تحریر : ابن ریاض
عمران سیریز ہم بچپن سے پڑھ رہے ہیں۔ اس بنائ پر جاسوسی سے ہمارا شغف اتفاقیہ نہیں ہو سکتا۔ اتفاق سے ہمارا حقیقی نام بھی عمران ہی ہے مگر ہمارے ریکارڈ میں جاسوسی سے متعلق کوئی کارنامہ نہیں۔ نہ ہم نے اڑتے جہاز سے چھلانگ لگائی نہ ہی لیبارٹری تباہ کر ک گولیوں کی بوچھاڑ میں اپنے ساتھیوں کو فارمولے سمیت یوں نکال لائے کہ دشمن ہکا بکا رہ گیا۔یہی وجہ ہے کہ شکی مزاج بیگمات نے اپنے شوہروں کی نگرانی کے لئے ہم سے کبھی رابطہ نہیں کیا۔مگر اب ہم پر ایسا انکشاف ہوا ہے کہ آپ انگلیاں منہ میں دبا لیں گے( اپنی ہی دبائیے گا ورنہ ہم آپ کی سلامتی کی ضمانت نہیں دے سکیں گے)۔اس انکشاف کے بعد ہم ملک کے معروف سراغ رساں بن جائیں گے۔ہم بھی اک کبوتر پالیں گے اور اس سیسراغ رسانی کا کام لیں گے۔ ویسے تو اس کام لے لئے چڑیا موزوں ہے مگر وہ تو ہمارے ایک محترم بزرگ نے لے رکھی ہے۔ہمیں سن گن ملی کہ پاکستان میں پٹرول کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ اس معاملے میں ہم نے اپنے سیکرٹ ایجنٹوں کو متحرک کیا۔ لیکن وہ ایسے سست ثابت ہوئے کہ تحقیقات کرتے کرتے اتنا دور نکل گئے کہ جب تک اللہ نے پاکستانی قوم کو اس بحران سے کافی حد تک نکال دیا۔ لیکن پھر بھی اصل بات آپ تک پہنچانا میری ذمہ داری بنتی ہے۔اسی لیے ہم نے فرداً فرداً اپنے ہر ایجنٹ سے اس کی رپورٹ لی۔ جب سب کی رپورٹ کو مفصل کیا اور اس کو ترتیب دی تو نتیجہ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی بتائی گئی خبروں سے بالکل الٹ نکلا۔ ہمیں تو پہلے ہی شک تھا کہ دال میں کچھ کالا ہے، لیکن یہاں تو پوری دال ہی کالی نکلی۔جاسوسوں کی جاسوسی کے مطابق اس بحران کا سارا ملبہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی پر ڈالا جاتا رہا کہ اس اتھارٹی کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ ملک میں پٹرول کے سٹاک پر نظر رکھے اورقلت ہونے کی صورت میں متعلقہ کمپنیوں سے پوچھ گچھ کرے۔ اور یہ بیان وقتاً فوقتاً میڈیا پر دہرایا جاتا رہا۔ اب اصل حقیقت کیا ہے، اس پر سے پردہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ہم۔
اکنامک کو آرڈینشن کمیٹی ، جس کی صدارت وزیراعظم صاحب کرتے ہیں ، کی منظور شدہ پالیسی کے مطابق تیل کی ترسیل والی کمپنیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیس دن تک تیل کی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت حاصل کریں اور اس کو برقرار رکھیں۔ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کی تعمیر کی نگرانی اک مسلسل عمل ہے۔ اور 2006 کے بعد سے یہ اوگرا کی ذمہ داری ہے۔ قبل ازیں، وزارت پٹرولیم نے گیارہ لائسنس ان کمپنیوںکو جاری کیے تھے۔ ان میں پی ایس او، شیل پاکستان لمیٹڈ، شیوران پاکستان لمیٹڈ، اٹک پٹرولیم لمیٹڈ، ٹوٹل پارکو پاکستان لمیٹڈ، ایڈمور گیس لمیٹڈ، باکری ٹریڈنگ کمپنی لمیٹڈ، اوورسیز آئل ٹریڈنگ کمپنی، ھیس کول پرائیویٹ لمیٹڈ، آسکر آئل سروسز پرائیویٹ لمیٹڈ اور بائیکو پٹرولیم شامل ہیں۔ اوگرا نے اختیارات سنبھالنے کے بعد 12 کمپنیوں کو لائسینس دیے مگر کسی کو بھی بنیادی ڈھانچے کے بغیر تیل کی ترسیل اور پٹرول پمپ کھولنے کی اجازت نہیں دیـ اوگرا آئل مارکیٹنگ کمپنیوں پر یا پٹرولیم کے شعبے میں جو چیک اینڈ بیلنس رکھتا ہے اس کے لیے وہ 1971 کے پاکستان پٹرولیم قوانین کی مدد لیتا ہے۔
جب کہ ان رولز میں سے جن قوانین پر اوگرا سو فیصد با اختیار ہے وہ 13 مارچ 2006 کے ایس آر او 236 کے تحت اسے تفویض کیے گئے ہیں جب کہ کچھ اختیارات میں وزارت پٹرولیم مشترکہ طور پر اوگرا کے ساتھ کام کرتی ہے۔ البتہ کچھ قوانین میں صرف وزارت پٹرولیم ہی مکمل طور پر خود مختار ہے۔ یعنی ان قوانین کی مد میں اوگرا مداخلت کا مجاز نہیں۔اب اس بات پر غور کیا جائے تو ایس آر او 236 کے تحت پٹرول کے ذخیرہ کرنا، یا کمپنیوں کے مانگ اور فراہمی کے حوالے سے قدغنی توازن (یعنی چیک اینڈ بیلنس) رکھنے کی ذمہ داری وزارت پٹرولیم کی ہے۔ اس ایس آر او کے تحت پاکستان پٹرولیم کے قوانین سنہ 1971 کے شق نمبر 7، 8 اور 9 کے تحت وزارتِ پٹرولیم مختلف طریقے سے عمل کرتی ہے۔شق نمبر 7 کے تحت آئل ریفائنری منسٹری پٹرولیم کو ایک ماہ کا پیداواری منصوبہ پیش کرتی ہیں۔ منسٹری ملک میں مانگ کی صورت حال کا جائزہ لے کے شق نمبر 8 کے تحت اس کو جزوی یا کلی یا شق نمبر 9 کے تحت ترمیم کراکر منظور کرتی ہے۔اس کے بعد جب ملک میں سپلائی یا تقسیم کا مرحلہ آتا ہے۔
متعلقہ وزارت کے زیر صدارت ہر ماہ مصنوعات کی کھپت کا جائزہ لینے اجلاس منعقد ہوتا ہے جس میں تمام سٹیک ہولڈرز بشمول آئل ریفائنریاں، آئل مارکیٹنگ کمپنیاں، آئل کمپنیوں کی مشاروتی کونسل مثلًا پی آئی اے، ریلوے، ائیر فورم کے نمائندے شریک ہوتے ہیں جس میں مصنوعات کی ملک میں دستیابی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ آئندہ ماہ کی ضرورت کا تخمینہ لگایاجاتا ہے اور پیداوار کی فراہمی مقامی کمپنیوں کے پروگرام پر نظر ثانی سے یقینی بنائی جاتی ہے۔ قریب 75 درآمدات پی ایس او کے ذریعے ہوتی ہیں۔ کسی ? غیر معمولی صورت حال میں مصنوعات کی وسط مدت میں ضرورت کا جائزہ لے کے طلب میں اضافے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔اسی طرح متذکرہ بالا ایس آر او 236 کے تحت چند دیگر شقیں بھی کلی طور پر منسٹری پٹرولیم کے زیرِ عمل آتی ہیں۔ جن میں شق نمبر 7، 8،9، 11الف، 13، 20، 22، 30، 30 الف، 31، 33 الف، 39 اور 43 شامل ہیں۔ان میں بیشتر پٹرول کی طلب و رسد سے متعلق ہیں۔ خاص طور پر 30 الف کے تحت منسٹری پٹرولیم کی یہ کلی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے ذریعہ ملک میں کم از کم 20 دن کا پٹرول یا ڈیزل کا ذخیرہ برقرار رکھے۔مندرجہ بالا قانونی نقاط سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جنوری 2015 میں ہونے والے بحران کا ذمہ دار اوگرا نہیں تھا۔ جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق اوگرا ہر ایسے وقت میں جب بھی ملک میں پٹرول سے متعلق کوئی مشکل پیش آنے والی ہوتی ہے، جیسے سیلاب کی صورت حال ہو گئی جس کی وجہ سے آئل ٹینکر کی آمدو روفت میں مشکل پیش آسکتی ہے اور پٹرول پمپوں پر پٹرول ڈیزل کی قلت ہو سکتی ہے،
یا پھر سی این جی پر بندش کی وجہ سے پٹرول کی طلب میں اضافہ ہو سکتا ہے تو اوگرا باقاعدہ طور پر کمپنیوں کو متنبع کرتا ہے کہ وہ ہر حال میں پٹرول پمپوں تک پٹرول و ڈیزل کی رسد کو یقینی بنائیں۔ اوگرا گوداموں میں 20 دن کا ذخیرہ ہونے کے باوجود اگر پٹرول پمپوں پر پٹرول کی قلت ہو تو پھر ایکشن لیتا ہے اور اسکی وجوہات معلوم کرکے متعلقہ کمپنی سے باز پرس کرتا ہے۔ اگر پٹرول پمپ قصور وار ثابت ہوتا ہیتو اس پر جرمانہ کیا جاتا ہے اور تنبیہ کی جاتی ہے کہ فوراً سے پیشتر اپنے پمپ کے ذریعے پٹرول و ڈیزل کی سپلائی کو یقینی بنائے۔ یہ چیک مختلف صورت حال میں ہوتا ہے۔ ایک تو اوگرا کے انسپکٹرز اس سلسلے میں باقاعدہ چھاپا مار ٹیم کی صورت میں ملک کے مختلف حصو ں میں چکر لگاتے ہیں اور اوگرا کے ذریعے متعین کردہ قیمتوں پر عوام کو پٹرول کی سپلائی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ پٹرول کے معیار کو بھی یقینی بناتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کسی پٹرول پمپ پر پٹرول کا ذخیرہ کرکے عوام کو پٹرول دینے سے انکار تو نہیں کیا جارہا۔ ہر دوصورتوں میں متعلقہ پٹرول پمپ پر جرمانہ کیا جاتا ہے۔ہم نے صورت حال آپ کے سامنے رکھ دی۔۔ اسی لیے ہم نے بھی ساری صورت حال آپ کے سامنے رکھ دی ہے۔
اوگرا کس حد تک اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے اور مخالفین کیا کر رہے ہیں۔ اب قوم اس بات کا خود تعین کر لے کہ اس واقعہ کی ذمہ دار وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل ہے یا پھر اوگرا۔ ویسے اپنی جگہ کی بات ہے کہ منسٹر پٹرولیم جناب شاہد خاقان عباسی بھی اصول و ضوابط کی رو سے اس بات کو مانتے ہیں کہ کم از کم طلب و رسد کے حوالے سے اوگرا پر ذمہ داری نہیں پڑتی۔کسی اندھے کے پائوں کے نیچے بٹیر آ نا۔اس کہاوت سے تو ہم واقف ہیں مگر اس کا مفوم سمجھ میں اب آیاـ اب ہم بھی اس اسی شش و پنچ میں ہیں کہ اب تدریس سے ہی وابستہ رہیں یا پھر کل وقتی جاسوسی شروع کر دیں۔ ویسے بھی جاسوسی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ تمام ٹاک شوز کے میزبان اور بعض مہمان بھی اعلٰی پائے کے جاسوس ہی تو ہوتے ہیں۔
تحریر : ابن ریاض