تحریر : سرور صدیقی
یہ بات یقینی ہے کہ ہم مسلمانوں کوآج بھی لوگوں نے وقت کی نزاکت کا احساس تک نہیں ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے چین۔۔۔جاپان کی ترقی کو نگل گیا اب جاپانی کمپنیاں چین میں مینو فیکچرنگ کرنا اپنے لئے اعزاز سمجھتی ہیں۔۔بنگلہ دیش کی آزادی کو صرف32سال ہو ئے ہیں اور وہاں کم وبیش 2000پاکستانی تاجر،صنعت کار اور سرمایہ کاروںنے ہیوی انوسٹمنٹ کررکھی ہے اس کے برعکس ہم نے آج تک کیا کیا۔۔بیکو جیسا شاہکار ادارہ تباہ کر ڈالا۔۔۔پاکستان سٹیل ملز ہم سے چل نہیں رہی مسلسل خسارا اس کا مقدر بناہواہے۔ پاکستان ریلوے کی حالت سب کے سامنے ہے اور تو اور پی آئی اےPIAجیسا قومی ادارہ آخری ہچکیاں لے رہا ہے اس کے علاوہ انگنت سفید ہاتھی قومی خزانے پر مستقل بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ کسی کے اچھوتے خیال نے دنیا کو بدل کررکھ دیا اورہم خوابوں ،خیالوںکی دنیا سے ہی باہر آنے کو تیار نہیں۔۔۔آئیے !ہم سب ا س ماحول کو بدلیں پاکستان کو نئی سوچ دیں، اچھوتے خیال پیش کریں یہی زندگی کی علامت ہے اور ترقی کی بنیاد بھی۔میرادل توبے اختیاراس سخص کو سیلوٹ کرنے کو کررہاہے جو دنیا میں پہلی مرتبہ اپنے بازو اور ٹانگوںپر لمبے لمبے پر لگاکر اڑنے کی کوشش میں گرکر زخمی ہو گیا۔
دنیا قیامت کی چال چلتی جا رہی ہے اور ہم فرسودہ خیالوں اور دقیانوسی ماحول سے باہر ہی نہیں نکلتے ۔ ایک دوسرے سے لاتعلقی،بے حسی ،بے مروتی اس قدر غالب آگئی ہے کہ اب تو مطلب کے بغیر کوئی ہاتھ ملانا بھی پسندنہیں کرتا غریب رشتہ دارکی طرف دیکھنا بھی معیوب بن گیاہے شاید الفاظ کے معنی الٹ ہوگئے ہیں یا لوگوںکی کھوپڑیاں۔۔۔اس بے حسی ،انسان کی ناقدری اور روپے پیسے سے اتنی محبت کہ ماتم کرنے کو جی کرتاہے اسلام نے دولت سے محبت کو فتنہ قرار دیاہے جبکہ صرف اپنی ذات کے متعلق سوچنا رہبانیت ہے ۔آج کوٹھی،کار،کاروبار اور ہر طرح کی آسائشیںہماری دسترس میں ہیں جن کے پاس وسائل ہیں دولت ان پر عاشق ہے ،کھانے کو ہزار نعمتیں ،پہننے کیلئے قیمتی ملبوسات کی وسیع رینج ،۔۔۔ نزاکت ،شہرت اوردنیا جہاںکی مہنگی سے مہنگی چیزیں گھرکی لونڈی۔
لیکن ستم بالائے ستم یہ کہ دل محبت سے خالی ہو گئے ہیں مسلمان ہونے کے باوجودہم مروت، احساس ،اخوت،بھائی چارہ اور ایک دوسرے س کی چاہت سے عاری ہوتے جارہے ہیں اوردل ہیں کہ خواہشات کے قبرستان بن گئے قبرستان بھی ایسا کہ ٹوٹی پھوٹی قبریں جن پر کوئی دیا ٹمٹماتا ہے نہ کوئی فاتحہ پڑھنے کیلئے آتاہو حیف صد حیف پھر بھی ہم سمجھتے ہیں زندہ ہیں۔ لیکن سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے کیا یہ سب کچھ زندگی کی علامت ہے؟۔۔ کیا ہم اپنے لاشے کندھوںپر اٹھائے نہیں پھرتے ۔۔۔ہمارا رویہ ۔۔ شخصیت کا تضاد ، بناوٹ ،جھوٹی نمائش اور خلق ِ خدا سے سلوک سب کا سب ہماری مذہبی تعلیمات کے منافی ہے۔اللہ اور اللہ کے رسولۖ کے احکامات کی صریحاً خلاف ورزی ہے ۔۔۔ہم نے یہ بھی کبھی غورنہیں کیا کہ بڑے بڑے گھروںمیں رہنے سے انسان بڑا نہیں ہوتا چھوٹے گھروںمیںبھی بڑے لوگ رہتے ہیں ہمارے لئے یہ جاننا کافی نہیں کہ صرف اپنے متعلق سو چنا رہبانیت ہے اور راہب کا دل ویران ہوتاہے۔
ایک بہترین معاشرے کی تشکیل، لوگوںکے دکھ سکھ میں شرکت،صلہ رحمی، مخلوق ِ خدا سے محبت اوراخوت ہی تو اسلام کی اصل روح ہے اس پر عمل کئے بغیر ہماری روح بے چین رہے گی حقیقی سکون نہیں مل سکتا۔ انسانی رویے، امارت غربت ،طبقاتی کش مکش معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیںلیکن سوچتا کوئی نہیں۔روز روز درپیش سنگین معاملات ، سلگ سلگ کر جینا۔۔ سسک سسک کر مرنا ۔۔۔ ہر وقت خوف۔۔۔ ہر لمحہ اضطراب عام پاکستانی اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے کیا واقعی زندگی اسی کو کہتے ہیں؟ زندگی سے بھرپور اندازسے لطف اندوز ہونے کیلئے دوسروںکو اپنی خوشیوں میں شریک کیجئے یقین جانئے آپ کو بہت سے سوالوںکا جواب مل جائے گا۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کااعزاز بخشاہے ہم ہیں کہ مارا ماری ،چوربازاری،لالچ ، ہوس ،فریب،دھوکہ اور نہ جانے کتنی برائیوںکو اپنی زندگی کا لازمی جز بنا لیاہے جھوٹ توہماری نس نس میں شامل ہے اور ایک جھوٹ کو چھپانے کیلئے جھوٹ در جھوٹ بولنے پر کوئی شرمندگی کا احساس تک نہیں ہوتاہم ذہن کے دریچے کھول کر غور بھی نہیں کرتے کہ ہمارا دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے۔
کیا اب بھی یقین نہیں کہ اس کرہ ٔ ارض میں انسان ہی انسان کا دشمن ہے؟ اتنی ترقی کہ دنیا چاندپرایک نئی دنیا بسانے کی آرزو مندہے۔۔۔اتنی پستی کہ لوگ غربت کے مارے خودکشیاں کرتے پھریں اور حکمرانوں سمیت کوئی پرواہ نہ کرے۔۔۔کیا زمانہ آگیاہے انسان۔۔۔انسانوںکا استحصال کرتا پھرتاہے پھربھی اس بات کا متمنی ہے کہ اللہ اسے جہاں بھر کی نعمتوں سے سرفراز کرے۔۔ہم جو کرتے پھررہے ہیں اس سے خالق ِ جہاں راضی نہیں کہیں یہ نہ ہو قیامت کے روز نجس جانور بازی لے جائیں۔
حرص ،لالچ ، طمع ، جھوٹ بے شک انسان کی شرست میں ہے لیکن سوچئے یہ امتحان کا ایک انداز بھی ہوسکتاہے اس سے اجتناب کرنے سے انسانیت فخر کرتی ہے آج معاشرے میں جتنی بھی برائیاں ہیں ان سے نجات کا واحد راستہ صرف ایک ہے ۔۔۔ہم سب انسانوں سے،انسانیت سے محبت کرنا شروع کردیں کوئی یقین کر سکتاہے یہ بڑے فائدے کی بات ہے اس سے معاشرے میں ایک خوشگوار تبدیلی آنا یقینی بات ہے جب نفرتوں کا خاتمہ ،کدورتوںسے نجات اور نفسا نفسی سے چھٹکارا ملتاہے دل کو سکون آجاتاہے۔
تحریر : سرور صدیقی