ڈپریشن نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں دماغی صحت کے اہم ترین، پیچیدہ اور خطرناک مسائل میں سے ایک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوا سازی کی صنعت میں ڈپریشن دور کرنے والی دواؤں کا خیال پروان چڑھا۔ ابتداء میں ان دواؤں نے ’’فوری اثر‘‘ کے نعرے کی وجہ سے عوام میں خوب مقبولیت حاصل کی لیکن جیسے جیسے اینٹی ڈپریسنٹس کے شدید مسائل اور مضر اثرات سامنے آتے گئے، ویسے ویسے ماہرین ان دواؤں کے متبادل کی جانب متوجہ ہونے لگے۔
امریکہ اور یورپ سمیت دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں اس بارے میں خاصا شعور عام کیا گیا ہے۔ خاص طور پر دواؤں اور علاج معالجوں کی منظوری دینے والا مؤقر امریکی ادارہ ’’ایف ڈی اے‘‘ گاہے گاہے اس بارے میں ہدایات جاری کرتا رہتا ہے۔
اینٹی ڈپریسنٹس کے بارے میں ایف ڈی اے نے 2005ء میں یہ وارننگ شائع کی تھی کہ ان کے استعمال سے بچوں اور بڑوں میں خودکشی کا رجحان بڑھ سکتا ہے۔ 2007ء میں یہ وارننگ مزید سخت کردی گئی اور لوگوں کو خبردار کیا گیا کہ باقاعدگی سے اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں استعمال کرنے والے 25 سال سے کم عمر کے تمام افراد میں خودکشی کرنے کے رجحانات پیدا ہوجاتے ہیں۔
اینٹی ڈپریسنٹس سے وابستہ خطرات بہت زیادہ ہیں اور ان کے بارے میں کئے جانے والے بلند بانگ دعووں کے برعکس یہ دوائیں کوئی جادو کی پڑیا نہیں بلکہ ان کے مسلسل استعمال سے کئی ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی پیچیدگیاں (انہیں استعمال کرنے والے میں) پیدا ہوجاتی ہیں۔
- کیا آپ کو اینٹی ڈپریسنٹس کی واقعی ضرورت ہے؟
ابتدائی اور متوسط درجے کے ڈپریشن کا علاج کرنے کے لئے کسی دوا کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ پوری دنیا میں ’’ٹاک تھیراپی‘‘یعنی بات چیت سے علاج مثلاً کاؤنسلنگ، کوچنگ اور سی بی ٹی جیسی تدابیر کے ذریعے ڈپریشن کو قابو کرلیا جاتا ہے۔
صرف انتہائی درجے میں کہ جب ڈپریشن کی شدت اتنی زیادہ ہوجائے کہ اوپر بتائے گئے طریقوں میں کسی سے بھی ختم نہ کی جاسکے تو پھر اینٹی ڈپریسنٹس کی ضرورت پڑتی ہے لیکن وہ بھی اس بیماری کی شدت قابو میں آنے تک کے لئے۔ اس لئے اگر آپ کا معالج آپ کو پہلے ہی وزٹ میں اینٹی ڈپریسنٹ تجویز کرے تو یہ آپ کا حق ہے کہ تحقیق کریں کہ کیا آپ واقعی اتنے شدید ڈپریشن کے مریض ہیں یا محض آپ کو اینٹی ڈپریسنٹ کی لت میں مبتلا کیا جارہا ہے۔
ذہنی امراض سے متعلق امریکی تنظیم ’’نامی‘‘یعنی ’’نیشنل الائنس آن مینٹل اِلنیس‘‘ کے مطابق یہ کیمیائی دوائیں صرف اُن لوگوں کیلئے مناسب ہیں جو ڈپریشن کی آخری حد پر ہوں اور گفتگو، کوچنگ، کاؤنسلنگ یا سی بی ٹی وغیرہ سے صحت مند نہ ہوسکتے ہوں۔ ڈپریشن کے 95 فیصد سے زائد کیس دوا کے بغیر ٹھیک ہونے قابل ہوتے ہیں لیکن اگر اینٹی ڈپریسنٹس کی لت پڑجائے تو وہ عموماً ساری زندگی ہی اس نشے کا شکار رہتے ہیں۔
- اینٹی ڈپریسنٹس کا بے تحاشا استعمال
کے مطابق، اینٹی ڈپریسنٹس کا استعمال گزشتہ چار برس میں 6.5 فیصد سے بڑھ کر 10.4 فیصد ہوچکا ہے، کیونکہ لوگ فوری فائدہ اور وہ بھی بلا مشقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ 2005ء اور 2007ء میں ایف ڈی اے کی جاری کردہ وارننگز کے بارے میں بتایا جاچکا ہے کہ اینٹی ڈپریسنٹس استعمال کرنے والے 25 سال سے کم عمر کے تمام افراد میں خودکشی کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔ اس لئے اگر آپ اینٹی ڈپریسنٹ لے رہے ہیں تو بہت ضروری ہے کہ آپ اپنے برتاؤ میں معمولی سی تبدیلی بھی نوٹ کریں اور اپنے گھر والوں اور معالج کو اس بارے میں ضرور بتائیں۔
کی تجویز ہے کہ اگر آپ شدید ڈپریشن میں مبتلا ہوچکے ہیں، اب کسی ٹاک تھیراپی سے آپ کا علاج ممکن نہیں رہا اور معالج نے اینٹی ڈپریسنٹ تجویز بھی کردی ہے تب بھی یہ دوا بارہ ہفتے سے زیادہ استعمال نہ کی جائے، کیونکہ بارہ ہفتے بعد اینٹی ڈپریسنٹ کے خطرات نمایاں ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ نامی کے مطابق، ڈپریشن کا مریض خواہ کسی بھی سطح پر ہو اور وہ کوئی بھی دوا لے رہا ہو، ضروری ہے کہ وہ ٹاک تھیراپی سے بھی مدد لیتا رہے۔ پاکستان میں ماہرین نفسیات اور لائف کوچ یہ کام آپ کے لئے کرسکتے ہیں۔
اگر آپ مزید جاننا چاہتے ہیں تو انگریزی میں اسی نوعیت کا ایک تفصیلی مضمون ’’ایوری ڈے ہیلتھ‘‘نامی ویب سائٹ پر ماہرین کے تحقیقی حوالہ کے ساتھ موجود ہے۔
کوشش کروں گا کہ اِن شاء اللہ اگلے کسی مضمون میں ’’نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ‘‘کی کچھ ایسی مشقیں پیش کروں جن کے ذریعے شدید ڈپریشن کا خاتمہ بھی بہ آسانی کیا جاسکتا ہے اور جس کے لئے کوئی دوا کھانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔