تحریر : بشریٰ خان
“ارے او حسینہ ! کہاں چل دی ؟؟ اری او نقاب پوش ذرا نظر کرم ادھر بھی ، یوں نظریں جھکا? کہاں جاتی ہو ؟؟ ” شزا کریم کی جھکی نظریں مزید جھک گئیں اور قدموں کی رفتار میں بھی تیزی آ گئی۔ گلی کا موڑ مڑتے ہی اس نے سکھ کا سانس لیا اور ان لفنگوں سے پیچھا چھوٹنے پر شکر ادا کیا تھا۔۔ یہ صرف آج کی بات نہیں تھی ، یہ تو ان لفنگوں کا روز کا معمول تھا اور اسکی زد میں صرف شزا کریم کی ذات نہیں بلکہ اس سڑک سے گزرنے والی ہر لڑکی کو یہ بیہودگی سہنی پڑتی تھی۔۔ یہ صرف شزا کریم کی نہیں بلکہ اکثر لڑکیوں پر بیتنے والی داستان ہے ، لڑکی چاہے تعلیمی ادارے کی ہو یا پھر ملازمت کرتی ہوئی کوئی لڑکی ، ہر جگہ ایک ہی حال ہے۔ مردوں کی نظریں یوں ایکسرے کرتی ہیں کہ لڑکی کو لگنے لگتا ہے کہ وہ کچھ غلط کر رہی ہے۔
ایسا نہیں کہ ہر جگہ مرد غلط ہیں ،، کوئی شک نہیں کہ کچھ لڑکیاں غلط حرکتوں سے مردوں کو غلط سوچنے اور کرنے کا موقع دیتی ہیں ،،، جیسے کبھی بیہودہ لباس سے ، اور کبھی بیہودہ گفتگو سے ، مگر گیہوں کے ساتھ گن بھی پس جائے۔۔ یہ کہاں کا انصاف ٹھہرا ؟؟ ان لڑکیوں کا کیا قصور ہے جو صرف اس لئے پردہ کرتی ہیں اور اپنی نگاہ کی حفاظت کرتی ہیں کہ یہ اللّہ تعالیٰ کا حکم ہے۔
وہ معاشرہ کیسے ترقی کر سکتا ہے جس معاشرے میں راہ چلتی لڑکی محفوظ نہ ہو ؟ جب ایک لڑکی رکشہ یا کار میں سفر کر رہی ہو اور مردوں کی ہوسناک نظریں اسکے نقاب کے آر پار ہو رہی ہوں ! جب گھروں میں جنسی زیادتی کی خبر کو دیکھنا یا سننا بھی ممنوع ہو ،، ایسے معاشرے میں کسی لڑکی بہن بیٹی کو عزت نہیں مل سکتی کجا کہ انصاف ،،، ؟ نہ ہی ایسے معاشرے کو فلاحی معاشرہ کہا جا سکتا ہے۔
آج کے اس تیز رفتار دور میں جب ہر طرف ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہے ہمارے ملک میں ابھی تک خواتین کے حقوق نہیں دیے جاتے ، دوسرے ملک چاند پر کمند دال چکے ہیں اور یہاں ابھی تک یہ نہیں طے ہو سکا کہ عورت کو مردوں کے ساتھ ملازمت کرنی چاہیے کہ نہیں۔
بہنو ! بھائیو ! یہ تفریق ہمیں ختم کرنی ہے ، یہ شعور ہمیں پیدا کرنا ہے کہ کسی تعلیمی ادارے میں پڑھنے والی ، سڑک پر ، یا کسی شاپنگ مال میں شاپنگ کرتی ہوئی عورت بکاؤ مال نہیں بلکہ اتنی ہی عزت کی حقدار ہے جتنی کہ ہماری اپنی بہن ، یا بیٹی۔۔ حوا کی عزت کرنا اور کروانا ہمارا کام ہے۔۔ اللّ? تعالیٰ ہمیں عورتوں کی عزت کرنے اور کروانے کی توفیق عطا فرما?۔۔۔۔ آمین۔
تحریر : بشریٰ خان