اوریگون: پوری دنیا میں ٹیلی میڈیسن یعنی جدید آلات کے ذریعے، دور رہنے والے مریضوں کی تشخیص وعلاج پر بہت کام ہوا ہے۔ اب اس ضمن میں تازہ خبر یہ ہے کہ قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کو نابینا کرنے والے ایک مرض کی درست شناخت ٹیلی میڈیسن کے ذریعے کی گئی اور اس کے نتائج عین وہی ہیں جس طرح بچے کو سامنے دیکھتے ہوئے معالجین کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں۔
جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن (جاما) اوپتھیلمولوجی میں اس کے نتائج شائع ہوئے ہیں جن میں مریض کے سامنے رہتے ہوئے اور دور رہتے ہوئے ٹیلی میڈیسن کے ذریعے معائنے کے نتائج کا موازنہ پیش کیا گیا ہے۔
اس طرح دیہات اور دور دراز علاقوں میں ایسے بچوں کا بروقت معائنہ کیا جاسکتا ہے جو بڑے اسپتالوں تک نہیں پہنچ پاتے۔ اس طرح افرادی قوت کی کمی کے شکار ان علاقوں میں ’ریٹینوپیتھی پریمیچیورٹی‘ یا آر او پی کا بروقت علاج کرکے عمر بھر کے نابینا پن سے بچانا ممکن ہوگا۔
پاکستان ہو یا دیگر ترقی پذیر ممالک، وہاں دور دراز علاقوں میں موجود آبادی ٹیلی میڈیسن سے فائدہ اٹھاسکتی ہے۔ پاکستان میں اس ضمن میں بہت کام ہوا ہے لیکن اس کے عملی اطلاق کی رفتار سست ہے۔ اس ضمن میں پورٹ لینڈ میں واقع ایلک چلڈرن آئی ہاسپٹل سے وابستہ ڈاکٹر مائیکل ایف چیانگ اور ان کے ساتھیوں یہ سروے کیا ہے۔
ڈاکٹر مائیکل کا کہنا تھا: ’تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی کمی اور وسائل تک عدم رسائی کی وجہ سے غریب علاقوں کے بچے نابینا ہورہے ہیں اور یہ رحجان ترقی یافتہ ممالک میں بھی دیکھا گیا ہے جو بہت افسوسناک ہے۔ اب اس طریقے سے یہ مسئلہ حل کرنے میں مدد مل سکے گی۔‘
نومولود بچوں میں رینٹیوپیتھی سے قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کے ریٹینا میں خون کی ناقص نالیاں بنتی ہیں اور یوں وہ دھیرے دھیرے مکمل نابینا ہوجاتے ہیں۔ امریکا میں ہر سال 400 سے 600 بچے اس سے متاثر ہوکر مکمل طور پر اندھے ہورہے ہیں۔ اس طرح خود تیسری دنیا اور دیگر غریب ممالک میں اس مرض کی شدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
عام طور پر ماہرین بچے کی آنکھ کی پتلی کو ڈراپس کے ذریعے پھیلا دیتے ہیں۔ اس کے بعد تیز روشنی کی شعاع آنکھ میں ڈال کر اسے عدسے کے ذریعے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ کام مہارت مانگتا ہے اور پسماندہ علاقوں میں اس کے ماہر نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔
دوسرے طریقے میں خاص آلات کے ذریعے بچے کی آنکھ کی تصاویر لی گئیں اور 281 بچوں کا معائنہ سات اسپتالوں کے ماہرین نے کیا۔ پہلے ڈاکٹروں نے خود بچے کے پاس بیٹھ کر اس کا جائزہ لیا اور دوسرے مرحلے میں ٹیلی میڈیسن سے اسے دیکھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں تشخیص میں کوئی خاص فرق نہ تھا۔
ٹیلی میڈیسن میں مریض کا موبائل آلات کے ذریعے معائنہ کیا جاتا ہے اور اس کی رپورٹ بڑے شہروں میں موجود ڈاکٹروں کو دی جاتی ہے جسے دیکھ کر وہ تشخیص وعلاج تجویز کرتے ہیں۔ دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں ٹیلی میڈیسن کو درست انداز میں استعمال کرکے لوگوں کی زندگی بہتر بنائی جاسکتی ہ