بلوچستان کی اہمیت سے انکار کسی طرح ممکن نہیں۔ لیکن بلوچ قوم کی محرومیوں سے انکار بھی ممکن نہیں۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ اگر پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ حقیقت نہ بنتا تو ہماری توجہ بلوچستان پر کبھی نہ ہو تی۔ آج پاک چین اقتصادی راہداری کی وجہ سے بلوچستان پر توجہ نظر آ رہی ہے۔
گزشتہ دنوں لاہور کا دورہ کرنے والے طلباو طالبات کے ایک وفد نے جب وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملاقات کی تو ایک طالبعلم نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت ساری ترقی پنجاب اور لاہور میں ہی ہو رہی ہے۔ بلوچستان تو ابھی تک اس سے محروم ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سی پیک کی وجہ سے بھارت بلوچستان میں بہت متحرک ہے اور بلوچ قوم میں ایک منظم سازش کے تحت پاکستان کے لیے نفرت پیدا کر رہا ہے۔
حال ہی میں جرمنی میں دہشتگردی کے واقعہ کے بعد جس ایک پاکستانی کو شک کی بنا پر گرفتار کیا گیا اور بعد میں رہا کر دیا گیا وہ بھی ایک بلوچ تھا اور اس نے وہاں بلوچستان کے حالات کے خلاف سیاسی پناہ لی ہوئی ہے۔ ایک طرف براہمداغ بگٹی بھارت کی شہریت لے رہا ہے۔ اور بلوچستان سے طرح طرح کی آوازیں آرہی ہیں۔ ایسے میں ہمیں جہاں بلوچستان کی محرومیاں ہنگامی بنیادوں پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ وہاں بلوچستان کی نئی نسل کے دل میں پاکستان سے محبت کا رشتہ مضبوط کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
مجھے خوشی ہوئی جب کوئٹہ میں حافظ سعید کی جانب سے دفاع اسلام کانفرنس کا انعقاد کیا گیا اور اس میں شاہ زین بگٹی میر ظفر اللہ شہوانی اور دیگر بلوچ سرداروں نے شرکت کی۔ اگر ایک طرف براہمداغ بگٹی ہیں جو بھارت کے ساتھ ہیں دوسری طرف شاہ زین بگٹی ہیں جو پاکستان کا دم بھرتے ہیں ۔ دونوں ہی بگٹی کے پوتے ہیں۔ ایک ہی خون ہے۔ ایک بھارت کی گود میں اور دوسرا پاکستان کے وفادار حافظ سعید کے ساتھ۔ کم از کم ہمیں یہ تو یقین ہے کہ حافظ سعید سچا پاکستانی ہے۔ ورنہ بلوچستان میں تو اس وقت ہر کوئی دوسرے کو را کا ایجنٹ کہہ رہا ہے۔ ویسے ہر ناراض بلوچ کو را کا ایجنٹ کہنا بھی ٹھیک حکمت عملی نہیں ہے۔ ناراضگیاں جائز بھی ہو سکتی ہیں۔
حافظ سعید کی تنظیم فلاح انسانیت فاؤنڈیشن ویسے تو کافی عرصہ سے بلوچستان میں کام کر رہی ہے۔ چند سال قبل بلوچستان کے دور دراز علاقوں آواران میں آنے والے زلزلہ میں بحالی کے کام نے وہاں کے علاقہ کے لوگوں کے دل جیت لیے تھے۔ حالانکہ آواران اور دیگر علاقوں میں زلزلہ سے ریلیف سرگرمیاں انجام دینا اپنی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ فراری اور قوم پرست ریلیف کے اس کام کی راہ میںبڑی رکاوٹ تھے۔ لیکن علیحدگی پسندوں کی دھمکیوں اورہر قسم کے خطرات کے باوجود جماعۃالدعوۃ کے کارکنان نے وہاں پہنچ کر لوگوں کی مدد کی‘ مشکل وقت میں انھیں دلاسا دیا اور ان کے کھانے، پینے اور رہائش کا بندوبست کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس سال چودہ اگست کو آواران سمیت ان علاقوںمیں پاکستان زندہ باد ریلیاں نکالی گئیں جہاں ماضی میں کبھی ایسا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
انھی فلاحی کاموں نے حافظ سعید کے اور بلوچ سرداروں کے درمیان پل کا کام کیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان میں کام کرنیو الی غیر ملکی این جی اوز کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ ایک تاثر ہے کہ غیر ملکی این جی اوز اپنے فلاحی کام کی آڑ میں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھاتی ہیں۔ جب کہ پاکستان اس وقت بلوچستان میں کسی غیر ملکی ایجنڈا کی نرسری کو پھلنے پھولنے دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
ہم سب کو بلوچستان میں کام کرنا ہو گا۔ لیکن بلوچستان میں کام کرنا آسان نہیں ہے۔ پاکستان کے مفاد میں کام کرنے والی این جی اوز اور سرکاری اہلکاروں کو غیر ملکی ایجنسیاں کے پروردہ عناصر نشانہ بناتے ہیں۔ اس میں شک نہیں ہے کہ بلوچ قوم کا استحصال ہو رہا ہے۔ اسی استحصا ل کو روکنے اور بلوچستان کی عوام تک ان کا حق پہنچانے میں فلاح انسانیت جیسی فلاحی تنظمیں بہت کار گر ہو سکتی ہیں۔
یہ بھی درست ہے کہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں یہ تنظیم اب تک پانی کی کمی سے نبٹنے کے لیے آٹھ سو کنویں کھدوا چکی ہیں۔ اور صحت و تعلیم کے بھی کئی منصوبے مکمل کر چکے ہیں۔ میری تجویز ہے کہ حافظ سعید کچھ عرصہ کے لیے بلوچستان میں مستقل رہائش اختیار کر لیں اس سے پاکستان کے لیے بھی بہتر ہو گا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کے سامنے پنجاب کی ترقی پر تنقید کرنے والا نوجوان ہونہار طالبعلم کوئی بھارتی ایجنٹ نہیں ہے۔ وہ پاکستان کا مستقبل ہے۔ وہ جب اپنے شہروں کا لاہور سے موازنہ کرتا ہے تو اسے یہ فرق سمجھ نہیں آتا۔ اسے اپنی تعلیمی اداروں اور پنجاب کے تعلیمی اداروں کے ماحول میں فرق سمجھ نہیں آتا۔ ایسے میں ان ننھے ہونہار ذہنوں میں اٹھنے والوں سوالوں کا جواب ایک ہی ہے کہ بلوچستان کی ترقی پر ساری توجہ دی جائے۔ وہاں زندگی کی بنیادی سہولیات پہنچائی جائیں۔ جہاں ہمارے ادارے نہیں پہنچ سکتے وہاں حافظ سعید جیسے لوگوں کی مدد لی جائے۔
ہمیں اس تاثر کو بھی ختم کرنا ہو گا کہ سی پیک صرف گوادر کی ترقی کا نام ہے۔ اگر گوادر میں ایشیا کا سب سے بڑا ایئرپورٹ بن بھی جائے گا اور کوئٹہ تربت دالبدین کے ایئر پورٹ ویران رہیں گے تو بلوچستان کے عوام کی محرومیاں ختم نہیں ہو نگی۔ بلوچ طلباٹھیک کہہ رہے ہیں کہ گوادر کی نام نہاد ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے پلاٹ بھی پنجاب میں ہی بک رہے ہیں۔ چین کا قونصلیٹ بھی لاہور میں ہی بن رہا ہے۔ انھیں کیا مل رہا ہے۔
یہ درست ہے کہ بلوچستان کی محرمیوں میں وہاں کی قیادت کا بھی قصور ہے۔ بلوچستان کو اس این ایف سی سے اس کے حصہ کی رقم ملتی رہی ہے۔ مگر وہاں کرپٹ بیوروکریٹ اس کو کھاتے رہے ہیں۔ ابھی تو ایک مشتاق رئیسانی قانون کی گرفت میں آیا ہے۔ لیکن بلوچ بتاتے ہیں کہ وہاں ایسے اور بھی بہت ہیں۔ دراصل تو یہ بلوچ قوم کے مجرم ہیں۔ لیکن مشتاق رئیسانی کا پلی بارگین منظور کر کے ہم نے اپنا یہ مقدمہ بھی کمزور کر لیا ہے۔
اگر ہم بلوچ قوم کی محرومیوں کے ان اصل ذمے داران کو مثالی سزائیں دیں تو شاید بلوچ عوام سمجھ سکیں کہ ان کی محرمیوں کے ذمے دار پنجاب نہیں بلکہ ان کے اپنے لوگ ہیں۔ لیکن یہ بات سمجھانے کے لیے وہاں کے کرپٹ لوگوں کو محفوظ راستہ نہیں سخت سزائیں دینا ہو نگی۔ کیونکہ ان کی وجہ سے آج پاکستان کی سا لمیت کو خطرہ ہے۔