دونوں طرف کا ہجوم اپنی اپنی ٹولیوں کے ساتھ خوشیاں منا تا ہوا ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالتا مٹھائیاں تقسیم کر رہا ہے ، درمیان میں ایک خوبرو نوجوان کبھی ایک ہجوم کی طرف دیکھا کبھی حیرت سے دوسرے کو ، شور جب تھم چکا ، نعرے بازی بند ہوئی تو نوجوان نے دائیں جانب کے ہجوم سے پوچھا کہ کس بات پر جشن منایا جا رہا ہے۔
ہجوم نے کہا ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے ہمارے قائد کو نااہل ہونے سے بچا لیا ، البتہ دو ججز کہتے ہیں کہ ہمارا قائد صادق اور امین نہیں ہے جس کی ہم نے کوئی پروا نہیں کیا کسی کے کہنے سے بلکہ کوئی ایسا تو نہیں ہو جاتا ، ویسے بھی یہ باتیں عزت والے کو پریشان کرتی ہیں ، ہمارے قائد کو نہیں ہمیں تو خوشی ہے کہ قومی خزانہ لوٹ کر بھی ہمارے قائد کی کرسی نہیں چھینی گئی بسٝ اس بات کا جشن منا رہے ہیں، نوجوان کی حیرت مزید بڑھی تو بائیں جانب کے ہجوم سے پوچھا کہ آپ کس بات کا جشن منا رہے ہیں تو ان میں ایک کھڑپینچ نے کہا کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے دو ججوں نے ہماری پٹیشن پر فیصلہ جاری کیا ہے کہ اس ملک کے وزیر اعظم چور ہیں، جبکہ باقی تین ججوں نے تفتیشی اداروں کو کہا ہے کہ وہ وزیراعظم اور ان کے فیملی کے افراد کی تلاشی لے کر ہفتہ وار رپورٹ ہمیں جمع کروائیں۔
بسٝ جب سے یہ خبر ملی دل میں لڈو پھوٹ رہے ہیں ، نوجوان نے دوبارہ سوال کیا کہ جشن تو ہمیشہ سے ہی ہم بھی ہار جیت پر مناتے ہیں ، لیکن اس بار تو دونوں پارٹیوں کی جانب سے ہار جیت کا لفظ استعمال نہیں کیا ، ویسے بھی یہ کیسے ممکن ہے کہ ریاستی ادارے ملک کے سب سے طاقتور افراد اور اس کے خاندان والوں کی تلاشی لے سکیں گئے جو خود اسی کے ماتحت کام کرتے ہیں ، یہ تو ملک و قوم سے کھلا مذاق ہے ، ہمارے تو ملک کی تاریخ رہی ہے کہ حمود الرحمان کمیشن، اوجھڑی کیمپ کمیشن ، سکینڈل اور جی آئی ٹی کی رپورٹ کبھی بھی منظر عام پر نہیں یہ کل کی تو بات ہے سانحہ ماڈل ٹائون کی جے آئی ٹی کی جسٹس باقر نقوی کی رپورٹ جسے آج تک شائع نہیں ہونے دی ، کیونکہ بار بار اس ملک کے کھلواڑ اور قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر بیوقوف بنا رہاہے، ہجوم سے پھر آواز بلند ہوئی کہ ایسے ہی تو فیصلے ہوتے ہیں جن کے بارے میں اعلیٰ عدلیہ کے جج نے کہا تھا کہ اسے صدیوں یاد رکھا جائے گا ، جس میں کسی کی ہار جیت نہیں ہوئی لیکن حریف اور حلیف دونوں نے جشن منایا۔
جب سے پانامہ کیس کا فیصلہ آیا ہے تب سے اب تک میرے جیسا کم زور ذہن کا شخص یہی سوچ رہاہے کہ اگر اعلیٰ عدلیہ نے ایسا ہی فیصلہ دینا تھا تو کیا ضرورت تھی اتنا وقت برباد کرنے کی، پہلے ہی ایسا فیصلہ دے کر حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کا منہ بند کر دیا جاتا۔ چلو اس فیصلے میں ایک بات تو پھر ثابت ہوئی بلکہ اس پر مہر تصدیق ثبت ہوئی کہ یہ فیصلہ ان تمام نام نہاد دانشوروں کے خواب کی الٹی تعبیر ہے، جو قوم کو دن رات کہتے نہیں تھکتے کہ ملک ترقی و خوشحالی کا سفر تیزی سے طے کر رہا ہے، اس فیصلے کے بعد تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہماری عالمی سطح پر اگر کوئی معمولی سی ساکھ رہ گئی تھی، اسے بھی ہم نے اپنے ہاتھوں سے مٹی میں ملا دیا ، ہم نے اپنے قول و فعل سے ثابت کیا ہے کہ ہمارے ملک میں قانون کی حکمرانی صرف الفاظ کا وہ گورکھ دھند ہے ، جیسے 70سال سے عام آدمی نہیں سمجھا ، ہمارے معتبر اداروں نے ایک بار پھر یقین دہانی کروائی ہے کہ ہمارے ملک میں انصاف کے دوہرا معیار ہے۔
آپ مخلوق خدا پر ظالم ڈھانا چاہتے ہیں تو اتنا طاقتور ہوجائیں کہ آئین و قانون آپ کی طرف نہ دیکھ سکے بلکہ آپ کی اجازت سے اسے جیسے چاہئے اپنے حق میں موڑا جا سکے، ہمیں اب رونا دھونا بند کرکے خود کو ہر ظلم سہنے کیلئے تیار رکھنا ہوگیا ، کیونکہ بد دیانت ، کرپٹ اور چور سیاستدان جہاں کہیں جاتے ہیں ، وہ تو دن رات کہتے نہیں تھکتے کہ ہمیں عوام نے منتخب کیا ، عوامی طاقت سے برسر اقتدار آئے پھر اگر ہم پر یہی طاقت استعمال کرتے ہیں پھر ہمارا بھی کوئی حق نہیں بنتا کہ ہم ان کے ظلم کے سامنے آواز بلند کریں ، ہمارا حال تو اس ہاتھی کا ہے جسے کے پائوں کو بچپن سے جس کمزور رسی سے باندھا گیا تو جوان ہوکر بھی وہ یہی سمجھتا ہے کہ وہ اپنے پائوں کی رسی اپنی طاقت سے نہیں توڑ سکتا، قوم کو ان سب فیصلے کے بعد سمجھ کیوں نہیں ہے کہ یہاں شاہی لباس میں لپٹی جمہوریت ہے ، جہاں آپ اور میری اوقات کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں