پلوامہ میں کشمیری نوجوان نے بھارتی سیکورٹی فورسز کے قافلہ پر حملہ کیا۔ جس کے نتیجہ میں پینتالیس کے قریب سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوگئے۔ اس حملہ نے بھارت کے طول و عرض میں صف ماتم بچھا دی۔ بھارتی سرکار نے حسب معمول ملبہ پاکستان پر ڈال دیا۔ عجیب بات ہے کہ سٹاک ہوم میں بیٹھے ریسرچ سکالر کو تو معلوم ہوتا ہے کہ چند ماہ بعد دہشت گردی کا واقعہ ہوگا۔ لیکن نہ را کو خبرہوتی ہے نہ کسی اور انٹیلی جنٹس ادارے کو۔ اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ کسی بھی واقعہ کے بعد انڈین میڈیا کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس میں پاکستان ملوث ہے۔ پلوامہ کے واقعہ میں بھی ایسا ہی ہوا۔ الزام ان ڈائریکٹ پاکستان پر لگا دیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انٹرنیشنل سرحد پر بھارت کی فوج کی موجودگی۔ ورکنگ باونڈری پر بھی بھارتی سیکورٹی فورسز موجود ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر دہری باڑ نصب ہے۔ دنیا بھر کے جدید ترین حساس آلات اور ڈیجیٹل سیکورٹی کی سہولیات موجود ہیں۔ بی ایس ایف کی گشت بھی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ سات لاکھ ریگولر آرمی کشمیر پر قابض ہے۔ پھر بھی ایک عام نہتا نوجوان خود کش حملہ کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ یہ تو پھر بھارتی فوج کی ناکامی ہے۔ اور بھارت اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرا رہا ہے۔ اگرچہ عادل ڈار نامی حملہ آور نوجوان بھارتی ظلم و تشدد کا شکار ہوا۔ جس نے اسے حریت پسند بنا دیا۔ لیکن ایسی اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ
مذکورہ نوجوان گزشتہ سال ستمبر سے ہی بھارتی سیکورٹی فورسز کے زیر حراست تھا۔ اگر ایسا تھا تو بھارتی خفیہ اداروں نے ایک تیر سے کئی شکار کیے ہیں۔ مودی جی نے دو ہزار چودہ کے عام انتخابات میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی تو جنتا کی نظروں میں شائننگ انڈیا کے خواب تھے۔ ان پانچ سالوں میں بھارتیوں کو ہندو تہذیب کی بالادستی کے سپنے تو خوب دکھاے گئے۔ اقلیتوں کی قتل و غارت گری تو بہت ہوئی۔ لیکن ان کی بھوک افلاس اور تنگ دستی میں اضافہ ہوا۔ خود کشی کرنے والوں کی تعداد بڑی۔ ریپ کی شکار بھارتی ناریوں کا تعداد ریکارڈ قائم کر گئی۔ نوٹ بندی نے ان کی کمر توڑ دی۔ اس کے باوجود مودی کے مشیروں کی آنکھوں میں اگلی باری کیلئے امیدیں قائم تھیں۔ یوپی کے ریاستی الیکشن میں جیت نے سونے پرسہاگے کا کام کیا۔ لیکن پانچ سال مکمل ہونے سے چند ماہ پہلے پے در پے چار ریاستوں میں شکست فاش نے بی جے پی کی صفوں میں کھلبلی مچا دی ہے۔ چھتیس گڑھ، تلنگانہ، مہاراشٹر، راجھستان سے بی جے پی فارغ ہوگئی۔ اب وہاں کانگریس کا راج ہے۔ کانگریس راہول گاندھی اور اندرا گاندھی کی خوبرو پوتی پریانکا کی قیادت میں آندھی طوفان کی مانند تخت دلی کی جانب پیش قدمی کر رہی ہے۔
اب اس کا راستہ صرف پاکستان کا ہوا دکھا کر ہی روکا جا سکتا ہے۔ لہٰذا جموں کشمیر میں دہشت گردی کے ذریعے اس کھیل کا آغاز کر دیا گیا۔ اب سرجیکل سٹرائیکس کا ڈرامہ کھیلا جائے گا۔ لیکن خیر اس کیلئے تو افواج پاکستان تیار ہیں۔ اس مرتبہ عام انتخابات میں یہ حربہ کامیاب نہیں ہوگا۔ لیکن عاملہ صرف انتخابات کا نہیں ۔ بھارت کو خطہ میں امن قبول نہیں ۔ افغانستان میں امن مذاکرات اس کی ترجیح نہیں ۔ وہ تو امریکہ کے انخلا کے بعد تھانیداری کا خواب دیکھ رہا تھا۔ پاکستان کا سرگرم کردار اس کیلئے ڈراونا خواب ہے۔ پاکستان کی امریکہ سے قربت اس کو گوارا نہیں ۔ پاکستان پر پلوامہ دہشت گردی کا الزام لگا کر وہ امریکی قیادت کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ پاکستان ناقابل اعتبار ہے۔ دوسرا پاکستان نے کرتارپورہ کا لانگا کھول کر بھارت کو دفاعی پوزیشن میں لاکھڑا کیا ہے۔ وہ سکھوں کی سرعام مخالفت تو مو ل نہیں لے سکتا۔ لہٰذا اس موضوع پر مذاکرات کا پہلا دور مارچ میں ہونا تھا۔ اب بھارت پلوامہ کے واقعہ کو بہانہ بنا کر اس عمل کو تاخیر کا شکار کردے گا۔ اس کی کوشش ہوگی کہ عوامی رابطوں کا یہ عمل تاخیر کا شکار ہوجائے۔ تیسرا اہم معاملہ کلبھوشن کے معاملہ پر نئی پیش رفت ہے۔ آج سے عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن کے معاملہ پر سماعت کا آغاز ہورہا ہے۔
بھارتی جاسوس دہشت گردی کا اقراری مجرم ہے۔ انصاف پر معاملہ چلا تو فیصلہ پاکستان کے حق میں آئے گا۔ لیکن اس دنیا میں انصاف کہاں ہے۔ بہر حال دہشت گردی کے اس واقعہ کو بھارت عالمی عدالت پر دبا و ڈالنے کیلئے استعمال کرے گا۔ماضی میں جب بھی پاکستان میں کوئی ہائی پروفائل وزٹ ہونا ہوتا ہے۔ دہشت گردی کا بڑا سانحہ ضرور ہوتا ہے۔جس کی بنیاد پر بھارت وا ویلا مچا کر راے عامہ کو متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا۔ سعودی عرب کے ولی عہد پرنس محمد بن سلیمان کے پاکستان آنے سے پہلے پاکستان کے مشرق و مغرب میں دو واقعات ہوئے۔ پہلے ایرانی صوبہ سیستان میں خود کش حملہ ہوا جس میں ایرانی پاس داران انقلاب جاں بحق ہوئے۔ دو روز بعد پلوامہ میں خود کش حملہ ہوا۔ جس میں بھارتی فوج کے اہلکار جہنم واصل ہوئے۔ دو الگ الگ واقعات کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ آخر سعودی ولی عہد کی آمد سے قبل ہی کیوں۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا۔ دہشت گردی کے بہانے سے مذاکرات سے انکار۔ اقلیتوں پر مظالم سے ہاری ہوئی بازی جیتنے کی کوشش، پاکستان کو دہشت گردی میں کرنے کی بھونڈی کوشش اور امریکہ کی خوشنودی۔ دہشت گردی بھارت کا آزمودہ ہتھیار ہے۔ جس کے ذریعے وہ کئی مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ایسی کوششوں کا توڑ کرنا ہوگا۔