counter easy hit

نظام تعلیم میں بہتری کی خواہش

پارلیمانی جمہوریت میں صدرکا عہدہ عموماً اعزازی ہوتا ہے کیونکہ اس نظام میں سارے اختیارات چیف ایگزیکٹو یعنی وزیراعظم کی تحویل میں ہوتے ہیں پاکستان میں بعض صدورکو تو ازراہ مذاق دستخط کرنے کی مشین بھی کہا جاتا رہا ۔ بھارت جیسی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں بھی صدرکا عہدہ اعزازی ہی تصورکیا جاتا ہے، لیکن ہمارے ملک کے موجودہ صدر ممنون حسین نے جب سے صدرکا عہدہ سنبھالا ہے، قومی مسائل کے حوالے سے متحرک بھی دکھائی دیتے ہیں اور قومی مسائل کی نشان دہی کرکے متعلقہ حکام کو بیدار کرنے کی کوشش بھی کرتے نظر آتے ہیں۔

برطانیہ سے آئی ہوئی ایک پروفیسر ڈاکٹر سعیدہ شاہ سے ایک ملاقات کے دوران صدر ممنون حسین نے کہا کہ ’’نظام تعلیم کو بہترین بنانا ہماری اولین ترجیح ہے انھوں نے کہا کہ پاکستان کی جامعات کے معیارکو عالمی سطح پر لانے کی ہر کوشش کا خیرمقدم کیا جائے گا اور اس حوالے سے شروع کیے جانے والے تمام پروجیکٹس کو ایوان صدرکا تعاون حاصل رہے گا۔‘‘

صدرکی تعلیم جیسے ملک کے بنیادی مسئلے میں دلچسپی اور تعاون قابل تعریف ہے لیکن اس حوالے سے اس بات کا تعین ضروری ہے کہ یہ شعبہ کن کن بنیادی مسائل سے دوچار ہے اور انھیں کس طرح حل کیا جاسکتا ہے۔ ہمارا ملک ابھی تک قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اس لیے جدید علوم سے استفادہ کی بات تو دورکی بات ہے یہاں صورتحال یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں جہاں ملک کی لگ بھگ 70 فیصد آبادی رہتی ہے وڈیرہ شاہی کلچر اس قدر مضبوط ہے کہ دیہی آبادی پر حصول علم جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ دیہی آبادی کے اسکول وڈیروں کے مویشی خانے بنے ہوئے ہیں گھوسٹ اساتذہ کی بھرمار سے کسانوں، ہاریوں کے بچوں کے لیے اسکول اور تعلیم ممنوعہ شے بنے ہوئے ہیں۔

دینی مدرسوں کی بھرمارکا عالم یہ ہے کہ ان مدرسوں میں تیس لاکھ سے زیادہ طلبا زیر تعلیم ہے۔ طلبا کی اتنی بڑی تعداد کا طلبا کی تعریف میں آنا بلاشبہ ایک مثبت پیش رفت ہے لیکن اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ ان مدارس میں جدید علوم کا داخلہ ممنوع بتایا جاتا ہے۔آج کی دنیا سائنس ٹیکنالوجی آئی ٹی تحقیق وتجربات کی دنیا ہے، ترقی یافتہ قومیں اسی راستے سے گزرکر اس مقام پر پہنچی ہیں جہاں سے وہ ستاروں پرکمند ڈال رہی ہیں۔ ہماری مذہبی قیادت کا دعویٰ ہے کہ اسے دنیا کی قیادت کا حق ہے اس قسم کے دعوے کرنے کا حق ہر مذہب وملت کے ماننے والوں کو حاصل ہے لیکن دنیا کی قیادت کے لیے جن اوصاف کی ضرورت ہوتی ہے، ہم بدقسمتی سے اس حوالے سے تہی دامن ہیں۔

ہماری ذہنی اورفکری پسماندگی کا عالم یہ ہے کہ دوسری قومیں چاند تک رسائی حاصل کر چکی ہیں اور مریخ پر پہنچنے کی کوشش کررہی ہیں اور ہم چاند دیکھنے پر ایک دوسرے سے دست وگریباں رہتے ہیں۔ اس ذہنیت نے ہمیں جدید علوم سائنس ٹیکنالوجی تحقیق وتجربات کے کلچر سے دورکردیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کی قیادت کے لیے جن لوازمات کی ضرورت ہے انھیں ہم دین دشمنی پر محمول کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دیہی آبادی میں تعلیم کو عام اور لازمی کیا جائے اور تعلیمی اداروں میں سائنسی علوم کو سرفہرست رکھا جائے۔

یہ کام آسان نہیں کیونکہ مدرسوں کے سرپرست بوجوہ سائنسی علوم سے الرجک ہیں۔ دیہی آبادی کا دوسرا بڑا مسئلہ تعلیمی اداروں کا ناجائز اور شرمناک استعمال ہے جن اداروں میں بچوں کو علم حاصل کرنا چاہیے یہ ادارے وڈیروں کی اوطاق اور مویشیوں کی رہائش گاہیں بنے ہوئے ہیں اور ان اداروں کے اساتذہ گھر بیٹھ کر تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔ ہمارے صدر محترم ان حقائق سے یقینی طور پر باخبر ہوں گے اور اس مایوس کن صورت حال سے نکلنے کی کوششیں کرنی ہوں گی۔

صدر محترم نظام تعلیم کو بہترین بنانے کے خواہش مند ہیں۔ یہ ایک مثبت سوچ ہے لیکن ہمارے طبقاتی نظام نے تعلیم کو بھی طبقاتی بناکر رکھ دیا ہے۔ حکومت کے زیر انتظام چلنے والے سرکاری اسکولوں کی زبوں حالی کا عالم یہ ہے کہ ان اسکولوں میں زیر تعلیم طلبا اپنے وقت کا بڑا حصہ ’’غیر نصابی‘‘ سرگرمیوں میں گزارتے ہیں۔

چونکہ سرکاری اسکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھانے والا طبقہ معاشی طور پر اس قدرکمزور ہے کہ وہ پرائیویٹ اسکولوں کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتا لہٰذا ان طبقات کے بچے مڈل کلاس تک پہنچتے پہنچتے اسکولوں سے فارغ ہوجاتے ہیں اورکسی کھڈی یا کارپٹ کے کارخانے میں مزدوری کرکے اپنے تنگ دست ماں باپ کا ہاتھ بٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاری اسکولوں میں بنیادی اصلاحات لا کر ان اسکولوں میں تعلیم یافتہ اور ٹرینڈ اساتذہ کو لایا جائے اور سرکاری اسکولوں کے نصاب تعلیم کو جدید دنیا کی ضرورتوں کے مطابق بنایا جائے۔

ہمارے ملک میں ترقی یافتہ ملکوں کے تعلیمی اداروں کے پائے کے تعلیمی ادارے بھی موجود ہیں لیکن ان اداروں میں مڈل کلاس بھی اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلاسکتی، ان اداروں میں صرف ایلیٹ کی اولاد ہی تعلیم حاصل کرسکتی ہے کیونکہ اس کلاس کی جائز وناجائز آمدنی ہی ان اخراجات کو برداشت کرسکتی ہے۔ مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی تسلی و تشفی کے لیے ہمارے نظام میں انگلش اسکولوں کے نام پر جوکاٹج انڈسٹری پھیلی ہوئی ہے۔ اس انڈسٹری سے مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی نفسیاتی تشفی تو ہوجاتی ہے لیکن ان ’’انگلش میڈیم‘‘ اسکولوں کے فارغ التحصیل نوجوان معاشرے میں نہ کوئی اہم مقام حاصل کرسکتے ہیں نہ کسی شعبے میں امتیازی حیثیت حاصل کرسکتے ہیں ۔تعلیمی نظام میں بہتری لانے کے خواہش مند صدر محترم کو ان حقائق سے آگاہ ہونا چاہیے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website