پاکستان کی سب سے بڑی اور مضبوط سمجھی جانے والی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کے سابق سربراہ میاں محمد نواز شریف جو پاکستان میں تین بار اپنی حکومت بنا چکے ہیں، سپریم کورٹ کی جانب سے پاکستان کے آئین کی شق باسٹھ ون ایف کے تحت صادق اور امین نہ ہونے پر تاحیات کسی بھی سرکاری عہدے یا الیکشن میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دے دیے گئے ہیں۔
1973ء کے آئین کی دفعہ 62،63 میں پارلیمنٹ کا ممبر بننے کے لئے تمام نکات بیان کئے گئے ہیں، جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
“ممبر آف پارلیمنٹ کا پاکستانی شہری ہونے کے ساتھ ساتھ صادق اور امین ہونا بھی ضروری ہے۔”
“ممبر آف پارلیمٹ کا کردار پاک ہونا چاہئیے اور اسے گناہوں سے اجتناب کرنا چاہئیے۔”
“ممبر آف پارلیمنٹ کو عدالتی حکم کی تکمیل کرنا ضروری ہے۔”
“ممبر آف پارلیمنٹ کے لئے اسلام کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔”
سوال یہ ہے کہ کون سا ممبر آف پارلیمنٹ اس دفعہ کے تحت صادق و امین کہلوانے کا حقدار ہے؟
آصف علی زرداری کی جماعت پیپلزپارٹی نے 2008ء کے الیکشن جیت کر حکومت بنائی تھی۔ سیاست کے میدان میں انہیں مفاہمت کا بادشاہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سیاست سینٹ کے الیکشن کے لئے کرنی ہو یا ڈاکٹر عاصم کو کرپشن کیسز سے بچانے کے لئے، انہیں ہر معاملے میں ماہر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے الیکشن 2008ء جیتنے کے بعد پانچ سال اس قوم کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا، پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں کرپشن کے بڑے بڑے سکینڈل سامنے ائے، بات آصف علی زرداری کے کردار کی ہو تو، ماڈل ایان علی کا نام سرِفہرست اتا ہے۔
عمران خان ابھی تک وفاق میں کوئی حکومت نہیں بنا سکے۔ 2013ء میں بڑی جدوجہد کے بعد وہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ عمران خان کی شخصیت کو کرپشن کیسسز سے آزاد سمجھا جاتا ہے اور ان کی ایمانداری پر انگلی اٹھانا تھوڑا مشکل کام ہے مگر کہیں نہ کہیں عمران خان کے کردار پر بھی سوال اٹھتے رہے ہیں۔ امریکی عدالت نے عمران خان کو سیتا وائٹ کے پانچ سالہ بچے کا باپ قرار دیا گیا۔ پی ٹی ائی کی ایم این اے عائشہ گلالئی بھی عمران خان کی کردار کشی کر چکی ہیں اور ان پر بداخلاقی کا الزام عائد کر چکی ہیں۔ ہو سکتا ہے عمران خان پر لگنے والے الزامات غلط ہوں۔ مگر اس پر تحقیقات کرنے کےلئے کمیٹی بننی چاہئیے تھی، اس حوالے سے عمران خان کی شخصیت بھی 62 اور 63 پر پورا نہیں اترتی۔
کیا آئین کی دفعہ 62 اور 63 میں مالی بدعنوانی کے شکار لوگ ہی صادق اور امین نہیں ہیں؟ کیا یہ دفعات اخلاقی الزامات اور اخلاقی جرائم کو جرم نہیں سمجھتی؟ ہمیں بھی من حیث القوم یہ سوچنا ہوگا کہ ہم عوام کتنے صادق اور امین ہیں۔ ہماری اپنی سوچ باسٹھ اور تریسٹھ پر پوری نہیں اترتی مگر ہمیں حکمران صادق اور امین چائیے۔ ہم اپنے بے ایمان ہاتھوں سے کرپٹ ترین سیاست دان کو ووٹ دیتے ہیں اور ایماندری کی سب توقعات اس سیاست دان سے وابستہ کرلیتے ہیں۔ اگر تمام سیاستدان اللہ کو حاضر ناظر جان کر سچ بولیں یا کڑے سوالات کا جواب دیں تو کوئی بھی صادق اور امین نہیں رہے گا۔ نہ صرف سیاستدان بلکہ اگر ایک عام شہری سے لے کر سکول کالج کے کلرک تک سے حلف لیا جائے تو سب تاحیات نااہل ہوجائیں گے۔
مسئلہ حکمراںوں کا نہیں عوام کا ہے۔ کہتے ہیں کہ جیسی عوام ویسے ہی حکمران۔