تحریر : شاہ بانو میر
گزشتہ دنوں مجھے بلجئیم جانے کا اتفاق ہوا۔ دوران سفر کچھ واقعات ایسے ہوئے کہ جنہیں آپ سب تک پہنچانا گویا قلم کا قرض ہے جسے چکانا ضروری ہے۔ نعمت اللہ کی کوئی بھی ہو اس سے اکیلے مستفید ہونے کا حکم نہیں ہے ۔ مومن تو وہ ہے جو نہ ہو تو “”شکر”” کرے اور ملے تو بانٹ کر کھانے کا حوصلہ رکھے۔ اس حکم کو پڑھنے اور سننے سے پہلے بھی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی کہ جو اپنے لئے اچھا ہے وہ سب کیلئے اچھا ہوگا۔ اسی لئے وہ بانٹا جو اللہ پاک نے عطا کیا تھا ۔ علم کی صورت تحریر کی صورت کیونکہ میرے دین کا ظرف بہت بڑا ہے اس ظرف کا تعلق نیت سے ہے دولت سے وسائل کی فراوانی سے نہیں۔
چلیں واپس چلتے ہیں سفر کی جانب ہم لوگ راستے میں فریش ہونے کیلئے ایک پوائنٹ “” ریسٹ ایریا “” پر رکے۔ اللہ اکبر ایسا لگا گویا میدان حشر ہے اور لوگوں کا جم غفیر فرق واضح طور پے یہی دکھا کہ اس وقت سب کے چہروں پر اعمال کی قبولیت کے ہونے کا خوف زرد کئے ہوئے ہوگا مگر آج یہاں اس کے برعکس اعمال کا خوف نہیں جو پا چکے اس کا برملا اظہار تھا بہترین گاڑیوں سے بہترین ملبوسات سے اور بہترین طعام سے۔ چھٹیاں ہو چکی ہیں اور پورا یورپ مانند خانہ بدوشاں ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جانے کیلئے کس سرعت سے پر بکھیر رہے ہیں اس کا واضح منظر یہ اسپاٹ تھا۔ بے فکری چہروں پر ڈرائیونگ سیٹس پر براجمان والدین کے چہرے قدرے تھکاوٹ کا مظہر ۔ بچے کولڈ ڈرنکس لئے نئی جگہ پر پہنچنے کیلئے بیتاب۔
کیس کو اس وقت اپنے گھر میں موجود ڈائینگ ٹیبل کی یاد نہیں آ رہی تھی بے فکری تھی سب کے چہروں پر جتنا رش اسپاٹ کے اندر تھا اس سے دوگنا باہر تھا۔ اپنی اپنی فیملیز کے ساتھ سب لوگ بیٹھے کھا رہے تھے پی رہے تھے اور پھر فارغ ہو کر آگے روانہ ہو رہے تھے۔ دلچسپ منظر کہ آپکو بوریت کا احساس نہ ہونے دے۔ اسی اثناء میں ایک طرف سے کچھ غیر معمولی آوازیں سنائی دیں ہم لوگ بھی ہاتھوں میں کولڈ ڈرنکس لئے اس جانب بڑھے تمام لوگ کسی کارواں کو گھیرے ہوئے تھے اور اس کے گرد یوں چکر لگا کر اسکو دیکھ رہے تھے سراہ رہے تھے گویا وہ کسی نادر شے کو دیکھ رہے ہوں۔ میں سمجھنے سے قاصر تھی ۔ کہ ایسا کیوں پھر کانوں میں فرنچ کے کچھ خوبصورت الفاظ سنائی دئے ۔
جن کا مفہوم یہ تھا کہ یہ کارواں شائد اس وقت کا ہے جس وقت ان کا آغاز کیا گیا تھا یعنی بہت پرانا ماڈل ۫ کافی بڑی عمر کے لوگ تھے جو اس کے ہمراہ تھے ؛ مجھے لوگوں کی نگاہوں میں اچانک ایک تعظیم محسوس ہوئی حالانکہ ایک سے ایک بڑھ کے خوبصورت مہنگی گاڑیاں گردو پیش میں موجود تھیں جو ان کے صاحب حیثیت ہونے کا پتہ دے رہی تھیں لیکن ان کا یوں اس کارواں کو تعریفی نگاہوں سے دیکھنا ان لوگوں سے بات کرنا ادب احترام کا لہجے میں ہونا بہت الگ ماحول کی نشاندہی کر رہا تھا جو بالعموم اس یورپ کی روایت سے ہٹ کر تھا؛ وہاں موجود لوگوں نے جب سوال کئے تب یہ پتہ چلا کہ یہ اپنی منزل پر پہنچ،نے پر تاخیر کر رہے ہیں
کیوں؟
محض اس لئے کہ ان کے درمیان وہ لوگ ہیں جو ایسے وقت میں ان چیزوں سے آشنا ہوئے جب یہ عام لوگوں کی پہنچ سے دور تھیں ۔ اور ان کے چہرے یوں جگمگا رہے تھے کہ گویا وہ اس تعریف کے ستائش کے عادی ہیں۔ عام لوگ عام ملبوسات میں جن میں گرمیوں کی ضرورت دکھائی دے رہی تھی اور سفر میں آسانی بھی۔ مگر وہ لوگ جو خاندانی رئیس تھے ان دونوں کے ملبوسات بہت محفوظ اور الگ تھے جیسے وہ اس دنیا کے باسی نہ ہوں۔ اس وقت ایسا لگا گویا کہ زندگی میں نسل در نسل ورثہ منتقل ہونا دراصل نسل در نسل سنجیدگی وقار رواداری احتیاط اور کم گوئی کا انتقال ہے۔
لوگ بڑے جوش و خروش کے ساتھ تصاویر بنا رہے تھے اس کارواں کے ساتھ مگر وہ دونوں ایک جانب کھڑے صرف محظوظ ہو رہے تھے آگے آگے بڑھ کر دھکم پیل کر کے کسی کو نہیں کہ رہے تھے کہ ہم مالک ہیں ہماری بھی لو۔ اس مختصر وقت میں سیکھنے کو بہت کچھ ملا ۔ مہذب قومیں کیسے تہذیب یافتہ ٹیگ لگاتی ہیں اپنے ساتھ یہ پتہ چلا ۫ نعمتوں پر اترانا نہیں ہے خوبیوں کو جتلانا نہیں ہے بھاری بوجھ سمجھ کر ان کو باوقار انداز میں ہمراہ تو رکھنا ہے مگر ان کو نمائشی انداز دے کر خود کو عام نہیں کرنا۔ سب میں رہ کر سب سے الگ جداگانہ انداز ہی اصل مومن کی میراث تھا جسے ہم نے شور شرابے اور دھکم پیل میں کھو دیا۔
ایک دوسرے کو احترام دے کر راستہ دے کر خود کو ایک قدم پیچھے رکھنے کی بجائے آگے والے کو گرانے کیلئے ہر ممکنہ منفی اقدامات کر کے آج ہم نے خود کو تو منوا لیا لیکن اپنے آباء کے ورثے کو یوں خاص نہ بنا سکے کہ ان کی عادات کو افکار کو اپنی ذات میں شامل کر کے وزنی ہوتے بلکہ اپنی ذات کے مفادات کو نئے سرے سے نئے زمانے کی ضرورت کے قالب میں ڈھال کر اپنے وجود کو ہلکا کر لیا۔ اسی لئے تو آج بطور مومن تو دور کی بات ہے بطور مسلمان بھی ہمیں کوئی دیکھ کر ہمارے اطوار کو جانچ کر ہمارے گرد یوں بھیڑ نہیں اکٹھی ہوتی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے جس نے بھی آگے بڑہنا چاہا ایک دوسرے کیلئے تحسین و ستائش کی بجائے حسد رقابت اور منفی اقدامات کا سہارا لے کر اس کی ہر خوبی کو ہم نے منفی کیا ۔ نتیجہ اسلاف کے اوصاف کو ہم نے بھلا کر اس عارضی قیامگاہ کے غیر فطری تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے خود کو ارزاں کر دیا ہلکا کر لیا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر کھوج لگائیں اور اپنی نسلوں کیلئے اپنے ساتھ اپنے پچھلے بزرگوں کی روایات کو تلاش کر کے اپنی ذات کا صفات کا زندگی کا حصہ بنائیں تا کہ ہماری نسل ہمیں یوں ہی گھیرے میں لے کر ہم سے ہمارے اسلاف کیلئے شوق سے سوالات کرے اور ہم سیر حاصل جواب دیں کہ ہم صرف یہ نہیں ہیں جو سامنے آج کچھ سال کی محنت سے دکھائی دے رہے ہیں ہم گو مالدار نہیں تھے مگر مضبوط دینی سماجی معاشرتی روایات اقدارات رسومات سے پُر ثقافت رکھتے ہیں۔ آج غور کیجیۓ!! اہلیان یورپ جو پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں اپنی اولادوں کے سامنے اس طرح سرخرو نہیں ہیں کیونکہ بچوں کو کچھ سال کی محنت سے والدین کی مضبوطی دکھائی دیتی ہے جب وہ پاکستان جاتے ہیں تو وہاں افلاس بھوک اور حرص میں مبتلا معاشرہ انہیں والدین کی وراثت دکھائی دیتی ہے۔
کمی ہمارے اندر ہے کہ ہم دنیاوی ضروریات کثرت مال سے بچوں کیلئے مہیا کی مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنی مصروفیت میں انہیں وہ اصل وراثت کی منتقلی بھول گئے جو بہت شاندار تھی بے شک وہ پُرتعیش نہ تھی مگر ہمارے پاس بہت کچھ تھا جسے ہم نے نا مناسب سمجھ کر اپنے بچوں سے چھپایا یا بتانے سے گریزاں رہے۔ ہمارا وزن آج بھی بڑھ سکتا ہے اگر ہم احساس کمتری کا یہ چولہ اتار پھینکیں اور اس جدید معاشرے میں رہ کر بھی فخر سے اپنے اسلاف کے اطوار کو ماضی کی معاشرتی روایات کو اپنے بچوں کے سامنے بیان کریں۔ دیکھیۓ گا ماضی کی شان دولت سے نہیں اسلاف کی روایات سے طاقتور ثابت ہوگی اور نئی نسل ہمیں غریب ماضی کا حصہ دار نہیں سمجھے گی بلکہ وہ جان لیں گے کہ ان کے پیچھے والے بھی ماضی رکھتے تھے۔
ایسے ہی نئی نسل سننا چاہے گی آپ کے آباء و اجداد کے واقعات اور یونہی تعظیم دیں گے آپکو کہ آپ بھی کوئی ماضی رکھتے ہیں اس لئے ماضی کی غربت سے راہ فرار حاصل کر کے ہم کمزور ہوئے ہیں آئیے اپنے اصل کو سامنے لائیں اور پھر سچائی کی طاقت اور رشتوں کی مضبوطی کو آزمائیں ۔ ہمارے چہرے بھی فخر سے یونہی دمکیں گے جیسے ان لوگوں کے جو دنیاوی شاندار ماضی کی تعبیر بنے ہجوم میں گھِرے ہوئے ہیں۔ ہم منحرف ہو کر کمزور ہوئے آئیے انحراف ماضی کو ترک کر کے اقرار کریں ۫
تحریر : شاہ بانو میر