تحریر : نجیم شاہ
کبوتر ایک معصوم اور خوبصورت پرندہ ہے۔ اتنا معصوم اور بھولا بھالا کہ بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے اور سوچتا ہے کہ اب اندھیرا ہے بلی مجھے نہیں کھائے گی لیکن اس طرح کرنے سے تھوڑی ہی دیر میں وہ اپنی جاں گنوا دیتا ہے۔ کبوتر کئی اقسام کے ہوتے ہیں۔ بقولِ ابنِ انشاء نیلے کبوتر کی پہچان یہ ہے کہ وہ نیلے رنگ کا ہوتا ہے اور سفید کبوتر بالعموم سفید ہی ہوتا ہے۔ کبوتر بازوں کا دعویٰ ہے کہ جتنی اقسام کے کبوتر ہوتے ہیں اُتنی ہی اقسام کے کبوتر باز بھی ہیں۔ سُنا ہے پرانے زمانے میں کبوتر پیغام رسانی کا اہم ذریعہ تصور کیا جاتا تھا، بعد میں ڈاکیہ نے یہ کام اپنے ذمہ لے لیا مگر جو کام اکیلا کبوتر کرتا تھا وہ ڈاکیہ کے بس میں بھی نہ تھا، اس لیے اب پیغام رسانی کا کام ڈاکیہ، انٹرنیٹ ای میل، موبائل فون اور ایس ایم ایس کے مشترکہ تعاون سے چلتا ہے۔ ماضی میں بادشاہوں کو کبوتر رکھنے، پالنے، سدھانے اور ان کی اُڑان کے مقابلوں کا شوق ہوا کر تا تھا اور آج کل حکمران کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کا شوق اَپنائے ہوئے ہیں۔ برصغیر میں کبوتر بازی کی تاریخ انتہائی قدیم ہے،
مگر رفتہ رفتہ یہ شاہی شوق عوام میں منتقل ہوا اور آج کل ہر دسویں گھر میں کوئی ایک شوقین ضرور ملتا ہے۔ ایک کبوتر باز چھت پر چڑھ کر اور کبوتر اُڑاتے ہوئے جتنی خوشی محسوس کرتا ہے اتنا خوش کبھی وہ اپنی شادی پر بھی نہیں ہوتا اور جب کبھی آسمان میں اونچی اُڑان بھرتے کبوتر کے ساتھ کوئی دوسرا کبوتر بھی آ جاتا ہے تو اس کی خوشی کی انتہاء نہیں رہتی۔ کسی بھی گھر کی چھت پر لگا اونچا جال دو باتوں کی تصدیق کرتا ہے، اول یہ کہ اس گھر میں کبوتر باز موجود ہے اور دوئم یہ کہ اس گھر میں کم از کم ایک شخص نکما ضرور ہے، اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ملک میں نکمے فقط وہی ہیں جو کبوتر کا شوق رکھتے ہیں۔ کبوتر بازی اب محض کبوتر بازی نہیں رہ گئی بلکہ اس کی باقاعدہ ایک ایسوسی ایشن بھی بن گئی ہے اور ان کی اُڑان کے مقابلے ہوتے ہیں جن میں لاکھوں روپے کا جواء بھی کھیلا جاتا ہے۔
اِن مقابلوں کے دوران عموماً ماہر کبوتر باز شناخت کیلئے اپنے کبوتروں کے پَروں پر مہر اور خاص قسم کی روشنائی لگاتے ہیں جبکہ پائوں میں دھاتی چھلا ڈالتے ہیں جس پر شناختی سیریل نمبر درج ہوتا ہے یا پھر اپنا فون نمبر لکھ دیتے ہیں تاکہ اُڑان بھرنے والا کبوتر اگر واپس منزل پر نہ پہنچ سکے تو اس کے اصل مالک کی پہچان ہو سکے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ مقابلہ بازی کے دوران اُڑان بھرنے والا کبوتر واپس اپنی منزل پر نہیں پہنچ پاتا اور اگر ایسا کبوتر اتفاق سے پاکستان کے مشرق کی طرف اُڑان بھر لے تو پڑوسی ملک جا پہنچتا ہے اور پکڑے جانے پر وہ آئی ایس آئی کا تربیت یافتہ جاسوس بن جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک جاسوس کبوتر کے آج کل پڑوسی ملک بھارت میں خوب چرچے ہیں۔
یہ کبوتر پاکستان سے ملحق بھارتی گجرات کی سرحد سے پکڑا گیا ہے۔ بھارتی اعلیٰ افسران کا دعویٰ ہے کہ یہ جاسوس کبوتر پاکستانی خفیہ ایجنسی نے گجرات میں ممکنہ طور پر اپنے ایجنٹس کے پاس بھیجا تھا۔ اس کے پنجے سے ایک مائیکروچپ بندھی ہوئی تھی، جس پر انگریزی ہندسوں میں خفیہ کوڈ لکھا ہوا تھا۔ بھارتی انٹیلی جنس افسران کی ہدایت پر اس مائیکروچپ کو فارنسک لیبارٹری بھیجا گیا جہاں ماہرین نے اس کے تجزیئے کی رپورٹ مرکز کو بھیج دی ہے۔ دوسری جانب مذکورہ جاسوس کبوتر کو وادی نار پولیس اسٹیشن، ضلع دوارکا میں کوسٹ گارڈ اہلکاروں کی نگرانی میں قید رکھا گیا ہے اور اس سے تفتیش جاری ہے کہ وہ بغیر ویزہ بارڈر کراس کرکے بھارت میں داخل کیسے ہوا۔ ایک بھارتی چینل نے جاسوس کبوتر کی گرفتاری کا مضحکہ اُڑاتے ہوئے رپورٹ میں کہا ہے کہ اس عام سے کبوتر کے پائوں میں صرف ایک دھاتی چھلا پایا گیا ہے جو عموماً ماہر کبوتر باز شناخت کیلئے ڈالتے ہیں۔ اس دھاتی چھلے کو مائیکروچپ قرار دے کر بھارتی انٹیلی جنس میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ معروف بھارتی جریدے ریڈف نے بھی اپنی رپورٹ میں جاسوس کبوتر کی گرفتاری کے معاملے کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے مبینہ مائیکروچپ کو ایک معمولی چھلا قرار دیا ہے، مگر بھارتی انٹیلی جنس نے اس عام سے کبوتر کو ”پاکستانی جاسوس” قرار دے کر چائے کی پیالی میں طوفان کھڑا کر دیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی بھارتی ریاستی وزیر داخلہ کی جانب سے پولیس، انٹیلی جنس بیورو اور بارڈر سکیورٹی فورس کو بھی پابند کیا گیا ہے کہ وہ فضائوں میں پرواز کرنے والے کبوتروں کی مانیٹرنگ کریں۔ چند سال قبل بھی بھارتی حکام نے کٹھن مقابلے کے بعد ایک کبوتر کو دھر لیا تھا اور پھر اُسے پولیس کے اسپیشل انویسٹی گیشن روم میں رکھا گیا جہاں اس سے خصوصی تفتیش کی گئی مگر وہ بیچارہ صرف ”گٹرگوں، گٹرگوں” کے سوا کچھ نہیں بولا۔ اس لیے بعد میں اسے ریمانڈ پر محکمہ وائلڈ لائف کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ 2011ء میں امرتسر کے ڈی آئی جی رام سنگھ نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ لاہور کے مختلف علاقوں سے سدھائے گئے پالتو کبوتر موبائل فون کی سمیں اور دیگر حساس معلومات لئے انڈیا میں داخل ہوتے ہیں اور وہ چیزیں متعلقہ آدمی تک پہنچا کر اُس سے معاوضہ لے کرواپس چلے جاتے ہیں۔ انہوں نے انڈیا کی حدود میں داخل ہونے والی پاکستانی پالتو کبوتروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو بھارت کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ قرار دیا۔ بھارتی سکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں پکڑے جانے والے کبوتر کو اندازہ بھی نہیں ہو گا کہ وہ سیکرٹ ایجنٹ ہے لیکن جس طرح سے اس کے پکڑے جانے پر کھلبلی مچی ہوئی ہے لگتا ہے بیچارے کو جلد ہی سزائے موت ہو جائے گی۔
ویسے پڑوسیوں کے کبوتر تو آتے جاتے رہتے ہیں اور اچھے پڑوسی کبھی شک نہیں کرتے۔ بھارت کو سمجھ لینا چاہئے کہ جس ملک کے کبوتر اتنے ایڈوانس ہوں اس ملک کے کبوتر باز کیسے ہونگے؟ انڈیا کی عزت اسی میں ہے کہ وہ اپنے الفاظ واپس لے کر تمام کبوتروں سے اظہارِ افسوس کرے ورنہ کیا پتہ آج پاکستان نے کبوتر بھیجا ہے کل کو اونٹ نہ بھیج دے۔ جیو پاکستانیو!
تحریر : نجیم شاہ