انڈیا (ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ) ہندی کے معروف ادیب بھیشم ساہنی کی صدسالہ تقریبات کے سلسلے میں شعبہ اردو جموں یونیورسٹی نے پروفیسرگیان چند جین سیمی نار ہال جموں یونیورسٹی میں ”بھیشم ساہنی حیات وخدمات ” کے موضوع پر توسیعی لیکچر کاا ہتمام کیا۔
اس موقعہ پر دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر علی جاویدنے لیکچرپیش کیاجبکہ وائس چانسلر جموں یونیورسٹی پروفیسر آرڈی شرما تقریب میں مہمان خصوصی تھے۔ تقریب کی صدارت ڈین ریسرچ پروفیسر ارچنا کیسر اور صدرشعبہ اُردو جموں یونیورسٹی پروفیسر شہاب عنایت ملک نے کی۔پروفیسر علی جاوید نے بھیشم ساہنی کی حیات وخدمات پرتفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے انہیں سیکولرذہن کے مالک مختلف جہات سے مزین شخصیت قراردیا۔ انہوں نے کہاکہ بھیشم ساہنی ایک ادیب ، اداکار ، استاد ہونے کے علاوہ ایک پرخلوص انسان تھے۔
انہوں نے کہاکہ بھیشم 8 اگست 1915 کو راولپنڈی میں پیداہوئے ، گورنمنٹ کالج لاہورسے انگلش لٹریچر میں ماسٹر کی ڈگری ، پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ سے 1958 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ پروفیسرعلی جاوید نے کہاکہ جدوجہد آزادی میں بھی بھیشم نے سرگرم رکن کا کردارنبھایا ۔انہوں نے کہاکہ موصوف انڈین نیشنل کانگریس کے سرگرم ممبران میں شمارہوتے تھے۔ انہوں نے کہاکہ بھیشم ساہنی دلی طورپر ترقی پسندتھے اوروہ اپٹا سے بھی وابستہ رہے۔
ابتدامیں انہوں نے نیشنل کانگریس میں شمولیت کی اوربعدمیں کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے۔ پروفیسر علی جاوید نے مزیدکہاکہ بھیشم نے شروع میں امبالہ کالج میں لیکچررکے طورپرخدمات انجام دینے کے بعد خالصہ کالج اورپھر دہلی کالج جواب ذاکر حسین دہلی کالج کے نام سے جاناجاتاہے میں بھی خدمات انجام دیں۔انہوں نے بھیشم ساہنی کے پہلے ناول ”تمس ” پربھی روشنی ڈالی جو تقسیم ہند کے بارے میں لکھاہے۔ پروفیسرعلی جاوید نے کہاکہ موجودہ دورمیں ”تمس” ناول کی اہمیت کافی زیادہ ہے اوریہ ناول ہمیں روزمرہ کے مسائل کی بھرپورعکاسی کرتاہوانظرآتاہے۔انہوں نے کہاکہ بھیشم ادبی سرگرمیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے جس کی وجہ سے وہ متعدد ادبی وثقافتی تنظیموں سے بھی وابستہ رہے۔انہوں نے کہاکہ بھیشم آل انڈیا پروگریسیو رائٹر ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری اور ایفرو ایشین رائٹرایسوسی ایشن کے سیکریٹری بھی رہے۔
انہوں نے کہاکہ بھیشم ساہنی کے لامثال کارناموں کودیکھتے ہوئے انہیں حکومت ہند نے پدم شری اورپدم بھوشن اعزازات سے بھی نوازا۔اس موقعہ پر وائس چانسلر جموں یونیورسٹی پروفیسر آرڈی شرمانے شعبہ اُردو کوبھیشم ساہنی کی حیات وخدمات کے بارے میں خصوصی لیکچر منعقدکرنے کیلئے مبارکبادپیش کی۔ انہوں نے کہاکہ بھیشم ساہنی ایک قدآور ترقی پسند ہندی ادیب تھے۔ انہوں نے کہاکہ بھیشم بلراج ساہنی کے چھوٹے بھائی تھے۔ اگرچہ ان کی مادری زبان پنجابی تھی لیکن اُردو زبان میں و ہ سوچاکرتے تھے۔ اس کے علاوہ سنسکرت اور روسی زبان کے بھی ماہرتھے۔ پروفیسر آرڈی شرمانے کہاکہ بھیشم ساہنی گوناگوں صفات کے مالک تھے۔
وہ بہت اچھے ترجمہ نگاربھی تھے جس کاثبوت ان کی وہ کتابیں ہیں جو انہوں نے روسی سے ہندی میں ترجمہ کیں۔ انہوں نے کہاکہ اس طرح کے لیکچروں کے انعقاد سے طلباء کی جانکاری میں اضافہ ہوتاہے اورانہیں شخصیات کے بارے میں جان کر تحریک ملتی ہے۔صدارتی خطاب میں ڈین ریسرچ جموں یونیورسٹی پروفیسر ارچنا کیسر نے بھیشم ساہنی کی خدمات کوسراہتے ہوئے خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے کہاکہ میں نے بھیشم جی کے ناول ”تمس ” کا ڈوگری زبان میں ترجمہ کیاہے ۔انہوں نے کہاکہ جب میں اس ناول کاترجمہ کررہی تھی تو اس وقت مجھے بھیشم ساہنی کی شخصیت کی مختلف صفات اورخصوصیات کی جانکاری حاصل ہوئی۔
انہوں نے کہاکہ بھیشم ساہنی تقسیم ہندوستان کے ایک چشم دیدگواہ رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ انگریزوں کے خلاف 1942 میں ہندوستان چھوڑوتحریک میں سرگرم کردارنبھانے کی وجہ سے بھیشم جی کئی مرتبہ جیل بھی گئے ۔انہوں نے کہاکہ بھیشم ساہنی کے دل میں تقسیم ہندوستان کا گہرازخم لگاہواتھا جس کو انہوں نے اپنے ناول میں ظاہرکیاہے۔قبل ازیں صدرشعبہ اُردو پروفیسر شہاب عنایت ملک نے بھیشم ساہنی کی شخصیت کے مختلف گوشوں پرروشنی ڈالی۔ انہوں نے کہاکہ بھیشم ساہنی اُردو زبان وادب سے گہرالگائورکھتے تھے۔
انہوں نے کہاکہ بھیشم جی کے ناول تمس کا اُردو میں بھی ترجمہ کرناوقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ بھیشم ساہنی ایک عظیم ترقی پسندشخصیت تھے جنھوں نے انسانیت کے حق میں ہمیشہ اپنی آوازبلند کی۔ پروفیسرشہاب عنایت ملک نے کہاکہ آئندہ بھی ایسے لیکچروں کااہتمام شعبہ اُردوکرتارہے گا۔تقریب کی نظامت شعبہ اُردوکے ایسوشیٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد ریاض نے کی جبکہ شکریہ کی تحریک اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید منہاس نے انجام دی۔ پروگرام میں طلباء کی کثیرتعدادکے علاوہ سول سوسائٹی کے ممبران اورفیکلٹی ممبران نے بھی شرکت کی۔