تحریر : علی حسنین تابش
کہتے ہیں زندگی موت کی امانت ہے اور جب تک زندگی ہوتی ہے موت بھی اُس کی حفاظت کرتی رہتی ہے۔یوں تو روح زمین پر جانے کتنی زندگیا ں آئی،اور اپنا وقت گزار کر موت کی آغوش میں ہمیشہ کے لئے سو گئیں۔کئی ایسی بے مثال ہوتیں ہیں جن کو بعد موت کے بعد سنری الفاظ میں یا د رکھا جاتا ہے۔ان کی یادیں ہر پل ،ہر لمحہ ساتھ ساتھ ،چلتی ہیں جیسے کہ سانسیں۔جب سانسوں کا رشتہ جسم سے ٹوٹتا ہے تو یادیں بھی روح کے ساتھ پرواز کر جاتیں ہیں۔زندگی اور موت کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور ابد تک رہے گا۔کئی ایسے رشتے ہوتے ہیں جن کو تمام عمر بُھول نہیں سکتے،وہی تو کل سرمایہ ہوتے ہیں۔دُنیا کے بہترین رشتوں میں بہترین رشتہ والدین کا ہوتا ہے۔یہی والدین اولاد کے لئے ہر لمحہ ،ہر پل سایہ بنے رہتے ہیں اور جب ان کا سائبان سر سے اٹھ جائے تو زندگیاں ویران سی ہو جاتیں ہیں۔ایسے جیسے تپتے صحرا میں کھڑا شجر۔
والدین میں باپ کارشتہ بھی کتنا معصوم ہوتا ہے۔بیٹٰی کے لئے شفقت ،پیار،انس سے لبریز رشتہ اور بیٹے کے لئے دوست،ہمدم،پھر جب یہی دوست کچی عمر میں چھوڑ کر رخصت ہو جائے تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔رت جگے بڑھ جاتے ہیں،تنہائیاں ڈسنے لگتی ہیں۔اپنے پرائے ہونے لگتے ہیں۔رشتے مطلبی ہونے لگتے ہیں۔دُنیا ہی بدل جاتی ہے۔جینے کے انداز بدل جاتے ہیں۔زندگی کے معمولات تبدیل ہو جاتے ہیں۔کچھ بھی تو باقی نہیں رہتا ،سب کچھ بچپن کی طرح لٹ جاتا ہے۔
ایک ایسی قیامت تابش کے گھر آئی اور سب کچھ چھین کر لہلہاتے گلشن کو ویران کر گئی۔خوشیاں روٹھ گئیں اور اُداسیاں کاٹنے لگی سب منظر بدل گئے۔سب اپنے منہ موڑ گئے۔ہاں مجھے اچھی طرح یاد ہے۔20مئی۔یہ دن تو تھا،جب میرے گلشن کا سائبان چلا گیا۔وہ دن جب فراق میرا مقدربنا۔گلستان تابش سے بہار روٹھ گئی۔شہر قلب میں ہر سو تیرگی چھا گئی۔ضیاء ایسی کہ چراغ سے کوسوں دور جا بسی ہو۔ 20مئی2015کا دن ہرطرف قیامت کاسماں برپا کر گیا۔میری ہستی بستی دُنیا کوکسی کی نظر کھا گئی۔میں یتیم ہو گیا ۔پل بھر میں ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔کانچ جیسا بدن کرچی کرچی ہو گیا۔شائد یہی وقت ہوتا ہے جب دوست ،دشمن کی پہچان ہوتی ہے۔اپنوں کو آزمایا جاتا ہے۔۔میرے بچپن کا ساتھ،جس نے انگلیاں پکڑ کر پائوں پائوں چلنا سکھایا تھا یوں رخصت ہوا کہ ننھی معصوم سے آنکھوں میں سیلاب امڈ آیا۔
یہ آنکھیں چھم چھم برسنے لگی اور کوئی بھی آنسو صاف کرنے والا نظر نہیں آیا۔والدین تو اولاد کے لئے بہت سے ارمان دل میں سجاتے ہیں ،مگر تقدیر کے فیصلے نرالے ہوتے ہیں۔انسان سوچتا کچھ ہے ،ہوتا کچھ ہے۔رب کی رضا کے آگے سر تسلیم کرنا پڑتا ہے ورنہ کون اپنے پیاروں کو یوں منوں مٹٰی تلے دفن کرتا ہے۔اس مالک بزرگ و برترکے فیصلوںکے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔وہی تو رحمان ہے جو اپنے پیاروں کو بہت جلد اپنے پاس بلا لیتا ہے۔وہ اپنے نیک اور پیاروں اور اپنے شکر گزار بندوں کی جدائی برداشت نہیں کرتا ،لیکن یہ دُنیا بھی تو اسی نے بنائی ہے۔یہ رشتوں کے بندھن بھی تو اسی کے بنے ہوئے ہیں پھر کیوں ان رشتوں کو اشک بار کرتا ہے۔کیوں ان سے اپنے پیارے واپس بلوا لیتا ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
لائی حیات آئے۔۔۔لے چلی قضاء چلے
نہ اپنی خوشی سے آئے۔۔نہ اپنی خوشی چلے
ہاں مگر ہمار ا بھی تو ان کے بغیر گزارا نہیں ہوتا۔جن کی اک دعاہمیں فرش سے عرش پر پہنچا دے اور جن کی اک ناراضگی سے بنے کام بھی بگڑ جائیں،جن کی زیارت سے پورے حج کا ثواب ملے،جن کی خدمت سے ہم جنت کے حقدار بن جائیں۔اگر وہی ہستیاں ہم ہم سے دُوربہت دُور جا بسیں،جہاں سے آج تک کوئی بھی واپس نہیںلوٹا تو پھر زندگی میں تیرگی ہی چھائے گی ناں؟ 20مئی2015ایک ایسا دن جب عالم طِب کا اِک جگمگاتا ستارہ ڈوب گیا۔عالِم طِب میں ایک ایسا خلاء پیدا ہوا جو شاید ہی صدیوں میں پورا نہ ہو سکے۔رہی بات ہماری تو ہم تو ان کے پیروں کی خاک کے برابر بھی نہیں۔میرے والد گرامی(حضرت حکیم معلم الدین رحمتہ اللہ علیہ)اپنے خالق حقیقی کے پاس چلے گئے اور ہمیں تنہا کرگئے۔اکثر کہا کرتے تھے ،جن کا کوئی نہیں ہوتا ،خدا ان کا حامی و ناصر ہوتا ہے۔نگاہیں تو اشک بار رہتی ہیں۔مسکراہٹ تو ہم سے ہمیشہ کے لئے روٹھ گئی۔کسی چیز کی تمنا نہ رہی ،کسی تہوار کا شوق نہ رہا۔نہ ہماری عیدیں ،نہ ہماری خوشیاں۔
جب سے وہ رخصت ہوئے تابش
گھر مراخالی مکان لگتا ہے
کامیاب ہیں وہ قومیں جو اپنے بزرگوں کی روشن کی ہوئی شمع کو ہمیشہ روشن رکھتی ہیں۔شائد یہ غم اب زندگی کا حصہ بن چکے ہیں اور ان زخموں کا مسیحا ڈھونڈتے ڈھونڈتے عمر گزر جائے گی ۔جانے والے تو آنسوئوں کی سوغات دے کر چلے گئے لیکن جدائی یہ صدمے کون برداشت کرے۔رب رحمان سے بس یہی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔اور ہمیں صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ورنہ یہ دُکھ،یہ صدمے عذاب بن جاتے ہیں۔کسی نے کیا خوب کہا ہے
ہر تمنا دِل سے رخصت ہو گئی
ارے آئو کہ اب خلوت ہو گئی
تحریر : علی حسنین تابش