لاہور(ویب ڈیسک)فلاحی ریاست کیا ہوتی ہے؟ یہ شاید ہی پاکستان کے عوام جانتے ہوں کیوں کہ اُن کی فلاح کے لیے آج تک کوئی خاص منصوبہ شروع نہیں کیا گیا۔ دراصل فلاحی ریاست سے مراد ریاست کا وہ تصور جس میں ایک ریاست تمام شہریوں کو تحفظ اور شہریوں کی بہتری کے لیے ذمہ داری لیتی ہے۔
معروف صحافی محمد اکرم چودھری اپنے کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔۔ ایک فلاحی ریاست اپنے شہریوں کے جانی ومالی تحفظ کو اولین ترجیح قرار دیتی ہے اور اس کے لیے ٹھوس اقدامات کرتی ہے۔ ایک ریاست اپنے شہریوں میں کسی قسم کا امتیاز نہیں کرتی خواہ وہ لسانی،مذہبی،علاقائی امتیاز ہو یا اقتصادی و معاشرتی امتیاز ہو۔ پرانے زمانے میں ریاستیں صرف حکمرانوں کے مفاد تک محدود ہوا کرتی تھیں، آہستہ آہستہ ایسے روشن خیال انسان پیدا ہوئے جنہوں نے ریاست میں نئے تصورات پیش کیے جس سے انسانی زندگی میں بہتری آئی۔ انہوں نے ریاست کے نظام کو از سر نو ترتیب دیا اور لوگوں کے حقوق اور ریاست کے حقوق دونوں وضع کیے۔ انسان میں جمہوریت کی سوچ بڑھی اور ریاستی نظام میں بہتری آئی۔ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ریاست کے نظام میں ایک اور نیا تصور پیش کیا گیا جسے فلاحی ریاست کہا جاتا ہے۔
اسی تصور اور خیال کو مدنظر رکھتے ہوئے عمران خان نے گزشتہ روز کہا کہ پاکستان کو ایسی فلاحی ریاست بنائیں گے جس کی مثال دی جائے گی اور کھلے آسمان تلے رات بسرکرنے والوں کے لئے ’’ پناہ گاہ ‘‘کا سنگ بنیاد اس کی جانب پہلا قدم ہے ، خیبر پختوانخواہ اور سندھ میں بھی اسی طرز کے منصوبے شروع کئے جائیں گے۔’’پناہ گاہ‘‘ حقیقت میں مسافر خانہ ہوگا۔اس حوالے سے وزیر اعظم نے اپنے خطاب کے دوران سوشل میڈیا پر ایک مزدور کی اپنے بچوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے رات بسر کرنے کی وائر ل ہونے والی تصویر کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے جب انسان اشرف المخلوقات بنتا ہے تو فرشتوں سے بھی اوپر چلا جاتا ہے لیکن جب گرتا ہے تو جانور وں سے بھی نیچے گر جاتا ہے۔اس سنگ بنیاد کے رکھے جانے کے بعد ایک بات پر پختہ یقین ہو گیا ہے کہ عمران خان کی زندگی کے بہت سے ایسے پوشیدہ پہلو ہیں جنہیں شاید عوام نہیں جانتے ہوں گے لیکن وہ لوگ جو اُن کے قریب ہیں وہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ نمائش کے بغیر بہت سے انسانیت کی خدمت کے کام سرانجام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اور ’’ پناہ گاہ ‘‘ کا سنگ بنیاد فلاحی ریاست کی جانب پہلا قدم ہے۔یہ سنٹرز ریلوے اسٹیشن، اچھرہ، چوبرجی، داتا صاحب اور شاہدرہ میں بنائے جائیں گے۔ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر ایل ڈی اے مسافر خانے تعمیر کرے گا۔ ریلوے سٹیشن مسافر خانہ تعمیر پراڑھائی کروڑ خرچ ہوں گئے۔لاہور داتا دربار مسافرخانے پر تخمینہ لاگت تین کروڑ سے زائد ہے،لاری اڈہ مسافر خانہ تعمیر پر اڑھائی کروڑ خرچ ہوں گئے، بادامی باغ مسافر خانے پرتین کروڑاورٹھوکرنیازبیگ مسافر خانے پر اڑھائی کروڑ سے زائد رقم خرچ ہوگی۔
اس موضوع پر مزید آگے چلنے سے پہلے یہ بات بھی قارئین کو خبرکے ذریعے علم میں آچکی ہوگی کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی اہلیہ اور خاتون اول نے ایک فائونٹین ہائوس کا دورہ کیا ،وہ بچوں کے ساتھ گھل مل گئیں اور ان کو تحائف بھی دیئے۔انہوں نے فاؤنٹین ہاؤس میں موجودبچوں اورخواتین کے مسائل دریافت کیے۔وہ جب سے خاتون اول بنی ہیں وہ کہیں نہ کہیں فلاحی کاموں کو ترجیح دے رہی ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ خاتون اول صاف گوہیں اور پاکستانی عوام کے لیے وہ سیدھا سیدھا پیغام دیتی ہیں کہ انسانیت سے بڑھ کر کوئی خدمت نہیں ہوتی ۔وہ سیاست سے تعلق نہیں رکھتیں، لیکن خاتونِ اوّل کی متانت اور وقار اپنی جگہ مگر وہ زیادہ عرصے پاکستان کے سیاسی اور قومی معاملات سے بے نیاز نہیں رہ سکیں گی۔ اور یہی بات یقین کے ساتھ کی جاسکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ اپنی شخصیت کے گہرے اثرات مرتب کریں گی۔
میری نظر میں یہ وہ مسائل ہیں جو آج تک ہماری نظروں سے اوجھل تھے۔ ویسے تو عمران خان 1992ء ہی سے فلاحی کاموں میں مشغول ہو گئے تھے ، اُس کے بعد جمائما نے بھی انسانیت کی خدمت میں اُن کا بھر پور ساتھ دیا اور پاکستان کو اُس وقت کینسر کے علاج کا ہسپتال دیا جب یہاں اس بیماری کا علاج ممکن نہیں تھااس کے علاوہ نمل یونیورسٹی جہاں ہزاروں طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اور بنیادی طور پر یہ کریڈٹ خاتون اول کو جاتا ہے کہ اُن کوجذبہ انسانیت ان اداروں اور عوام کی خدمت کی طرف کھینچ لاتا ہے۔ خاتون اول کا ان چیزوں کی طرف بہت زیادہ رجحان ہے کہ غریبوں کی مدد ہونی چاہیے۔ بے آسرائوں کو آسرا ملناچاہیے، بے گھروں کو گھر ملنا چاہیے، غریبوں کو سب سے پہلے اُن کے حقوق ملنے چاہیئں، مذہبی آزادی سب کو ملنی چاہیے اور مستحق لوگوں کو اُن کا حق ضرور ملنا چاہیے۔
اُمید یہی رکھنی چاہیے کہ اس دور حکومت میں جہاں بڑے منصوبے لگنے ہیں وہیں یہ ضرورہوگا کہ انسانیت کی فلاح کے لیے یہ چھوٹے چھوٹے منصوبے بنیں گے جو انسانیت کی خدمت کے لیے کافی ہوں گے اور غریب کی زندگی کی سطح کو بلند کریں گے۔ یعنی آپ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ان دونوں کے کمبی نیشن سے بھلا عوام کا ہی ہوگاجس کی اشد ترین ضرورت تھی۔ دونوں شخصیات اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ پاکستان کا قیام علامہ اقبال کا ایک بہت بڑا وژن تھا جسے قائد اعظم نے عملی جامہ پہنایا ، قائد اعظم بیسویں صدی کی سب سے بڑی سیاسی شخصیت تھے جنہوں نے یہ خیال دیا کہ اسلامی ریاست کیا ہوتی ہے۔ دنیا میں سب سے پہلی مدینہ کی فلاحی ریاست تھی۔ یہ بات بھی حقیقت ہے ، جس سے ہم نظریں نہیں چرا سکتے کہ موجودہ حکومت کو آتے ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، ملک کے اوپر قرضوں کا پہاڑ چڑھا ہوا تھا ، اس ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا گیااور ابھی سو دن نہیں ہوئے کہ حکومت سنبھلنے لگی ہے۔
خیر اُمید یہی کی جانی چاہیے کہ حکومت کے ان منصوبوں سے عوام کو ریلیف ملے ’’ پناہ گاہ ‘‘ کی تعمیرات میں یہ نہیں سوچنا کہ یہ غریبوں کیلئے ہے ،جیسے ہسپتالوں میں امیروں کیلئے وی آئی پی روم جبکہ غریبوں کیلئے وہ وارڈز ہوتے ہیں جو مہذب معاشروں میں انسانوں کیلئے نہیں ہوتے۔ان تعمیرات کو سنٹرآف ایکسیلنس ہونا چاہیے ،اور اگر یہ تجربہ کامیاب رہتا ہے تو اس کو باقی صوبوں اور اضلاع میں بھی پھیلانا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ مزید ایسے منصوبے بنائے جس سے انسانیت کی خدمت ہو۔ کیوں کہ ہر ریاست کچھ کام کرتی ہے جو لوگوں کی سماجی اور معاشرتی ترقی اور دیگر عوامل سے مختلف ریاستوں میں مختلف ہوتی ہے۔ریاست معاشرے اور حکومت سے مختلف ہے اس کے دائرہ کار میں پوری انسانی زندگی نہیں آتی،ریاست کو اپنے آپ میں نظم و ضبط قائم کرنے انصاف فراہم کرنے،اپنی سرزمین کا دفاع کرنے اور کچھ منصوبہ بندی تک محدود رکھنا چاہیے۔ ریاست کے ہر فعل کو واضح طور پر بیان نہیں کیا جاسکتا۔
قوم یہ بھی جانتی ہے کہ خاتون اول وزیر اعظم کے لیے نیک نامی ہی پیدا کریں گی اور وہ ہر دم عوام کے مسائل حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گی۔ وہ یہ چاہتی ہیں کہ ریاست مقصود بالذات نہیں بلکہ اسے شہریوں کے ترقی،خوشحالی اور فلاح کے لیے قائم کیا جاتا ہے۔ریاست اجتماعی اور انفرادی مفاد توازن قائم کر کے اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے۔تمام شہریوں کے زندگی کے گزر بسر کے لیے خوراک،لباس اور رہائش کا انتظام کیا جانا چاہیے، بڑھاپے کے لیے پنشن دی جائے۔ تمام شہریوں کے لیے خواہ وہ کسی بھی گروہ سے تعلق رکھتے ہو، کے لیے لازمی اور یکساں نظام تعلیم۔مستحق شہریوں کے لیے مفت علاج اس کے علاوہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ایک فلاحی ریاست میں غربت تیزی سے کم ہوتی ہے، ایک فلاحی ریاست میں عوام پر پیسہ خرچ کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ قومیں تیزی سے غربت کی لکیر سے اوپرآتی ہیں جن کا ریاستی نظام بہتر ہے۔لہٰذااگر یہی ویژن رہا تو انشاء اللہ ایک دن ضرور آئے گا جب پاکستان فلاحی ریاست کے لحاظ سے اسلامی دنیا میں مثال بنے گا۔ کیوں کہ وہ ملک نہیں رہتا جہاں پر عوام کو نظرانداز کیا جائے۔