تحریر: شاہد شکیل
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا، قسمت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے، ہماری تو قسمت ہی خراب ہے، ہم اپنی قسمت کو تبدیل نہیں کر سکتے وغیرہ جیسے الفاظ دنیا بھر میں عام ہو چکے ہیں حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہے ، ماہرین کا کہنا ہے یہ سب ذہنی خرافات ہیں کیونکہ اگر انسان کچھ حاصل نہیں کر پاتا تو قسمت کا رونا روتا ہے۔دنیا بھر میں ہر انسان خوش رہنا چاہتا ہے اور خوش قسمتی کا متلاشی ہے ہر انسان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ قسمت کی دیوی ہمیشہ مہربان رہے اور زندگی بھر کسی آفت سے پالا نہ پڑے لیکن قسمت کا دارومدار کسی حد تک انسانی زندگی اور روزمرہ حالات واقعات کے علاوہ خوشی سے بھی منسلک ہے کیونکہ زندگی کے طویل سفر میں انسان کئی بار عدم اطمینان کا شکار ہوتا ہے اور قسمت کا رونا روتا اور کوستا ہے جبکہ یہ سب کچھ ایک نارمل عمل ہوتا ہے۔
اگرچہ دنیا بھر میں کئی افراد کو سب کچھ حاصل ہونے کے باوجود زندگی ، حالات اور دیگر انسانوں سے خواہ مخواہ شکایتیں بھی رہتی ہیں جو کہ قسمت نہیں بلکہ انکی اپنی سوچ اور ذہنی خرافات ہوتی ہیں یعنی کسی حد تک ذہنی امراض میں مبتلا ہوتا ہے۔انیس سو چون میں ایک امریکی ماہر نفسیات ڈاکٹر جیمز اولڈ نے لیبارٹری میں چوہوں کے سروں پر الیکٹروڈ لگا کر ایک ٹیسٹ کیا کہ آخر ان کی ذہنی صلاحیت کیسے تلاش کی جائے ،کچھ عرصہ بعد جیمز کیلئے نتائج خاصے دلچسپ اور سسپنس سے بھر پور ثابت ہوئے کیونکہ ٹیسٹ سے ظاہر ہوا کہ چوہوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی اور ایک احساس پیدا ہوا کہ اگر وہ اس مشین سے منسلک رہتے ہیں تو خوش ہیں جیمز نے کئی بار الیکٹروڈ کے سسٹم اور فریکوینسی کو مدھم رفتار سے چلایا اور کئی بار تیز کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ ممکنہ طور پر چوہے گدگدی محسوس کرتے ہیں اور اسی عمل سے خوش ہیں جب تک تھک نہیں جاتے ادھر ادھر پھدکتے رہتے ہیں ۔یہ کو ئی ریاضی کا سوال نہیں کہ جسے سمجھنے میں کسی میتھ پروفیسر سے رابطہ کیا جائے جیمز اولڈ کی اس ریسرچ سے ہم نے کیا سیکھا؟۔
جرمنی کے شہر ریگن برگ کی یونیورسٹی کی نیورو بایو لوجی اور جانورں کی نفسیات پر ریسرچ کرنے والی پروفیسر جو یونیوسٹی کی ڈائیرکٹر بھی ہیں کا کہنا ہے جیمز اولڈ کی تحقیق کے مطابق یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ ہر ذی روح کی نفسیات میں خوشی یا غمی برداشت کرنے کی ایک حد ہوتی ہے نہ وہ زیادہ دکھ اور نہ حد سے زیادہ خوشی برداشت کر سکتا ہے کیونکہ تجاوزات کا دوسرا نام موت ہے، ہماری بنیادی ضروریات ہی ہمیں خوش اور مطمئن رکھتی ہیں جن میں کھانا پینا اور گہری نیند شامل ہے وغیرہ لیکن ہم اکثر خوشی یا غمی کے موقعوں پر حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں اور کھانا پینا تک بھول جاتے ہیں اور یہ سب عوامل صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں
ہمارے دماغ اس لئے نہیں بنائے گئے کہ کسی بھی شے سے متاثر ہو کر دیگر معاملات بھول جائیں یا در گزر کریں کیو نکہ خوشی کا احساس بھی کبھی کبھی انسان کے دماغ کیلئے وبال جان بن جاتا ہے، ہمارا حیاتیات سسٹم ہمارے جسمانی اور روحانی توازن کو برقرار رکھنے کیلئے ہی مفید ثابت ہوتا ہے اور توانائی کو ممکنہ طور پر بچاتا اور دماغی سرکٹس کو بحال رکھتا ہے۔جہاں تک انسان کی خوشی اور غمی کے ساتھ قسمت کا سوال ہے تو وہ ایک نہایت الجھا اور گھمبیر پہلو یا ٹاپک ہے انحصار خطے اور ماحول پر کرتا ہے مثلاً کئی ممالک میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد انسان خوش ہوتا ہے۔
لیکن قسمت روٹھی ہوتی ہے اور کئی ممالک میں تعلیمی اور قانونی نظام اس قدر معقول ہوتا ہے کہ کڑی سے کڑی جڑی ہوتی ہے ادھر تعلیم ختم ہوئی ادھر پروفیشن کا کورس شروع ہوا اور بعد ازاں فوری جاب بھی مل جاتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ غریب گھرانے کا فرد ہائی ایجوکیٹڈ ہونے کے باوجود کہیں بھی جاب حاصل نہیں کر سکتا اور ایک امیر گھرانے کا تعلیم سے نابلد ہونے کے باوجود منسٹر کی پوسٹ پا لیتا ہے وغیرہ۔ دنیا بھر میں کئی افراد کا کہنا ہے قسمت وغیرہ پر صرف غریب،لاچار،غیر تعلیم یافتہ اور وراثت میں ملے کئی دقیانوسی خیالات کو مد نظر رکھ کر یقین ہی نہیں رکھتے بلکہ عمل بھی کرتے ہیں مثلاً خود کچھ کرتے نہیں اور سادہ الفاظ میں کہا جاتا ہے اگر قسمت اچھی ہوئی تو کام ہو جائے گا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغ میں خواہشات،خوشی ،ہوس اور دیگر عوامل پر قابو پانا مشکل ہے لیکن انسان میں اتنی صلاحیت ہوتی ہے کہ مثبت اور منفی عوامل کا موازنہ کرنے اور جانچ کرنے کے بعد فیصلہ کر سکے۔
زیورچ یونیورسٹی کے پروفیسر کا کہنا ہے انسانی نفسیات کو سمجھنا آسان نہیں کیونکہ انسانی ذہن کسی بھی وقت اپنا رخ یعنی سوچ تبدیل کر سکتا ہے ،قسمت کی دیوی بہت کم لوگوں پر مہربان ہوتی ہے اور اگر خوش قسمتی سے مہربان ہو جائے تو انسان موقع سے فائدہ نہیں اٹھاتااور ساری زندگی پچھتاوہ رہ جاتا ہے ،پروفیسر کا کہنا ہے جو انسان خوشی یا قسمت کو موجودہ کونزیوم یعنی میٹریل میں تلاش کرتا اور پا لیتا ہے تو وہ اسکی مستقل خوشی نہیں ہوتی اور نہ اسکی قسمت میں مثبت ثابت ہو سکتی ہے ،یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ مال ودولت انسان کو خوش رکھتے ہیں لیکن کئی بار اسکے منفی اثرات بھی مرتب ہوتے اور جان لیوا بھی ثابت ہو سکتے ہیں مثلاً مہنگی ترین کار کو تیز رفتاری سے ڈرائیو کرنے کے بعد قسمت سے گلہ نہیں کیا جاسکتا کہ ایکسیڈنٹ ہو گیا یا موت واقع ہو گئی۔انسان کو یہ سوچنا چاہئے کہ جو کچھ ہے اسی پر قناعت کرے اور خوش رہے یہی اسکی قسمت ہے لیکن خوب سے خوب تر کی تلاش جاری رکھے کیونکہ اگر کوئی فرد آج مزدور ہے تو کل فورمین ہو گا اور مستقبل میں مینجر بھی بن سکتا ہے قسمت پر بھروسہ کرنے سے زیادہ انسان کو اپنی محنت ، ہمت،اور ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے سے ہی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔
تحریر: شاہد شکیل