تحریر: محمد آصف ا قبال، نئی دہلی
فی الوقت ہندوستان میں بڑے زور و شور سے نیشنلزم کی بحث جاری ہے۔ جو خاصی دلچسپ بنتی جا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جس کو دیش سے محبت ہے وہ “بھارت ماتا کی جئے” کا نعرہ لگائے گا اور جس کو دیش سے محبت نہیں وہ یہ نعرہ نہیں لگائے گا۔ باالفاظ دیگر جو دیش بھکت ہے اور نعرہ بھی لگاتا ہے تو مخصوص نعرے کی آڑ میں اس کا ہر عمل حلال تسلیم کیا جائے گا ۔دوسری جانب جو یہ نعرہ نہیں لگاتا وہ دیش دروہی ہے ۔اس کے باوجو دکہ اس کے تمام اعمال ملک کے لیے مثبت ہیں لیکن اس کے کسی عمل پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن جن لوگوں نے نعرہ کو بطور ایشو اٹھایا تھا معلوم نہیں کیوں اور کیسے اچانک خود اپنے ہی بیان سے پلٹ گئے ۔یا یہ کہیے کہ اپنے بیان کی تشریح نئے انداز میں پیش کردی۔ کہا کہ جمہوریت میں سب آزاد ہیں۔کسی کو کسی بھی مخصوص نعرہ لگانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اس موقع پر ضروری تھا کہ مسلمانوں کے اکابر علماء کرام مسلمانوں کو اس نعرہ ،اور اس کی ادائیگی میں قباحت سے ،مدلل انداز میں سمجھاتے۔تاکہ اگر یہ سوال دوبارہ اٹھایا جائے یا نہ بھی اٹھایا جائے تب بھی مسلمانوں کو لازماً یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ یا اس طرح کے دیگر نعروں کی ادائیگی میں قباحت کیا ہے؟اور وہ کیوں اس کی مخالفت کرتے ہیں؟
غالباً انہیں حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہندوستان کے اکابر علماء کرام کا اتفاق ہے کہ ہمیں بحیثیت مسلمان یہ نعرہ نہیں لگانا چاہیے۔اعتراض کی وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ پہلی بات تو یہ کہ بھارت ماتا کی جے پر اصرار اُسی وقت ممکن ہے جبکہ آئین میں اس کا ذکر ہو۔اور دوسری بات یہ کہ چونکہ بھارت ماں کی ایک تصویر اور مورتی بنائی جاتی ہے،جس کے آگے ہاتھ جوڑ کر یا اعتقاداً پوجا پاٹ بھی ہوتی ہے،اور آئندہ اس کے مزید امکانات ہیں،لہذا اس صورت میں یہ عمل ہمارے لیے نہ صرف ایک مشرکانہ عمل ہے بلکہ وحدانیت کے تصور میں شرک کی آمیزش بھی ہے۔ان دونوں ہی صورتوں میں ہم اس نعرہ سے اتفاق نہیں کر سکتے۔برخلاف اس کے قومی ترانہ جن گن من سے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔پھر اگر ان دومسئلوں کو پس پشت ڈال دیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ آیا مسلمانوں نے ملک کے لیے ماضی میں کیا کچھ قربانیاں دی ہیں؟ تو تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک ،اس کی آزادی اور اس کی سلامتی ،بقا اور تحفظ کے لیے مسلمانوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں ۔لہذا نعرہ لگانے یا نہ لگانے سے کسی فرد ،گروہ یا قوم کی محبت اور نفرت کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔
دوسر ی جانب ریاست مہاراشٹر کے پونے میں شنی شنگناپور مندر میں خواتین کے داخلہ پر طویل مدت سے شور برپا ہے۔ ترپتی دیسائی نامی خاتون اور ان کی دیگر خواتین ساتھیوں نے ایک طویل عرصہ سے جدوجہد جاری کی ہوئی ہے۔اور ان خواتین کی طویل جدوجہد ہی کا نتیجہ ہے کہ آخر کاربامبے ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ مندر میں تمام خواتین کو جانے کی اجازت ہے۔اور کورٹ کے فیصلہ کو روبہ عمل لانے کے لیے بی جے پی کے وزیر اعلیٰ فڈ نویس نے بھی کہا ہے کہ نہ صرف شنی شنگنا پور مندر میں بلکہ ریاست کے تمام مندروں میں خواتین کو جانے اور وہاں پوجا پاٹ کرنے کی اجازت ملے گی۔اس سب کے باوجود جب خواتین مندر میں پوجا پاٹ کرنے کے لیے مندر میں داخل ہو رہی تھیں تو مقامی لوگون نے جن میں خواتین بھی شامل تھیں، ہنگامہ کیا اور اس عمل کی مخالفت کی۔
لہذا پولیس نے ترپتی دیسائی اور ان کی 26خواتین ساتھیوں کو حراست میں لے لیا۔توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ ایشور،بھگوان،یا خدا کی عبادت جو ایک انسان کی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے،اس میں یہ تفریق کہ مرد پوجا کرسکتے ہیں اور عورتیں نہیں۔یہ کس حد تک صحیح ہے؟اسی درمیان گزشتہ دنوں شہر ممبئی کے ساحلی علاقہ میں حاجی علی نامی درگاہ پر بھی خواتین کو جانے اور وہاں پوجاپاٹ کرنے کی آواز،مسلم خواتین کی جانب سے اٹھی تھی۔اور اس وقت ان دونوں “عبادت گاہوں”میں خواتین پر بابندی کیوں ہے؟سوال سامنے آئے تھے۔لیکن یہاں اور وہاں میں دلچسپ اور واضح فرق غالباًیہی ہے کہ درگاہوں اور قبروں پر جانا،دعائیں کرنا،منتیں مانگنا،یہ تمام اعمال اسلام میں عبادت کے زمرے میں نہیںآتے ۔برخلاف اس کے مورتی پوجا ،اس کے آگے ہاتھ جوڑکر خاص انداز میں اشلوک پڑھنا ،ہندو مذہب یا کلچر میں عبادت سمجھاجاتا ہے۔اور یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ بندے اور بھگوان کا رشتہ استوار ہوتا ہے۔بصورت دیگر اسلام میں درگاہوں پر جانے سے بندے اور اس کے خدا کا رشتہ استوار نہیں ہوتا اور نہ ہی اسے عبادت کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔
تیسری جانب آج کل ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات شروع ہونے جا رہے ہیں۔ جہاں برسراقتدار ریاستی حکومتیں اپنے وجود کو برقرار رکھنے میں کوشاںہیں تو وہیں حزب اختلاف کی پارٹیاں موجودہ حکومتوں کی بدنظمیاں اور وعدہ خلافیوں کو عوام کے سامنے لانے میں کوشاں ہیں۔ساتھ ہی اگر وہ کامیاب ہوتے ہیں توریاست کو مزید کیسے بہتر بنائیں گے اورمتعلقہ حلقہ میںبے روزگاری، غربت، تعلیم ،صحت ودیگر مسائل کو کیسے حل کریں گے،یہ سب بتانے اور سمجھانے میں مصروف ہیں۔ پانچ ریاستیں ،آسام،مغربی بنگال،کیرلہ،تمل ناڈو اور پانڈیچری،جہاں اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں ان میں مغربی بنگال اور آسام کی ریاستوں میں 4اپریل کو پہلے مرحلہ کا الیکشن ہونا ہے۔اور ان دونوںہی ریاستوں کی خصوصیت یہ ہے کہ مسلم آبادی کے لحاظ سے ہندوستان کی سب سے بڑی ریاستیں جانی جاتی ہیں۔آسام میں 34.2 %فیصد مسلمان آباد ہیں تووہیں مغربی بنگال میں27.1 % فیصد۔ مغربی بنگال میں تین ڈسٹرکٹ، مرشد آباد،مالدہ،اتردیناجپورایسے ہیںجہاں بالترتیب 70.2%،51.27 %اور 50.92 % فیصد مسلمان آباد ہیں ۔وہیں سائوتھ 24 پرگنا،نارتھ 24 پرگنا،نادیہ،بیر بھوم،ہائوڑا،کوچ بہار،وہ ڈسٹرکٹس میں مسلمانوںکی آبادی 25 سے 35 فیصد کے درمیان موجود ہے۔دوسری جانب ریاست آسام کی بات کی جائے تو ڈھوبری میں 79.67%،بیرپیٹا میں 70.74 % فیصد ،دھررنگ میں 64.34 %فیصد مسلمان آباد ہیں۔وہیں بون گے گائوں،گول پاڑہ،ہیلا کنڈی،کریم گنج،موری گائوں، ناگائوں،وہ ڈسٹرکٹس میں مسلمانوں کی آبادی 50 سے 60 فیصد کے درمیان موجود ہے ۔اس کے باوجود افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہی وہ دوریاستیں ہیں جہاں مسلمانوں کی معاشی و معاشرتی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو وہ حد درجہ مسائل سے دوچار ہیں۔
اوپینئن پول یا ایگزٹ پول کی روشنی میں یہ بات صاف ہوتی نظر آرہی ہے کہ مغربی بنگال میں بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت تشکیل دے،کسی صورت بھی یہ ممکن نہیں ہے۔CVoter Opinion Poll 2016 نے ترنمول کانگریس کو 160سیٹوں پر سب سے آگے دکھایا ہے،وہیں کانگریس کو 21 ،لیفٹ کو 106 ،بی جے پی کو 4اور دیگر کی 3سیٹوں پر کامیابی دکھائی ہے۔برخلاف اس کے آسام کے opinion pollمیں بی جے پی کو کہیں آگے تو کہیں پیچھے دکھایا جا رہا ہے۔ نیوز نیشن نے کانگریس کو 54-58،بی جے پی کو 50-54،اے آئی یو ڈی ایف کو 13-17اور دیگر کو 2-4سیٹیوں پر کامیاب دکھایا ہے۔وہیں ٹائمس نائو سی ووٹر نے کانگریس کو 53، بی جے پی اور ان کے حلیف کو 55،اے آئی یو ڈی ایف کو 12اور دیگر کو 0 سے 2 سیٹوں پرکامیاب دکھایا ہے۔ دیگر opinion poll نے بھی اسی کے آس پاس اپنے نمبرس دیئے ہیں۔ ریاست آسام کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں بدرالدین اجمل کی اے آئی یو ڈی ایف اہم کردار ادا کرسکتی ہے،گرچہ وہ بی جے پی کو روکنا چاہے اور کانگریس کے ساتھ حکومت بنائے۔
لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ جموں کشمیر کی طرح آسام میں بھی کانگریس کے بعد دوسرے نمبر پر کامیابی حاصل کرنے والی پارٹی بی جے پی کی حمایت سے حکومت تشکیل دے۔اور اس کا قیاس اس لیے زیادہ ہے کہ مرکز میں برسراقتدار پارٹی کے تعاون سے جب کبھی بھی ریاست میں حکومت تشکیل دی جاتی ہے تووہ تمام سہولیات باآسانی حاصل ہو جاتی ہیں،جو کسی بھی دیگر سیاسی پارٹی کے ساتھ حکومت بنانے میں حاصل نہیں ہوتیں۔ مغربی بنگال و آسام دونوں ہی ریاستوں میں 4 اپریل کو پہلے مرحلہ کا الیکشن ہونا ہے۔جہاں آسام میں کل 126 سیٹوں میں سے 65 سیٹوں پر تو وہیں مغربی بنگال میں کل 240 سیٹوں میں سے 18 سیٹوں پرووٹنگ ہوگی ۔دیکھنا یہ ہے کہ 19 مئی 2016 کو آنے والے نتائج ملک اور ریاست کی کیا تصویر پیش کرتے ہیں۔ اور غالباً یہی وہ نتائج ہوں گے جن کی بنا پر ایک بار پھر ممکن ہے دیش بھکت اور دیش دِروہی کے نعروں کا دوسرا مرحلہ شروع کیا جائے!
تحریر: محمد آصف ا قبال، نئی دہلی
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com