سکی۔ سندھ میں پی پی پی اور کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی ،اس حکومت کو بھی قائم ہوئے اڑھائی سال سے زائد کا عرصہ بیت گیا ہے لیکن نہ بجلی بحران پر قابو پایا جاسکا ہے نہ گیس کی کمی پوری ہوسکی ہے نہ بے روزگاری ختم ہوئی اور نہ ہی مہنگائی کو بریک لگے۔حتیٰ کہ بدامنی اور بارود کی برسات کے پائوں بھی نہ روکے گئے۔عوام آج بھی پینے کے پانی کے لئے تڑپ رہے ہیں ،سڑکیں تباہ اور معیشت نام کی کوئی چیز نہیں ،غربت کی سطح بھی خطِ غربت سے نیچے چلی گئی ہے لوگ خودکشیوں پر مجبور ہیں ،صحت اور تعلیم کی سہولیات عوام کے لئے خواب بن کر رہ گئی ہیں۔
آج بھی تعلیم یافتہ نوجوان بیرون ملک یا اندورن ملک کوئلے کی کانوں میں مشقت کرنے پرمجبور ہیں ،خیبر پختونخوا میں تبدیلی والوں نے حکومت سنبھالی تو عوام یہ آس لگائے بیٹھی تھی کہ اب تو حالت بدل جائے گی لیکن اڑھائی سال گزرگئے لیکن کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی۔ اب کی بار عوام مرکز اور صوبے کے مابین ہونے والی لڑائی میں خوار ہونے لگے ہیں ۔سوات کی بات کی جائے تو تحریک انصاف کے ممبران قومی اسمبلی تو سرے سے نظر ہی نہیں آرہے البتہ ایک آدھ ایم پی اے صاحب اخبارات کی زینت ضرو ربنے ہوئے ہیں ،ان حالات میں بھی عوام مایوس ہوئے تیس مئی2015میں بلدیاتی انتخابات ہوئے ،صوبہ خیبر پختونخوا کے چوبیس اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں بلدیاتی نمائندے منتخب ہوئے۔
عوام نے اس امید سے ان بلدیاتی انتخابات میں اپنے رائے دہی کا استعمال کیا کہ ہوسکتا ہے کہ اسی نظام کی بدولت ان کے بڑے مسائل تو ممکن ہی نہیں کم از کم چھوٹے اور گلی کوچوں کے مسائل تو حل ہو پائیں گے لیکن ہوا کچھ یوں کہ ضلعی حکومتیں بنانے میں تحریک انصاف کو کامیابی نہ مل سکی اور چوبیس اضلاع میں سے صرف نو اضلاع میں تحریک انصاف ضلعی حکومت بناسکی ۔مخالف جماعتوں کی اکثریت آئی تو اس کی سزا بھی عوام کو ہی دی گئی ، تحریک انصاف کی حکومت نے بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات میں کمی اور تبدیلیاں کیں ،اب بات اس حدتک پہنچ چکی ہے کہ عوامی نمائندے بھی عوام کے نشانے پر ہیں اور انہیں نہ صرف برابلا کہا جاتا ہے بلکہ ساتھ ہی ان کی سیاسی ساکھ ختم ہورہی ہے دوسری جانب بلدیاتی نمائندوں کی بات کی جائے تو وہ بھی یہ رونا رورہے ہیں کہ ان کے پاس تو کسی قسم کا اختیار نہیں۔
۔ضلع ناظم سوات محمدعلی شاہ تو اس حدتک کہہ چکے ہیں کہ تحریک انصاف حکومت جان بوجھ کر اس بلدیاتی نظام کو ناکام بناناچاہتی ہے ان کے مطابق اس کی واضح دلیل ہے کہ آٹھ ماہ کا عرصہ بیت گیا کہ ابھی تک ضلعی اور تحصیل حکومتوں کو ان کے اختیارات نہیں دئے گئے ہیں اور وہ عوام کے سامنے جانے سے کتراتے ہیں جبکہ صوبائی حکومت انہیں اختیارات دینے کے لئے تیار نہیں۔پہلے تو بات قومی سطح پر سیاستدانوں کے مابین اختیارات کی جنگ چھیڑ کر عوام کے مسائل حل نہیں ہو پارہے تھے اب اختیارات کی جنگ اس حدتک پہنچ گئی ہے کہ گلی کوچوں کی تعمیر اور پانی کی سکیموں پر بھی ایم این ایز اور ایم پی ایز لڑرہے ہیں۔ بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات نہیں مل رہے ہیں حالانکہ حکومت کا وعدہ اور دعویٰ یہی تھا کہ اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کردیاجائے گا جو کہ ابھی تک اس اعلان کو عملی جامہ نہیں پہنچایا جاسکا ہے۔
صوبائی حکومت ایک طرف مرکز سے پرسرپیکار ہے ، اپنے حق کا مطالبہ تو کررہی ہے لیکن دوسری جانب وہ اپنے ہی صوبے میں قائم ضلعی حکومتوں کو اختیارات اور حق دینے کے لئے تیار نہیں جس کی وجہ سے سارا نقصان عوام ہی کا ہورہا ہے نہ عوام کے مسائل حل ہورہے ہیں اور نہ ہی علاقے کی ترقی اور خوشحالی ممکن ہورہی ہے ۔چونکہ بلدیاتی نمائندوں میں بیشتر کا تعلق غریب اور متوسط طبقے سے ہیں اور ان کی گزر بسر بھی اپنی عوام میں ہوتی ہے اس لئے ان نمائندوں کو عوام کی جانب سے ہمہ وقت طعنے بھی ملتے ہیں اور ساتھ ہی مطالبات کے انبار بھی ان کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں ۔اس تمام ترصورت حال پر عمیق نظر ڈالی جائے تو نتیجہ یہی اخدہوگا کہ جمہوریت اور سیاست کی تعریف محض کتابوں اور تحریروں کی حدتک ہے عملی طور پر نہ عوام کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے۔
نہ ہی عوام کی حکمرانی کو تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ ہمارے ملک میں اگر یہ کہا جائے کہ عوام کو غلام اور محکوم سمجھا جاتا ہے تو بے جا نہ ہوگا ،سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کی اس روش کی وجہ سے ہی مارشل کی راہ ہموار ہوجاتی ہے، اگر اب بھی سیاستدانوں نے حقیقی جمہوریت کو پروان چڑھا کر سیاست کے فوائد اور ثمرات عوام کو منتقل نہ کئے تو عوام کا عارضی نہیں بلکہ مستقل طو رپر سیاست اور جمہوریت سے دل اچاٹ ہوجائے گا اور پھر سیاستدان ہی پشیماں ہوں گے۔
تحریر : سید شہاب الدین