تحریر: سید انور محمود
پاکستان کا اولین مسئلہ دہشتگردی کا خاتمہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ دہشتگردی کیا ہے؟ دہشت کسے کہتے ہیں؟ میرئے نزدیک خوف و ہراس اور وحشت کی فضا پیدا کرکے عدم تحفظ کا احساس پیداکرنا اور بغیر کسی وجہ کے انسانی زندگی کو ختم کرنا دہشتگردی ہے۔ دو خبریں ہیں جنکا تعلق گذشتہ تین ہفتے سے ہے، پہلی خبر یہ ہے کہ 29 دسمبر 2015ء سے 20 جنوری 2016ء تک طالبان دہشتگردوں نے مردان، کوئٹہ، پشاور اور چارسدہ میں خود کُش حملوں، ریموٹ کنٹرول بم اور گولیاں مارکر 66 افراد کو شہید کر دیا۔
دوسری خبر کے مطابق تھرپارکر میں جنوری 2016ء کے پہلے 21 روز میں غذائی قلت کی وجہ سے بچوں کی ہلاکت کی تعداد 94 ہوگئی۔ بچوں کے ساتھ ساتھ اسلام کوٹ اسپتال میں ایک حاملہ خاتون زچگی کے دوران بچے سمیت جان کی بازی ہار گئی ۔دونوں خبروں میں جو عنصر مشترک ہے وہ ہے “موت” جو بغیر کسی وجہ کے معصوم انسانوں کو ملی۔ ویسے تو پورئے پاکستان میں دہشتگردی کا خوف موجود ہے، لیکن ہر روز صبح کو خیبرپختونخوا کے والدین میں جو خوف و ہراس پیدا ہوتا ہے وہ شاید ملک کے باقی حصوں میں ابھی نہیں ہوتا، بلکل اس طرح ہی تھرپارکر کے والدین کا حال یہ ہے کہ وہ سارا دن خوف و ہراس میں رہتے ہیں کہ غذائی قلت کی وجہ سے آج اُنکا بچہ زندہ بچے گا یا نہیں۔ اسی خوف و ہراس، وحشت کی فضا اورعدم تحفظ کے احساس کو ہم ” دہشت” بھی کہہ سکتے ہیں۔
پہلی دہشتگردی وہ لوگ کررہے جو مذہبی شدت پسندی کا شکار ہیں ، ایک غلط سوچ اور پیسوں کی لالچ میں وہ بے گناہ لوگوں کا خون بہارہے ہیں، اُنکو ختم کرنے کےلیے آپریشن ضرب عضب جاری ہے اور پاکستانی فوج اُن سے لڑرہی ہے۔ لیکن کرپشن اور بدانتظامی کی وجہ سے تھرپارکر میں جو روزانہ بچوں کی زندگی کے چراغ گل ہورہے ہیں اُسکے لیے کوئی آپریشن نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ تھرپارکر میں معصوم بچوں کی موت کی صورت میں ہونے والی دہشتگردی کی خود حکومت ذمہ دار ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ اسلام کوٹ کی تعلقہ اسپتال میں گزشتہ 2 ماہ سے آپریشن تھیٹر بند ہے،سنگین حالات کے باوجود محکمہ صحت نے آپریشن تھیٹر کو چلانے کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا۔غذائی قلت ،بیماریوں اور صحت کی سہولتوں کے فقدان کے باعث روزانہ بچے دم توڑ رہے ہیں۔
ضلعی انتظامیہ اور محکمہ صحت نے تعلقہ اسپتالوں اور بچوں کے وارڈز سمیت دیہاتوں میں مطلوبہ طبی عملے تعینات نہیں ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے جاری بیان کے مطابق بیمار بچوں کو علاج کے لئے شہروں میں لانے کے انتظامات کئے جا رہے ہیں اور ٹیموں کو دیہاتی علاقوں میں بھیجا گیا ہے۔ تھرپارکر کے لوگوں نے حکومت سمیت سماجی تنظیموں سے فوری ضروری امداد کی اپیل کی ہے تاکہ تھری مکین کچے جھو نپڑ و ں میں سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے اپنے بچوں کو بچا سکیں۔
تھرپارکر میں ہر سال موت ڈیرے ڈال لیتی ہے. حاملہ خواتین غذائی قلت کا شکار ہیں جس کے باعث نومولود جاں بحق ہورہے ہیں۔ تھرپارکرکے باسی آج بھی حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔ موت کی وادی صحرائے تھر مسلسل معصوموں کی زندگیاں نگلنے میں مصروف ہے. تھرپارکر کے باسی بے بسی کے عالم میں صرف اپنے بچوں کی اموات کا انتظار کر رہے ہیں۔ ناجانے کب موت ان کے گھر پر دستک دے دے۔صحرائے تھرپارکر میں ہمیشہ کی طرح اس سال بھی خوراک کی کمی، جان بچانے والی ادویات کی عدم دستیابی اور انتظامیہ کی سستی کے باعث معصوم بچے جاں بحق ہو رہے ہیں۔ مویشی بھوک پیاس سے مررہے ہیں اور سندھ کی حکومت زبانی جمع خرچ کرکے لوگوں کو مطمئن کرنے کے لئے کوششیں کررہی ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا کہنا ہےکہ تھر پارکر میں اگر بچے مر رہے ہیں تو کیا ان کے مرنے کا اُنہیں الہام ہو گا۔ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کا تھرپارکر کے سسکتے بلکتے بچو ں اور اُن کی اموات سے متعلق یہ پہلا غیر ذمہ دارانہ بیان نہیں چند روز پہلے انہوں نے کہا تھا کہ چند ایک بچوں کا مرنا کوئی بڑی بات نہیں۔
قائم علی شاہ کےضلع میں چار سو واٹر فلٹریشن پلانٹ میں سے آدھے خراب پڑے ہیں جس سے کمسن بچے آلودہ پانی پینے سے بیمار ہو رہے ہیں۔ریاست تو ماں کی سی ہوتی ہے تو پھر یہ کیسی ریاست اور اس کی کیسی حکومت ہے جو معصوموں کو صرف مرتے دیکھنا چاہتی ہے ان کو بچانے کے لئے کچھ کرنا ان کی ذمہ داری نہیں بنتی ۔ مارچ 2014ء میں بھی قحط سے متاثرہ صحرائے تھر میں ایک محتاط اندازوں کے مطابق پانچ سال کی عمر تک کے 175سے زائد بچے بھوک سے ہلاک ہوگے تھے۔ اس کے علاوہ آٹھ لاکھ سے زیادہ مویشی ہلاک ہوئے تھے۔ مویشی جو اس علاقے کی معیشت ہیں اورجن پر اس علاقے کے غریب لوگوں کی زندگیاں منحصر ہیں۔ مارچ 2014ء تک 3 لاکھ سے زائد افراد بلواسطہ طور پر قحط کے بحران سے متاثر ہوئے، جن میں سے ڈیڑھ لاکھ افراد نقل مکانی کرگے تھے۔
تھرپارکر کے عوام کو گزشتہ چار سالوں سے مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے اس دوران قدرتی آفات سیلاب اور بیماریوں سے جانی اور مالی بہت نقصان ہوا ہے، سندھ حکومت تھرپارکر کے لوگوں کےلئے کچھ نہیں کررہی ، میڈیا کو دکھانے کےلیےمصنوئی اقدامات کیے جاتے ہیں، جبکہ وزرا اور دیگر انتظامیہ کے لوگ سب سے پہلے اپنی خدمت کرتے ہیں اس کے بعد وہ عوام کا سوچتے ہیں، عوام کی مشکلات کا رونا رویا جاتا ہے اور جیبیں اپنی بھری جاتی ہیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ سندھ میں جو بچے ادویات نہ ملنے پر مررہے ہیں، اُنکے ساتھ ستم ظریفی یہ بھی ہے جن سرکاری ہسپتالوں کو کروڑوں روپے کا فنڈ ملتا ہے عوام کے لئے مفت ادویات دینے اور علاج معالجہ کی سہولتوں کے لئے وہ ہسپتالوں میں موجود ہی نہیں ہوتیں، اگر کبھی کبھار میڈیا کودکھانے کے لئے ادویات خرید بھی لی جائیں تو ان ادویات کو بازار میں اونے پونے داموں میں بیچ کر اپنی جیبیں بھر لی جاتی ہیں۔جمہور کےووٹوں سے منتخب ہونے والے عوامی نمائندے اور اُن کے کپتان قائم علی شاہ صحرا ئے تھر میں سرکاری دہشتگردی کو ختم کرکے تھرپارکر کے بچوں کو زندگی کا حق نہیں دے سکتے تو پھر ان کا سندھ اسمبلی کی عمارت میں بیٹھنے کا کیا قانونی اور اخلاقی جواز ہے؟۔
تحریر: سید انور محمود