نظام آباد (اسلم فاروقی) جنوبی ہند میں دکن کا علاقہ جس میں ریاست تلنگانہ کی تشکیل عمل میں آئی ہے اپنی چارسوسالہ تاریخ سے ہی اخوت’ بھائی چارہ’رواداری اور گنگا جمنی تہذیب کی اعلیٰ مثالوں کا علمبردار علاقہ رہا ہے۔ قطب شاہیوں نے شہر حیدرآباد بسایا اور گولکنڈہ کی سلطنت میں رواداری کا جو سلسلہ شروع کیا اسے آصف جاہی سلاطین نے پروان چڑھایا۔
تاہم آزادی کے بعد جب لسانی بنیاد پر ریاستوں کی تشکیل جدید عمل میں آئی تو اس وقت سے دکن کے علاقہ جات تلنگانہ میں آندھرائی عوام کی جانب سے استحصال اور حقوق کی پامالی کا طویل دور چلا بالآخر طویل جدوجہد کے بعد ریاست تلنگانہ تشکیل پائی اب اس ریاست کو سنہرے تلنگانہ کے طور پر تعمیر کرنا علاقے کے عوام خاص طور سے نواجوان طلبا وطالبات کی اہم ذمہ داری ہے۔
ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر مسعود جعفری اسوسی ایٹ پروفیسر تاریخ موظف نامور شاعر و ادیب نے یوجی سی کے زیر اہتمام شعبہ تاریخ گری راج کالج کی جانب سے منعقدہ ایک روزہ ورکشاپ ” تاریخ تلنگانہ” سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ تلنگانہ کی تاریخ حالیہ دور کی پیداوار ہے اور یہ اپنے تشکیلی دور میں ہے۔ دکن کا علاقہ ماضی میں خوشحال اور مضبوط سلطنتوں کے لئے جانا جاتا ہے۔ قطب شاہیوں نے رواداری کی مثالیں پیش کیں۔ اور محمد قلی قطب شاہ حیدرآبادی تہذیب کا علمبردار رہا۔ آصف جاہی سلاطین کے دور میں آپسی بھائی چارہ پایا جاتا تھا۔
آصف سابع کے دور میں مہاراجہ کشن پرشاد نے ایک دو نہیں بائیس سال تک وزیر اعظم دکن کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اور ریاست حیدرآباد میں تمام مذاہب کے لوگوں کے ساتھ رواداری برتی گئی۔ جامعہ عثمانیہ میں راج بہادر گوڑ اور دیگر نے اردو ذریعے تعلیم سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ مخدوم اور دیگر نے کسانوں کے لئے تحریک چلائی۔ انگریزوں نے دکن کے علاقے میں بغاوت کو پروان چڑھایا۔ سقوط حیدرآباد اور پولیس ایکشن حیدرآباد کی گنگا جمنی تہذیب پر دو بدنما داغ ہیں۔ حیدرآباد میں مسلمانوںمیں آپسی اتحاد کی شعوری کوشش ہوئی۔ لیکن لسانی بنیادوں پر تشکیل پائی ریاست آندھرا پردیش کے قیام سے علاقہ تلنگانہ کے عوام کے ساتھ نا انصافیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ لفظ تلنگانہ کا استعمال تلنگ سے شروع ہوا۔
تلنگانہ کے عوام اور قائدین نے محسوس کیا کہ یہاں کے وسائل کو آندھرائی علاقے کے عوام استعمال کر رہے ہیں اور تلنگانہ کے قابل لوگوں کو ترقی سے محروم رکھا جارہا ہے تلنگانہ کی جدوجہد 60سال سے جاری رہی۔ اور آخر کار کے سی آر اور علاقے کی عوام نے حتمی جدوجہد اور تحریک چلائی جس پر مرکزی حکومت نے 2 جون2014ء کو نئی ریاست تلنگانہ تشکیل دی۔ تلنگانہ کی تاریخ تشکیلی دور میں ہے۔ علاقے میں جو کچھ تحریک چلائی گئی اور جدوجہد کی اسے اگلی نسل تک پہونچانا تاریخ دانوں کا کام ہے اس کے ساتھ ہی آج کے نوجوانوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ تلنگانہ کی تعمیر میں حصہ لیں۔
قبل ازیں ڈاکٹر راجندر پرساد پرنسپل گری راج کالج نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور ورک شاپ کے انعقاد کو خوش آئیند قرار دیا۔ ورکشاپ سے شعبہ تاریخ عثمانیہ یونیورسٹی کے پروفیسرایم وینکٹیشورار رائو’ مسٹر نریش کمار سابق صدر شعبہ تاریخ گری راج کالج’ مسٹر راکیش چندرا صدر شعبہ سیاسیات’ ڈاکٹر محمد عبدالرفیق یوجی سی کو آرڈینیٹر ‘ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صدر شعبہ اردو ‘ محمد مبین الدین لیکچرر تاریخ اور دیگر نے خطاب کیا۔ اردو میڈیم بی اے کی طالبات نے ڈاکٹر مسعود جعفری سے معلوماتی لیکچر دینے پر اظہار تشکر کیا۔