تحریر: یاسر رفیق
پاکستان کی جمہوریت اور پاکستانی اداروں پر تنقید کرنے والا ملک بھارت اور اپنے آپ کو دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک کہلانے والا بھارت جو کسی بھی طور پر جمہوریت پسند نہیں جس کی سوچ آمرانہ ہو جس کی ذہنیت انتہاپسندانہ ہو کیا ایسا ملک جمہوریت پسند کہلا سکتا ہے نہیں ہر گز نہیں ۔ گائے کے گوشت کو بہانہ بنا کر مسلمانوں کا قتل عام کرنا ،مسلمانوں پر ہندوستان کی زمین تنگ کرنا کیا جمہوریت کے زمرے میں آتا ہے۔
بی بی سی کے مطابق ہماچل پردیش میں ایک مسلم نوجوان کو ایک ہجوم نے ایک ٹرک میں گائے لے جانےکی پاداش میں مار مار کر ہلاک کردیا۔ بھارت کے قومی اخباروں نے مقتول کو ’گائے کا سمگلر‘بتایا ہے۔ گائے اور بھینس ایک جگہ سےدوسری چگہ خرید وفرخت کے لیے ٹرکوں سی ہی بھیجی جاتی ہیں۔ لیکن بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد مویشیوں کی نقل و حمل ایک انتہائی پر خطر مہم میں تبدیل ہو چکا ہے۔ دادری کے واقعے سے پہلے ملک کے مختلف علاقوں میں مویشیوں کے ٹرک لے جانے والوں پر حملے اور مویشیوں کو لوٹنے کے درجنوں بڑے واقعات ہو چکے ہیں ۔ اپنے آپ کو جمہوری کہنے والو تم انتہا پسند ہو۔
نام نہاد جمہوریت کے رکھوالو تم یہ بھی جانتے ہو کہ گائے کا گوشت ہندو بھی کھاتے ہیں ایک اندازے کے مطابق ملک میں گوشت کھانے والے مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کی مجموعی آبادی سے دو گنی سے بھی زیادہ ہندو آبادی گوشت خورہے، ہندوؤں کےبعض طبقے گائے کا گوشت بھی شوق سے کھاتے ہیں ۔ گائے کے گوشت کو بہانہ ہندو مسلم فسادات کی تیاریاں کی جا رہی ہیں ۔ نریندر مودی جو خود مسلم دشمنی میں پیش پیش ہے جو خود انتہا پسندانہ ذہنیت کا مالک ہے جو صرف اور صرف نفرت کی سیاست کرنا جانتا ہے نریندر مودی اور اس کی جماعت مسلمانوں کو پاکستانی سمجھتی ہے اور آئے روز مسلمانوں کو بدنام کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتی ۔ ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس نے مسلمانوں کو ہمیشہ بھارت مخالف اور اسلام مذہب کےسبب ہمیشہ ’باہری‘ سمجھا۔ آر ایس کا تصور ہےکہ مسلمان کبھی بھارت کا نہیں ہو سکتا۔
حکمراں جماعت کے بیشتر رہمنا آر ایس ایس کے تربیت یافتہ ہیں۔ اسی لیےاس کے تریبت یافتہ اوراس کے نظریات کے حامل رہنا اکثرمسلمانوں کو پاکستانی، پاکستان بھیجنے یا ملک سے نکالنے کی بات کرتے ہیں۔وزیر ثقافت نے ابھی کجھ دنوں پہلے ہی کہا تھا کہ مسلمان ملک سے محبت نہیں کرتے،پھر یہ کہا کہ مسلمان اگر بھارت میں رہنا چاہتے ہیں تو گائے کا گوشت کھانا چھوڑیں۔ ایسے بیانات اور ایسی باتیں سن کر بھارت کی اول درجے کی جمہوریت پر ہنسی آتی ہے ۔ملک میں ایک عرصے سے سبزی خوری کے نام پر گوشت خوری کے خلاف ایک انتہا پسند مذہبی تحریک چل رہی ہے اور مختلف سخت گیر ہندو تنظیمیں گوشت خوری کے خلاف مذہبی نفرت کا جذبہ پیدا کرنے میں لگی ہو ئی ہیں۔
جوبھارتی مسلمانوں کے خلاف زیادتی ہے۔اب وقت آگیا ہے بھارت خود ہی فیصلہ کر لے کہ وہ ہندو اسٹیٹ ہے یا پھر سیکولر اسٹیٹ ہے؟ اگر تو سیکولر اسٹیٹ ہے تو پھر مذہب کے معاملات کو ایک طرف رکھ کر ریاستی معاملات پر توجہ دے۔ اپنے ملک میں دیگر مذاہب کے لوگوں کو عزت دے، اُن کی املاک اور جائیدادوں کی حفاظت کرے، اُن کی مساجد، چرچ، گرد واروں کی حفاظت کرے، اور سب سے بڑھ کر اُن کی جانوں کی حفاظت کرے۔ انٹرنیٹ کے عام ہوجانے کے بعد دنیا حقیقی معنوں میں ’عالمی گاوں‘ کا درجہ اختیار کرچکی ہے اِس لیے اصل چہرہ چھپانا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے لہذا فیصلہ بھارت کو ہی کرنا ہے کہ وہ ایک سیکولر ریاست ہے یا پھر ہندو ریاست ۔ میں ایک صحافت کا طالبعلم ہونے کے ناطے کہنا چاہتا ہوں کہ تمام مسلم دنیا ایسے وقت میں جب ہندوستان اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمان شدید پریشانی کا شکار ہیں ان کی مدد کرے اور ان کے تحفظ کے لیے آواز بلند کرے اور دنیا کو بتایا جائے کہ بھارت جمہوریت پسند نہیں انتہاپسند ہے۔
تحریر: یاسر رفیق
ای میل : yasirrafique985@gmail.com